12

مستقبل کا راستہ تلاش کرنا ہوگا

[ad_1]

پاکستان نے آگے بڑھنا ہے اور عوامی مفادات کو بالادست بناناہے تو موجودہ پالیسیوںکو خیرآباد کہنا ہوگا ۔ماضی کی پالیسز پر قائم رہنے کی ضد سے ہمارے مسائل کسی بھی صورت میں حل نہیں ہوںگے۔

ماضی سے سبق سیکھ کر یا اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں اوراپنی حکمت عملیوں میں ایسا کچھ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں جو ہماری ساکھ کو قائم کرسکے۔

جو لوگ ماضی میں رہنا چاہتے ہیں، ان کا طرز عمل آگے بڑھنے کے راستوں کو محدود کرتا ہے ۔ہمیں قومی مسائل کے حل میں خود کو مسائل کے حل کے طور پر بطور فریق پیش کرنا چاہیے ۔ یہ تاثر عام نہیں ہونا چاہیے کہ ہم مسائل کے حل کے بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنے میں اپنی توانائیوں کو ضایع کرتے ہیں ۔

کیا سیاسی طور پر یا دیگر مختلف فریقین کی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ الجھنا ہماری مجبوری بن گئی ہے او رکیوں ہم مل جل کر نہ تو کام کرنے کے عادی ہیں اور نہ مل کر کوئی ایسا منصوبہ بناتے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔اس وقت ہمارا نظام ایک دوسرے کے ساتھ ہی الجھا ہوا ہے۔

ہر قوم پر ایک مشکل وقت ضرور آتا ہے اور بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہم کہیں گم ہوکر رہ گئے ہیں ۔لیکن ایک اچھی اور متوازن قیادت ہی بحرانوں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی ہے ۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں مگر ان غلطیو ں پر قائم رہ کر ہم کچھ نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی ترقی کے عمل کو پورا کرسکیں گے ۔

سانحہ 9مئی ہماری تاریخ کا بدنما دن ہے ۔ کاش یہ سانحہ نہیں ہوتا ۔ ہم اپنی سیاسی حکمت عملیوں میں غیر سیاسی حکمت عملیوں کو بنیاد بنا کر سیاسی مہم جوئی کو فروغ نہ دیتے۔یہ سانحہ 9مئی ہماری تاریخ میں کئی نشان چھوڑ گیا ہے اور ایک تقسیم کو پیدا کرنے کا سبب بنا ۔ اسی سانحہ کی بنیاد پر ہم آگے بڑھنے کے بجائے بظاہر ایک بہت ہی بڑے ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئے ہیں اور عملا ایک بند گلی ہماری را ہ دیکھ رہی ہے۔ سانحہ 9مئی میں کون غلط تھا اور کون درست اس پر اپنا اپنا بیانیہ ہے ، تلخیاں بہت بڑھ چکی ہیں۔

سوشل میڈیا جلتی پر آگ کا کام کررہا ہے۔ مخصوص ایجنڈا رکھنے والے سوشل میڈیا گروہ ریاستی ادارے کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ہم نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور پی ٹی آئی کی۹ جوابی پریش کانفرنس کی صورت میں دیکھی ہے ۔ اب آگے بڑھنے کے راستے محدود ہوتے جارہے ہیں ۔

آگے کیسے بڑھنا ہے یہ سوال کہیں گم ہوگیا ہے۔9مئی میں جو لوگ بھی ملوث ہیں اور جو لوگ بھی اس کی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں اور تحقیقات میں ان پر جرم ثابت ہوتا تو انھیں لازمی سزا ملبی چاہیے۔ ادھر عدلیہ میں سے بھی ایسی آوازوں کو سامنے نہیں آنا چاہیے کہ ہم پر دباؤ ہے اور ہمارے کام میں مداخلت ہورہی ہے۔

میں قومی سیاست میں مفاہمت کا آدمی ہوں اور سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر ہی مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دیتا ہوں ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں مفاہمت کے امکانات بہت محدود ہیںلیکن اس کے باوجود میں نہ تو مایوس ہوں اور نہ ہی مفاہمت کے بیانیہ سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہوں۔ ہمیں مجموعی طور پر موجودہ سیاسی ، معاشی اور سیکیورٹی کے حالات سے نمٹنے اور بہتر گورننس کے نظام کو یقینی بنانے کے لیے ایک بڑے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔

یہ ڈائیلاگ ایک یا دوفریقوں تک محدود نہیں ہوںگے بلکہ اس میں سیاسی اور غیر سیاسی سب کو مل کر بیٹھنا بھی ہوگا اور ایک دوسرے کے لیے ان کو راستہ بھی دینا ہوگا۔ کیونکہ تاریخ کا یہ ہی سبق ہے کہ مسائل کے حل کا جنگ نہیں امن ہے۔ حکومت میں شامل جماعتوں کو لگتا ہے کہ یہ جو موجودہ تلخیاں عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ہیں، اس کی موجودگی ہی ہماری سیاسی جیت ہے ۔کیونکہ اگر ان دونوں میں ٹکراو کا ماحول موجود رہے گا تو اس کا براہ راست سیاسی فائدہ حکومتی طبقہ کو ہی ہوگا۔لیکن یہ سیاسی فائدہ وقتی تو ہوسکتا ہے مگر اس کے نتائج مستقبل کی سیاست کے تناظر میں اچھے نہیں ہوںگے ۔

اس لیے پاکستان میں رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں جن میں سول سوسائٹی ، میڈیا، دانشور، اہل قلم ، استاد ، علمائے کرام اور سیاسی جماعتیں یا وکلا شامل ہیں ان کو اپنے اپنے ذاتی سیاسی ایجنڈے اور سیاسی خواہشات کے کھیل سے خود کو بھی نکالنا ہے اور دیگر کو بھی نکالنا ہے۔

ہم سب کو ایک ہی نقطہ پر زور دینا چاہیے کہ ایک دوسرے کے لیے راستہ نکالنا ہے ۔ سخت گیر موقف یا اپنے موقف میں بغیر کسی لچک کے کھڑے رہنا کوئی دانش مندی نہیں بلکہ اس عمل سے مفاہمت کے امکانات محدودہوںگے ۔جب کہ ہمارا قومی ایجنڈا ایک مضبوط سیاست و معیشت کے لیے سوائے حقیقی مفاہمت کے علاوہ کوئی ایجنڈا ہماری ترجیح نہیں ہونا چاہیے ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں