[ad_1]
یہ خبر ہم پاکستانیوں کے لیے انتہائی خوش کن ہے کہ پاکستان نے خلا میں پہلا قدم رکھ دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے سیٹلائٹ آئی کیوب قمر کو کامیابی کے ساتھ چین کے خلائی مشن چنگ ای 6 کے ساتھ چاند تک پہنچنے کے لیے روانہ کر دیا گیا تھا جو اب چاند کے مدار میں داخل ہو چکا ہے، یہ خبر پاکستانیوں کے لیے مژدہ جاں فزا سے کم نہیں ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے ملک کی معاشی بدحالی کے پورے دنیا میں چرچے ہو رہے ہیں مگر اب چاند تک پہنچنے کے اس مشن نے اقوام عالم میں ہمیں پھر سے سرخرو کردیا ہے۔ یہ دنیا کے انوکھے واقعات نہیں ہیں تو پھرکیا ہیں کہ معاشی مسائل میں گرفتار پاکستان پہلے دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بن گیا اور اب وہ چاند کو تسخیر کرنے والے دنیا کے آٹھ ممالک میں شامل ہوکر ایک ممتاز ملک بن گیا ہے۔
پاکستانی عوام میں کیا خوب وطن پرستی کا جذبہ کار فرما ہے کہ وہ پاکستان کے خلا میں پہلا قدم رکھنے پر اس قدر خوشی اور فخر محسوس کر رہے ہیں کہ اپنے مسائل کو بھی بھول بیٹھے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کے خلا میں پہلا قدم رکھنے کی خبر نے عوام کو ایک نیا حوصلہ اور جذبہ عطا کیا ہے اور ان کی مایوسی کو خوشی میں تبدیل کر دیا ہے۔
پاکستان نے اپنے کم وسائل کے باوجود جوہری طاقت حاصل کی ہے اور اب اپنے قلیل بجٹ کے باوجود بھی اس خلائی مشن کو مزید وسعت دے گا اور لگتا ہے بھارت سے بھی آگے نکل جائے گا۔ کیا پاکستان ایٹمی دھماکوں میں بھارت پر بازی نہیں لے گیا تھا، بھارت نے پانچ دھماکے کیے تھے مگر پاکستان نے اس کے جواب میں ایک دھماکا زیادہ یعنی کل چھ دھماکے کر کے اپنی برتری ثابت کردی تھی۔ ویسے بھی بعد میں عالمی ایٹمی ماہرین نے پاکستانی جوہری بم کو بھارت سے زیادہ کارگر بتایا تھا۔
کچھ عرصہ قبل بی جے پی حکومت کے وزیر دفاع نے سری نگر آ کر ایک تقریب میں کہا تھا کہ’’ بھارت بہت جلد آزاد کشمیر کو اپنا حصہ بنا لے گا۔ یہ علاقہ بھارت کا ہے جس پر پاکستان نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔‘‘ الٹا چورکوتوال کو ڈانٹ رہا تھا۔ بھارت ہرگز آزاد کشمیر کو پاکستان سے نہیں چھین سکتا کیونکہ پاکستان اپنے علاقوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔
دراصل پاکستان کی معاشی بدحالی کی وجہ سے اس وقت بھارتی لیڈر خصوصاً بی جے پی والے پاکستان کو بہت ہلکا لے رہے ہیں اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان اپنی معاشی پریشانی کی وجہ سے بھارت سے جنگ کا متحمل نہیں ہوسکے گا مگر اسے معلوم ہونا چاہیے کہ 1965 اور 1971 میں بھی بھارت کی فوجی طاقت پاکستان سے کئی گنا زیادہ تھی مگر وہ پاکستان کو ختم کرنے کا اپنا مشن پورا نہیں کر سکا تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی نے مارشل لا کا سماں پیدا کردیا ہے۔ یہ خطہ 1948 سے متنازعہ ہے اس کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی ہونا ہے۔ جس طرح کشمیر پر بھارت کا قبضہ ناجائز ہے اسی طرح اسرائیل بھی ایک ناجائز ملک ہے۔ کشمیر کے اصل مالک کشمیری ہیں تو اسرائیل کے اصل مالک اور وارث فلسطینی ہیں۔
اگر کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کے حق میں ہوتا ہے تو پھر اسرائیل کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے، اس لیے امریکا اور اس کی حلیف سامراجی طاقتیں مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتیں تاکہ اسرائیل پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، بہرحال اب تو حالات بدل چکے ہیں وہ تو دو ریاستی حل کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اسرائیل سے اسلامی ممالک ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے مگر اسرائیل اس تجویز سے نہ صرف انحراف کر رہا ہے بلکہ غزہ میں مسلسل نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے۔
جہاں تک مودی کا تعلق ہے وہ بھی نیتن یاہو کے راستے پر چل رہا ہے مگر اسے مغربی ممالک کی نیتن یاہو کی طرح سپورٹ حاصل نہیں ہے۔ مودی کے چندریان مشن اور ارم مندر کی تعمیر سے بھی اسے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا، چنانچہ اب وہ پھر مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے مگر اب لگتا ہے بھارتی عوام اس کی نفرت کی پالیسی کو سمجھ چکے ہیں لہٰذا اس دفعہ اس کا الیکشن میں جیتنا مشکل ہی نظر آ رہا ہے۔
[ad_2]
Source link