[ad_1]
(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ سترہواں اور آخری پڑاؤ)
’’ہر نیا سفر کئی دریافتوں اور انکشافات کا موجب بنتا ہے‘‘
یہاں ہم یک سرائے کا ذکر بہت محبت اور پیار سے کرنے والے ہیں۔ پہلے یک سرائے کو کتابوں میں آنے والے ذکر سے پہچانتے تھے۔ ترکی کے ہر رائٹر نے استنبول کے ذکر کے ساتھ یک سرائے کو شامل کیا ہے۔
ہم جب استنبول میں داخل ہوئے تھے تو پہلا قدم بھی یک سرائے میں رکھا تھا۔ یہ بھی استنبول کا قدیم علاقہ ہے۔ رات میں تو اندازہ نہیں ہوا اور ہم پچھلی گلی سے نکل کر کھانا کھانے گئے تھے مگر آج جب ہم باہر آئے تو ہوٹل کے سامنے نظر پڑی یہاں لائن سے ATM مشین اور کارڈ مشین لگیں تھیں اور پچھلی طرف جو دیوار تھی وہ قبرستان کی تھی۔ یہ ایک بہت پرانا قبرستان تھا۔ جس کا تعلق بارہویں اور تیرہویں صدی سے تھا اور یہاں کے قبرستانوں کی طرح اونچائی پر بنا موٹی موٹی جالیوں والا، جو وقت کے ساتھ سفید سے پیلی ہوچکی تھیں۔
لیجیے اماں آپ کی تو سورۂ فاتحہ کا انتظام ہوگیا۔ عزیز نے قبرستان کو دیکھتے ہی کہا۔ میں نے کہا چلو پہلے ہاتھ اٹھاکر سورۂ فاتحہ پڑھو یہ ان مردوں کا حق ہے۔ ہم نے وہیں کونے پر کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی۔ دن کے وقت اور دوسرے راستے سے آنے کی وجہ یک سرائے کا منظر بہت مختلف تھا۔ ہم نے یہاں سے کچھ چیزیں خریدنی تھیں جیسے آرٹیفیشل جیولری کے سیٹ وغیرہ۔ ترکی میں آرٹیفیشل جیولری بہت اچھی اور سستی ہوتی ہے مگر جیسا سنا تھا ایسا کچھ نہیں تھا۔ اچھی تو تھی مگر اتنی سستی نہ تھی، اس لیے زیادہ نہیں خرید پائے۔
عزیز کو کمپیوٹر کی تلاش تھی جو اس کے ایک دوست نے کہا تھا کہ اگر اچھا ملے تو میرے لیے لے لینا۔ کافی دکانیں چھاننے کے بعد ایک پسند آیا جب عزیز نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اس قیمت پر مل رہا ہے تو اس نے کہا کہ خریدنا مت، یہاں پاکستان میں زیادہ سستا ہے۔ چلو چھٹی ہوئی۔ میں تو پہلے نہیں چاہا رہی تھی کہ عزیز یہاں سے اتنا مہنگا کمپیوٹر خریدے اگر دوست کو پسند نہ آیا، یہ بات میں پہلے سے کہہ رہی تھی۔ عزیز نے دوست کی بات سن کر کہا اماں آپ ہمیشہ جیت جاتی ہیں۔ آپ کے دل میں یہ ہی تھا کہ میں اپنے دوست کے لیے کمپیوٹر نہ خریدوں۔
اگر تم ایسا سمجھ رہے ہو تو ایسا ہی سہی، مگر انکار تو تمہارے دوست نے کیا ہے۔ لیکن ہمارا خاصا وقت خراب ہوگیا۔ ہم نے یک سرائے کے قدیم علاقے کے بارے میں سن رکھا تھا ۔ عزیز نے کہا پہلے ہم اس بس کا معلوم کرلیتے ہیں جو ہم کو ایئرپورٹ لے کر جائے گی۔ اس کے ٹائمنگ کیا ہوں گے۔ یہاں کئی Havaist کی بسیں کھڑی تھیں۔ وہاں ہم نے عملے سے معلومات کیں تو معلوم ہوا کہ ہر پندرہ منٹ کے بعد ایئرپورٹ کے لیے بس نکلتی ہے۔ ایک مسئلہ تو حل ہوگیا تھا۔ اب ایئرپورٹ جانے کی تو فکر ہی نہیں تھی۔
سامنے ہی میٹرو اسٹیشن تھا۔ یہاں ہی ایک طرف پولیس اسٹیشن تھا مگر سوائے دو پولیس مینوں کے کوئی نہیں تھا حالانکہ احاطے میں کافی موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں کھڑی تھی۔ ہم وہاں سے قدیم یک سرائے کے علاقے میں آگئے۔ ہم جیسے ہی ایک گلی میں مڑے تو ایسے ہی ٹہلتے ہوئے ایک جگہ پہنچے تو وہاں ایک ہوٹل نما کمرے میں چاروں طرف ٹی وی لگے تھے اور کافی رش اور شورشرابا ہورہا تھا۔ میں نے عزیز سے کہا یہاں سے چلو یہ اچھی جگہ نہیں ہے۔ ہم ایک اور گلی میں مڑگئے اور اس جگہ سے کافی آگے آگئے یہ دیکھنے میں کوئی رہائشی علاقہ لگ رہا تھا ۔ سبزی اور گروسری کی کافی دکانیں تھیں۔ عزیز کہنے لگا کچھ کھالیتے ہیں بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ صبح کا ناشتا بھی کچھ اچھا نہیں کیا تھا۔ وہاں سامنے گلی میں کرسیاں میزیں لگیں تھیں۔ ہم وہیں بیٹھ گئے تھے۔ ہمارے ساتھ ہی کچھ لوگ بیٹھے تھے جو چائے پی رہے تھے۔ ایک لڑکی جس کا لباس خاصا نہ مناسب تھا کہیں اندر سے نکل کر آئی تھی۔ اس نے ہم سے ٹرکش زبان میں پوچھا۔
عزیز نے اسے چائے کہا اور مجھ سے کہنے لگا اماں ہم یہاں سے کچھ کھائیں گے نہیں۔ کھانا کہیں اور چل کر کھائیں گے۔
وہ لڑکی ہمارا آرڈر لے کر اندر چلی گئی۔ ہمارے عقب میں ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ٹرکش حقہ پی رہے تھے۔ اس لڑکی نے جس ٹرے میں لاکر ہمارے سامنے چائے رکھی اسی ٹرے میں ایک بوتل اور گلاس بھی رکھا ہوا تھا، جو اس نے ہماری Back پر بیٹھے ہوئے صاحب کے سامنے رکھ دیا۔
میرا تو کلیجہ منہ کو آگیا ایک تو بھوک اور پھر یہ خرافات ہمارے ملک میں لاکھ برائیاں سہی مگر یوں کھلے عام یہ ام الخبائث پیش نہیں کی جاتی۔ میرا تو یہ سوچ کر ہی برا حال ہوگیا جن ہاتھوں نے ہماری چائے بنائی ہوگی۔ انہی ہاتھوں نے یہ بوتل پکڑی ہوگی۔ میں نے عزیز سے کہا چائے مت پینا پیسے دو اور یہاں سے چلو۔
عزیز کی سمجھ میں ساری بات آگئی۔ وہ میرے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا اماں آپ ویسے تو بہت کھلے دل و دماغ کی بنتی ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے، کیا ہوا اگر ہم چائے پی لیتے صرف بوتل رکھی تھی، چائے میں مکس تو نہیں کی تھی۔
یہ اپنے اپنے دل کی بات ہے میرے دل نے قبول نہیں کیا تو نہیں کیا، ہمارے پاس جب دوسرا راستہ موجود تھا تو غلط راستے پر کیوں چلیں۔ ہم ایک اور گلی میں مڑے تو سامنے ہی جوس والا موجود تھا۔ اس وقت یہ جوس والا نعمت لگا۔ وہی گاجر اور موسمبی کا تازہ اور شاندار جوس تھا۔ ایسا جوس ہم پہلے بھی پی چکی تھے، پی کر طبیعت تازہ ہوگئی۔
یہ جگہ تھی تو پرانی یک سرائے میں مگر ٹرام اسٹیشن سے بالکل قریب تھی۔ ہم پچھلی گلیوں میں چلے گئے تھے۔ ہر ملک، شہر میں ایسے علاقے ضرور ہوتے ہیں جو ان کے معاشرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ ایک طرح سے پورے معاشرے سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں مگر وہ ہوتے ہیں۔
لیکن ہم اب ایسی جگہ تھے جہاں کی گلیاں مکمل طور پر بیلوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ صاف ستھری گلیوں میں ٹرکش اسٹائل کی نیچی کرسیاں اور میزیں لگی ہوئی تھیں۔ دو تین مکمل طور پر ایسی ہی تھیں۔ یہاں آکر ایک فرحت کا احساس ہوا۔ عزیز سے بھوک برداشت نہیں ہورہی تھی۔ جی ہاں سارے ہوٹل درمیانے درجے کے تھے۔ آس پاس کے دکان دار ہی وہاں آکر کھانا کھارہے تھے لیکن کھانا بہت عمدہ تھا اور سیلف سروس کاؤنٹر تھا۔ میں نے جوس پی لیا تھا تو مجھے اتنی بھوک نہیں تھی مگر کھانا دیکھ کر کھانے کا دل ہوگیا۔
اب ہمیں فاتح جانا تھا۔ ہم کئی بار فاتح مسجد کے پاس سے گزرے تھے مگر مسجد کو اندر سے نہیں دکھا تھا۔Spice Bazar بھی فاتح کے ساتھ ہی تھا۔ ٹرام نے ہمیں فاتح پر اتار دیا۔ جب ہم فاتح پہنچے تھے تو تین بجے کا وقت ہوگا۔ نماز کا وقت تو تھا نہیں مگر مسجد میں کافی لوگ موجود تھے جو زیادہ تر وزٹرز تھے اور غیرملکی تھے۔ یہ مسجد کافی اونچائی پر بنی ہوئی ہے اور بہت بڑی ہے۔ نوراﷲ نے ہم کو بتایا تھا کہ اس مسجد کا گنبد موسم کے لحاظ سے اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ اندر سے بھی مسجد بہت وسیع ہے۔ آس پاس بھی وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اصل مسجد پر پہنچنے کے لیے ہمیں کم از کم دس بارہ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں پھر ایک وسیع پلیٹ فام آتا ہے اس کے بعد مسجد کا دروازہ آتا ہے۔ مسجد کے کئی دروازے ہیں ۔ ہوسکتا ہے چار ہوں کیوںکہ ایک Spice Bazar اور دوسرا سمندر کے رخ تھا۔ پچھلا دروازہ شاید بند تھا اور دروازہ Spice Bazar کی داخلی گلی میں تھا جو آمدورفت کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا۔
اس شان دار مسجد کا اندرونی صحن بھی بہت خوب صورت تھا جس کے چاروں طرف بڑے بڑے برآمدے تھے اور اونچے اونچے ستون جن پر آیتیں کندہ تھیں، ان برآمدوں کے ساتھ ہی قطار در قطار پھیلے ہوئے تھے۔
ہم جس دروازے سے داخل ہوئے تھے وہ Spice Bazar کی سمت تھا۔ اس پر بھی آیتیں کندہ تھیں۔ یہاں بھی سنہرے کے ساتھ سبز رنگ کا استعمال کیا گیا تھا۔ اصل مسجد وسیع صحن عبور کرکے آتی تھی جس کا گنبد نہایت شان دار تھا اور اندرونی طور پر بہت شان دار خطاطی کی گئی تھی۔ ہم ایک گھنٹے میں صرف پہلی منزل ہی دیکھ پائے کیوںکہ اوپری منزل پر کنسٹرکشن ہورہی تھی وہ وزٹر کے لیے بند تھی۔
ابھی ہماری شاپنگ باقی تھی اس لیے ہم Spice Bazar آگئے۔ اس بازار سے پہلے زمانے میں مصر سے مصالحوں کی تجارت ہوتی تھی۔ جب ہی اس کا نام Spice Bazar رکھا گیا۔ یہ بازار بھی Grand Bazarکی طرز پر بنا ہوا ہے مگر قیمتیں وہاں سے کم ہیں یہاں ہم نے چائے اور مسالوں کی اتنی قسمیں دیکھ لیں کہ عقل حیران رہ گئی۔ اس کے علاوہ کتنی ہی طرح کی چائے اور میوہ جات تھے۔ ٹرکش ڈیلائٹ کی ہر دکان پر مختلف قسم موجود تھی۔
ہمیں تو کپڑے جوتے یا کوئی اور چیز تو لینی نہیں تھی صرف دو ہینڈ کیری اور عزیز کا ایک بیگ پیک تھا۔ اس میں جو کچھ آجاتا اتنا ہی لینا تھا۔ تھوڑا تھوڑا کرکے بھی کافی سامان ہوگیا تھا۔ عزیز نے انکار کردیا تھا کہ میں اپنے بیگ میں کوئی مٹھائی وغیرہ نہیں رکھوں گا۔ میں نے اپنا سامان عزیز کے بیگ میں منتقل کرکے اپنا ہینڈ کیری خالی کرلیا تھا۔ جو قونیہ سے لائی مٹھائی سے آدھا بھرچکا تھا۔ البتہ عزیز نے چائے اپنے بیک پیک میں رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ اب ہمیں صرف اتنی شاپنگ کرنی تھی جو آدھے ہینڈ کیری میں آجاتی۔ شاپنگ تو اتنی نہیں تھی جتنا وقت لگ گیا۔
Spice Bazar کا طریقہ بھی وہی ہے، آپ کسی مٹھائی کی دکان میں داخل ہوں پہلے وہ ایک ٹکڑا مٹھائی کا ضرور چکھائے گا۔ عزیز کو میٹھا بالکل پسند نہیں ہے۔ وہ ٹکڑا مجھے کھانا پڑتا وہ تو اﷲ بھلا کرے چائے اور کافی والوں کا وہ بھی دکان میں داخل ہوتے ہی چائے یا کافی پیپر گلاس میں ضرور ڈال دیتے تھے کہ حساب برابر ہوگیا ورنہ مٹھائیاں چکھنے سے ہی دل خراب ہوا جارہا تھا، مگر Spice Bazar میں گھومنے اور شاپنگ کرنے میں مزا بہت آرہا تھا۔ وقت تو پتا ہی نہیں چلا جب ہم Spice Bazar سے باہر آئے تو مغرب کی نماز ہونے والی تھی۔
میں تو تھک کر باہر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ عزیز نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ نماز کا وقت ہورہا ہے۔ میں نے سوچا تھا عصر فاتح مسجد میں پڑھ لوں گا مگر عصر کی نماز تو نکل گئی اب میں مغرب پڑھ لوں، آپ ادھر اکیلی بیٹھ سکتی ہیں۔ سامنے مسجد کے بیرونی صحن میں بچے کبوتروں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہیں سے ایک بلی ٹہلتی ہوئی آگئی تو سارے کبوتر ایک ساتھ اڑگئے۔ عصر اور مغرب کے درمیانی وقفہ میں یہ وقت بہت خوب صورت لگ رہا تھا۔ عزیز نماز پڑھنے چلاگیا۔ جب اسے دیر ہوگئی تو میں نے سوچا چلو مسجد کے ساتھ والی دکانیں دیکھتے ہیں۔ یہ فاتح مسجد کے بائیں طرف والی گلی تھی جو کافی دور تک چلی گئی تھی۔ اس کے بالکل سامنے کی طرف ایک بہت قدیم عمارت تھی لیکن یہ بہت بڑی نہ تھی۔ اس کا انداز کسی مسجد کا تھا ۔ مسجد کے دروازے پر ایک شخص تسبیح وغیرہ فروخت کررہا تھا۔ میں بھی کھڑے ہوکر اس کی تسبیح دیکھنے لگی۔ اسی وقت نماز ختم ہوئی میں دروازے سے ذرا ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ یہ ایک بہت بڑی کھڑکی تھی جو بھی نمازی باہر آتے وہ وہاں کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھتے اور چلے جاتے۔ میں نے بھی اندر جھانک کر دیکھا یہ بھی کسی دو افراد کے مرقد تھے۔ جن پر بہت خوب صورتی سے کلام اﷲ لکھا ہوا تھا اور سبز رنگ کی چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ اوپر لوح پر علی گیلانیؒ اور محمد گیلانی ؒ کے نام کندہ تھے۔
مجھے یہ تو معلوم تھا کہ شیخ عبدالقادر گیلانی ؒ کا مزار مبارکہ بغداد میں ہے مگر یہ دونوں مزار مبارکہ کس کے ہیں اندر سرہانے کی طرف ایک صاحب بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت کررہے تھے میں نے بھی جلدی سے سورۃ فاتحہ پڑھ لی مگر تجسس ابھی باقی تھا اپنے برابر کھڑی خاتون سے پوچھا کہ یہ کس کے مزارات ہیں کہ وہی پرانی گردان کہ من ترکی نمی دانم، انہوں نے ٹرکش زبان میں اچھی خاصی تقریر کردی مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میں نے بالکل برابر لگی ہوئی دکان والے سے پوچھا جو تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتا تھا کہ یہ مزارات کس کے ہیں تو اس نے بے پرواہی سے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ مجھے نہیں معلوم یہ کیا ہے؟ میں پھر ادھر آگئی اور اس تسبیح بیچنے والے سے پوچھا کہ کیا تم بتاسکتے ہو یہ صاحب مزار کون ہیں؟ وہ تھوڑی بہت انگریزی جانتا تھا وہ عقیدت سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔
اور مجھے دونوں کے نام دکھاتے ہوئے کہا یہ علی گیلانیؒ اور محمد گیلانی ؒ ہیں، شیخ عبدالقادر گیلانیؒ کے دونوں صاحبزادے، ان کو آپ نے استنبول بھیجا تھا پھر دونوں کا انتقال بھی یہیں ہوا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور مجھے بھی اپنی قسمت پر فخر ہورہا تھا اور دل بھر آرہا تھا کہ یا اﷲ کیسی زیارت نصیب فرمادی۔ ہم تو استنبول تفریحی ٹرپ پر آئے تھے۔ آتے وقت حضرت ابوایوب انصاریؓ اور جاتے وقت شیخ عبدالقادر گیلانیؒ کے صاحبزادے، میرا تو یہاں سے جانے کا دل ہی نہیں چا رہا تھا۔ زمین نے جیسے قدم پکڑلیے تھے مگر یہاں کے رواج مختلف تھے۔ زیادہ دیر تک ہم کھڑے نہیں ہوسکتے تھے نہ جالیوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت تھی بس فاتحہ پڑھو اور آگے بڑھ جاؤ۔ اسی وقت عزیز مجھے ڈھونڈتا ہوا آگیا۔ اماں آپ کہاں چلی گئیں تھیں میں تو آپ کے کپڑوں کا رنگ دیکھ کر ادھر آگیا ویسے مجھے اندازہ تھا کہ آپ ادھر ہی ملیں گی کیونکہ Spice Bazar تو آپ دیکھ چکی تھیں۔
میں نے کہا بیٹا میں بھی اسی جگہ آجاتی جہاں تم مجھے چھوڑ کر گئے تھے۔ ہم نے پہلے ہی معاہدہ کر رکھا تھا کہ اگر ایسا کوئی موقع آیا تو کسی کو ادھر ادھر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے، وہیں انتظار کرنا جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔
وہاں انقرہ میں بھی ہم نے یہی دیکھا تھا ان کا گائیڈ اپنے جاپانی سیاحوں سے کہہ رہا تھا اب آپ اندر جاکر میوزیم کا وزٹ کرو واپس سب آکر میرا یہاں انتظار کرنا۔ اس نے سب کو وقت بتاتے ہوئے کہا تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ جاپانی وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں وہ وقت پر واپس آجائیں گے۔
مگر ابھی ہمارے پاس کافی وقت تھا ابھی تو صرف مغرب ہوئی تھی۔ عزیز کو ابھی بھوک نہیں لگ رہی تھی اس کا پروگرام فاتح پر اس ہوٹل میں کھانا کھانے کا تھا جہاں اس نے ٹرکش کباب کھائے تھے جو بہت لذیذ تھے۔ بوٹ میں سیر کرنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ ہم صرف سمندر میں تیرتی ہوئی کشتیوں کا نظارہ کرسکتے تھے۔ نوراﷲ کی بوٹ بھی رات کے مسافروں کو لے کر جاچکی تھی۔ اس کی جگہ بھی خالی تھی۔ بینچوں پر ٹرکش بوڑھے اور بوڑھیاں بیٹھے باسفورس کا نظارہ کررہے تھے۔ ملگجی روشنی میں بوٹس اپنے مسافروں کو بھرکر ایک کے بعد ایک روانہ ہورہی تھیں۔ دن کی بہ نسبت اس وقت زیادہ رش تھا۔ ہم جب Eminonu کی طرف آرہے تھے تو اس وقت وہاں مچھلی کے کافی اسٹال تھے۔ ایک جگہ سیپیاں بھی تھیں جو لوگ بہت شوق سے کھارہے تھے مگر نہ تو عزیز کو نہ ہی مجھے مچھلی کھانے کا زیادہ شوق تھا ہم سب گھر والوں کو باہر کی مچھلی پسند نہیں ہے ہم گھر کی پکائی مچھلی کھانا پسند کرتے ہیں تو سیپیاں کھانا تو بہت دور کی بات ہے۔
عزیز کہنے لگا اماں ہوٹل چلتے ہیں، ابھی نادر کا میسج آیا ہے میں صبح تم سے نہیں مل سکوں گا میری ڈیوٹی ختم ہونے والی ہے لیکن میں تم سے ملنے کے لیے انتظار کررہا ہوں۔
عزیز نے okکا میسج کرکے لکھ دیا ہم آرہے ہیں۔ تم انتظار کرو۔ ہمیں تو ٹرام سے یک سرائے آنے میں پندرہ منٹ بھی نہیں لگے۔ اس وقت تک دوسرا لڑکا نہیں آیا تھا اور نادر جب تک ریسیپشن نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ عزیز نے اس سے کہا کہ ہم جب تک سامان رکھ کر فریش ہوکر آتے ہیں پھر ساتھ کھانا کھانے چلتے ہیں۔
جتنی دیر میں عزیز نے فریش ہوکر کپڑے بدلے۔ میں نے راشد صاحب کو فون کرلیا وہ ہمارے سفر کے متعلق پوچھنے لگے تو میں نے انہیں اپنی قونیہ اور استنبول کی زیارتوں کے متعلق بتایا تو وہ کہنے لگے ماشاء اﷲ آپ کو اتنی دل چسپی ہے اگر پہلے معلوم ہوتا تو میں آپ کو حضرت یوشا علیہ السلام کے مزار پر لے کر چلتا۔ کیا مقام ہے آپ کا دل خوش ہوجاتا، بہت پرسکون جگہ ہے اور استنبول میں ہے۔
میں نے کہا مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا، استنبول میں صرف حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے متعلق معلوم تھا۔ حضرت یوشا علیہ السلام کے متعلق آج معلوم ہوا اور علی گیلانیؒ اور محمد گیلانی مزارات کی تو اتفاق سے زیارت ہوگئی اگر پہلے معلوم ہوتا تو ہم ضرور چلتے خیر اگر نصیب میں ہوا تو دوبارہ پھر آئیں گے۔
راشد صاحب نے ہی بتایا کہ یہاں ترکی میں ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں چھے نبیوں کے ایک ساتھ مزارات ہیں واہ سبحان اﷲ ترکی کتنا امیر ملک ہے۔ میرا تو دل یہ سنتے ہی تڑپ اٹھا۔ راشد صاحب سے خدا حافظ کررہی تھی کہ عزیز بھی آگیا، میں نے فون اسے پکڑا دیا کہ وہ بھی راشد صاحب کو خدا حافظ کہہ دے ہم کتنی خوب صورت یادیں اور محبتیں لے کر ترکی سے جارہے تھے دل کو اداس تو ہونا تھا۔
اسی وقت نادر کا ریسیپشن سے فون آگیا کہ اسٹاف آگیا ہے۔ میں انتظار کررہا ہوں۔ ہم جلدی سے ریسیپشن پر آگئے۔ نادر کہنے لگا اگر کھانا کھانے چلنا ہے تو آج کا کھانا میری طرف سے ہوگا اور میں نے کہا آج کسی بہت اچھی جگہ کھانا کھائیں گے کیوںکہ آج یہ میری طرف سے ہوگا اور تم انکار بھی نہیں کروگے، مجھے معلوم تھا ایک غیرملک میں تعلیم حاصل کرنا کتنا مشکل ہے یہ اپنی محبت میں کہہ رہا ہے۔ ہم یک سرائے کے ایک بہت اچھے ہوٹل میں آگئے یہاں پہلے سے مدرسے کے کچھ لڑکے اپنے استاد کے ساتھ بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔ ان کے لباس اور طور طریقے عام ٹرکش سے مختلف تھے۔ لمبے کرتے اور سر پر ٹوپی صرف استاد کے ہلکی سی بھوری داڑھی تھی۔ سب نوعمر لڑکے تھے۔ نادر نے بتایا کہ اس ہوٹل کے ساتھ جو گلی جاتی ہے وہاں کافی چڑھائی کے بعد ایک قدیم مدرسہ ہے جو خلافت عثمانیہ کے زمانے میں تعمیر ہوا تھا۔ اب بھی موجود ہے۔ یہ بچے ترکی اور بہت سے ممالک سے یہاں پڑھنے آتے ہیں بعض طالب علم امریکا اور یورپ سے بھی پڑھنے آتے ہیں۔ یہاں حفظ اور اسلام کے علاوہ بھی دوسرے علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔
جب پہلی بار مسجد نبویﷺ کی تعمیر کی جارہی تھی تو خلافت عثمانیہ والوں نے مسجد نبویﷺ کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا تھا کیوںکہ اس وقت خلافت کو تمام عالم اسلام میں مرکزیت حاصل تھی تو تعمیر کے وقت انہوں نے پوری مسلم دنیا اور ترکی سے بہترین آرکیٹکچر، انجنیئر، کاری گر بلوائے تھے اور ان کو حکم دیا تھا کہ پہلے اپنے بچوں کو حافظ بناؤ اور ان کو اپنا ہنر سکھاؤ اگر مسجد نبویﷺ میں کوئی ایک اینٹ بھی لگائی جائے گی وہ حافظ لگائے گا اور ان کا حکم تھا کہ اگر کوئی اینٹ چھوٹی یا بڑی ہوگئی اسے یہاں کاٹا نہیں جائے گا نہ اس تعمیر کے دوران کوئی ٹھوکا پیٹی کا شور ہوگا اور مسلسل تلاوت کلام پاک ہوتی رہے گی۔ یہ وہی مدرسہ ہے جو اس زمانے میں طالب علموں کے لیے تعمیر کیاگیا تھا یہاں پڑھنے والے بچوں کو ہر سال حج کروایا جاتا ہے یہ بہت خوش حال گھروں سے آئے بچے اور استاد ہیں۔ استادوں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں جس کا عام استاد تصور بھی نہیں کرسکتا۔ سبحان اﷲ استاد کی اتنی تکریم و عزت جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں لیکن سب حکومت کے مطابق ہوتا ہے۔ پرائیویٹ مسجد اور مدرسہ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ نادر نے کہا جب ہم واپس جارہے ہوں گے تو میں آپ کو وہ مدرسہ دکھاؤں گا۔ نادر عزیز کے لیے ایک بہت خوب صورت ازبک کی ٹوپی لایا تھا اس نے بتایا کہ میرے والد کی ہینڈی کرافٹ کی دکان ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے کام بھی کرتے ہیں۔ وہ بہت شرمندہ ہورہا تھا کہ میرے پاس اس سے قیمتی کوئی چیز نہیں ہے جو میں تم کو پیش کرسکتا۔ یہ تحفہ تو واقعی بہت قیمتی ہے کیوںکہ یہ تمہارے والد کے ہاتھ بنا ہوا ہے انہیں ہمارا شکریہ کہنا۔
نادر نے اس وقت فون نکال کر اپنے والد کو مسیج کیا جس کا جواب بھی فوری طور پر آگیا۔ جو ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آیا مگر اس نے ترجمہ کرکے بتایا کہ وہ سلام کہہ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں تم لوگ ازبکستان ضرور آنا۔ آج نادر نے عزیز کی دی ہوئی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ نادر عزیز کا ہم عمر بھی تھا اور قد بدن میں بھی بالکل عزیز کے برابر بھی تھا مگر اس کا رنگ بے انتہا صاف و گورا تھا اس کے اوپر گہرے نیلے رنگ کی شرٹ بہت خوب صورت لگ رہی تھی اب مدرسے کے لڑکے اور استاد کھانا ختم کرکے خاموشی سے جاچکے تھے۔ ہم بھی جب کھاکر باہر آئے تو نادر نے کہا آؤ ہم مدرسے والی سڑک کی طرف سے چلتے ہیں وہ مدرسہ بھی دیکھ لینا۔ واقعی مدرسہ بہت شاندار بنا ہوا تھا اور بہت قدیم طرز کا تھا مگر رقبہ اتنا زیادہ تھا کہ اس پر کسی یونیورسٹی کا گمان ہوتا تھا۔
دائیں جانب باسکٹ بال کورٹ تھا وہ گیٹ سے داخل ہوتے ہی نظر آگیا تھا۔ آگے جاکر بھی کوئی کھیل کی جگہ ہوگی۔ بائیں جانب ایک لائبریری تھی۔ یہاں لان میں جگہ جگہ بینچیں لگی ہوئی تھیں لیکن مدرسہ کی اصل عمارت سامنے مگر کافی فاصلے پر تھی اب کافی رات ہورہی تھی یقیناً مدرسہ بند ہوچکا ہوگا۔ ہم واپس پلٹ آئے۔ آج اتفاق سے عزیز اپنا موبائل اور کیمرا ہوٹل میں ہی بھول آیا تھا ورنہ مدرسہ کی تصویریں ضرور لیتے۔ اب کافی رات ہوچکی تھی صبح ہماری روانگی تھی۔ ہوٹل کے راستے کا تو ہمیں اندازہ ہوگیا تھا۔ نادر نے بھی یہاں ہم کو خدا حافظ کہا اور ٹرام اسٹاپ کی طرف چلاگیا جہاں سے اسے اپنے ہاسٹل کے لیے ٹرام مل جاتی۔
ہم نے ہوٹل آکر اپنے سامان کی پیکنگ کی جو آسانی سے ہوگئی اب جو عزیز نے فون دیکھا تو گھر سے آئے میسج اور مس کال کی بھرمار تھی۔ اس کے ساتھ سعید صاحب کی ہدایات کا پلندہ بھی تھا۔ حالاںکہ ان کو ہمارے شیڈول کا بھی معلوم تھا۔ پھر بھی پوچھ رہے تھے کب نکلو گے؟ کچھ وقت پہلے نکلنا بے شک ایئرپورٹ پر انتظار کرنا پڑے۔ ہمیں معلوم تھا یہ سب ہدایات کی وجہ ہماری فکر تھی۔
ہماری استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ سے فلائٹ ساڑھے تین بجے دن تھی مگر ہم نے ساڑھے دس بجے ہی ہوٹل چھوڑ دیا تھا۔ ہم یک سرائے کے بس اسٹاپ پر پہنچے تو Havaistکی بس تیار تھی جو ہر پندرہ منٹ بعد چلتی ہے۔ جس وقت ہم اتاترک ایئرپورٹ پہنچے اس وقت بارہ بجنے میں پندرہ منٹ تھے۔ ہمارے پاس تو صرف ہمارے ہینڈ کیری تھے اور عزیز کے پاس صرف بیک پیک تھا جن کے پاس زیادہ سامان تھا وہ ٹرالیاں بھررہے تھے۔ کیوںکہ یہاں کوئی پوٹر نہیں ملتا خود ہی سامان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم پاکستان والے خوش نصیب ہیں ہر ایئرپورٹ پر پورٹر موجود ہوتے ہیں۔ استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ پر دنیا کی ہر ایئرلائن کے علیحدہ کاؤنٹر موجود ہیں۔ ابوظبی کی ایئرلائن جس سے ہم آئے تھے اس کا کاؤنٹر بھی علیحدہ تھا جو ہمیں آسانی سے مل گیا۔ اب صرف سفر کی تھکان تھی اور ایک اداسی تھی جو ہر سفر کے اختتام پر ہوتی ہے مگر ہم سولہ دن کے سفر کے بعد اپنے گھر والوں سے ملنے جارہے تھے۔
میں کہیں بھی رہوں جہاں بھی رہوں
تیرا ساتھ یاد ہے تیرا پیار ساتھ ہے
جس طرح ایئرپورٹ پر ہر ہوائی کمپنی کے کاؤنٹر بنے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے دل میں بھی علیحدہ علیحدہ کاؤنٹر بنے ہوتے ہیں اداسی کے، خوشی کے، ملنے کے، بچھڑنے کے، جس کو جس کمپنی سے جانا ہوتا ہے وہاں جا کھڑا ہوتا ہے۔ ہم اپنا بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے اتحاد ایئرویز کے کاؤنٹر پر جاکر کھڑے ہوگئے۔ اب وہی انتظار کی کوفت تھی اور ہم تھے۔
استنبول سے ابوظبی تک کا سفر بھی تھکا دینے والا تھا۔ مجھے تو شدید نیند آرہی تھی۔ میں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کرلیں مگر تھوڑی سی نیند کے بعد ہی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ عزیز فلم دیکھ رہا ہے۔ کوئی سائنس فکشن مار دھاڑ سے بھرپور فلم تھی۔ مجھے ایسی فلموں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ میں نے اس سے کہا میرے لیے کوئی اچھی سی مزاحیہ فلم لگادو۔ اس نے ایک مزاحیہ فلم لگادی پھر معلوم نہیں وقت کہاں گزرا۔ چائے، کافی کھانا بھی ساتھ ساتھ ہی چلتا رہا اب جو پلٹ کر دیکھا تو عزیز بھی میری والی فلم ہی دیکھ رہا تھا۔ یہ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ یہ فلم سہارا بنی تھی۔ اب ابوظبی میں بھی پانچ گھنٹے کا اسٹے تھا اور وہی ایکسرسائز تھی شکر اﷲ کا ابوظبی سے کراچی کی فلائٹ زیادہ دیر کی نہیں تھی۔ ہم اب اپنے سفر کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں۔
مگر ہر سفر کا اختتام ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
میں اپنے آخری پڑاؤ کا اختتام کرچکی تھے تو انقرہ سے Eee کا میسج آیا کہ میرا انسٹا گرام پیج وزٹ کرو وہاں میں نے اس اخبار کے پیج کو لگایا ہے جس میں میری اور تمہاری تصویر لگی تھی شکریہ۔
Eee تم بہت پیاری ہو صرف سفر کی دوست نہیں ہو اب میرے عزیز دوستوں میں شامل ہو۔ ساتھ ہی نادر کا میسج تھا۔ اس نے ہماری خیریت پوچھی تھی اور اپنی بتائی تھی اور اپنے اگلے مہینے ہونے والے امتحان کے لیے دعا کا کہا تھا۔ جیتے رہو نادر اﷲ بہت ساری کامیابیاں عطا فرمائے۔ اذکان خلیل اور ارحان مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کی دوستی عزیز سے زیادہ ہے مگر عزیز مجھے بتاتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی پروفیسر یوسف اور عایلا کا بھی میسج آجاتا ہے مجھے زندگی میں بہت سے دوست ملے ہیں۔ پاکستان میں بھی پرخلوص دوستوں کا ساتھ ہے اور بیرون ملک میں بھی بہت دوست ہیں۔ اب ترکی کے ان دوستوں کا اضافہ ہوگیا ہے البتہ راشد فرام استنبول یونیورسٹی کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی، ہماری تو مشترکہ محبت ہماری اردو زبان ہے ان سے Whats Appپر رابطہ ہے جس میں ہماری مشترکہ سرگرمیوں کا ذکر رہتا ہے۔ بہت شکریہ ترکی اور ترکی کے دوستوں، زبان نہ جاننے کے باوجود ہمارا مشترکہ سرمایہ ہماری اسلامی اقدار اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ( ختم شد )
[ad_2]
Source link