8

انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں

[ad_1]

سال ہوگیا 9 مئی کے اندوہناک واقعے کو لیکن ہم نے ابھی تک اس واقعے کے ذمے داروں کو کوئی سزا بھی نہیں سنائی، سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں سرکاری طور پر ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے اہم اداروں کی اعلیٰ شخصیات کو مدعو کر کے اُسے ایک یادگار دن کے طور پر منایا گیا، متاثرین اور شہید ہونے والوں کے لواحقین کے غم ناک اور درد ناک بیانوں اورکچھ ملی نغموں کے ساتھ یہ تقریب اگلے ایک سال کے لیے اختتام پذیر ہوگئی۔

شروع شروع میں یہ کہا گیا تھا کہ اس واقعے کے ذمے داروں کو نہیں بخشا جائے گا اور انھیںہر صورت قرار واقعی سزا سنائی جائے گی ۔ مگر یہ بات بالکل اُسی طرح ہواؤں میں تحلیل ہوکر رہ گئی جس طرح 2007 میں 12 مئی کو شہر کراچی میں ہونے والی خونریزی کے مجرموں کوسزا دینے کی باتیں تحلیل ہوچکی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ایسے واقعات کو نظر انداز کرکے یا اس کے ذمے داروں کو سزا نہ سنا کراُن ارادوں اورعزائم کی حوصلہ افزائی کی ہے جوپھر اس سے بڑے واقعات اورسانحات کاسبب بنتے رہے ہیں۔

کراچی میں 12 مئی 2007 کو جس دہشت گردی کا سانحہ وقوع پذیر ہوا تھا آج سترہ برس گزر جانے کے بعد بھی کسی ایک شخص کو سزا نہیں سنائی جاسکی۔ اس واقعے کے پس پردہ محرک کو ہماری عدالتیں نہ کوئی سزا سنا سکیں نہ یہ خونریزی مچانے والوں کو مجرم ٹہرایا گیا۔

جوڈیشل سسٹم کی اسی کمزوری کی وجہ سے ہمارے یہاں بڑے بڑے جرائم کی سزائیں سنائی نہ جاسکی ہیں، جب کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ امریکا میں ہی دیکھ لیجیے جہاں ایک سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیپٹل ہلزکیس میں فوراً سزا سنا دی گئی ، وہاں یہ نہیں سوچا گیا کہ وہ شخص ایک سابق صدر رہ چکا ہے یا وہ دوبارہ برسر اقتدار آگیا تو سزا سنانے والوں کونہیں بخشے گا۔

9 مئی کے مجرموں کو اب تک سزا سنانے میں کون سا امر رکاوٹ اور مانع رہا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام دینے کے بجائے انصاف اور عدل کو مقدم رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں کہ عدالتی نظام پر عوامی اعتماد بحال کیوں نہ ہو۔ اس واقعے سے متعلق یہ بھی سنا گیا تھا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کا مقدمہ ملٹری کورٹس میں چلایا جائے گا، لیکن پھر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ معاملہ کہاں رکا ہوا ہے کسی کو پتا نہیں۔ پروسیکیوشن کی ذمے داری سرکار کے قانونی اداروں پر آتی ہے۔ کیا ان اداروں نے اپنا کام مکمل کردیا ہے، اگر کر لیا ہے تو پھر عدلیہ میں کارروائی آگے کیوں نہ بڑھ سکی۔

نو مئی کے واقعے کی یاد میں تقرریں تو بہت کی گئیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ان سانحہ کے ذمے داروں کو سزا کب سنائی جائے گی۔ جس جس نے پریس کانفرنس کر کے اس واقعے سے لاتعلقی کااعلان کردیا انھیں نہ صرف معاف کردیا گیا بلکہ آزاد بھی کردیا گیا۔ اسی طرح یہ کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے کے اصل ذمے دار بھی اگر معافی مانگ لیں تو انھیں معاف کیاجاسکتا ہے ، جب کہ مبینہ اصل ذمے دار یہ معافی مانگنے کو فی الحال تیار نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے جو کچھ بھی کیا درست اور صحیح کیا، وہ اس پر معافی کیوں مانگیں۔

دراصل انھیں ایک سال سے جس شان و شوکت سے جیل میں رکھا گیا ہے اس کے بعد تو ایسا ہی ردعمل آنا تھا۔ کہنے کو وہ صاحب اپنی پارٹی کے سربراہ نہیں رہے لیکن جیل کے اندر وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی پارٹی کے اجلاس کی سربراہی بھی کرتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو لائن آف ایکشن بھی دیتے ہیں، جب کہ اگر دیکھا جائے تو میاں نواز شریف جب قید میں تھے تو انھیں ایسی کسی قسم کی مراعات اور سہولتیں دستیاب نہیں تھیں۔

وہ قید تنہائی میں مقید تھے اور ہفتے میں صرف ایک دن یعنی جمعرات کو صرف چند لوگوں سے ملاقات کی اجازت تھی۔ وہ اپنی صاحبزادی سے بھی صرف اُسی دن ملاقات کرسکتے تھے۔ انھیں بھی اگر ایسی ہی سہولتیں دی جاتیں جوآج خان صاحب کودی جا رہی ہیں تو وہ شاید لندن بھی نہیں جاتے ۔

رہ گیا سوال بانی پی ٹی آئی کے دیگر مقدمات کا تو وہ بھی بڑی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ممنوعہ فارن فنڈنگ اور190 ملین پونڈزکے مقدمات بھی کہاں فائلوں میں دفن ہیں کسی کو پتا نہیں۔ عدل میں تاخیر ہمیشہ ملزموں کے مفاد میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی شاندار قید کی تمنا تو ہمارے یہاں ہرکوئی کرتا نظر آتا ہے۔

خان صاحب پر اُمید ہیں کہ جتنے دن وہ اس قید میں رہیں گے عوام میں اُن کی مقبولیت مزید بڑھتی جائے گی۔ اسی لیے وہ نہ معافی کے طلب گار ہیں اور نہ رہائی کے۔ سرکار کی تحویل میں وہ زیادہ محفوظ ہیں۔ انھیں سات آٹھ کمروں پر مشتمل وہ تمام سہولتیں حاصل ہیں جن پر وہ پہلے بنی گالا یا زمان پارک میں لاکھوں روپیہ خرچ کیا کرتے تھے۔ انھیں AC اور ٹی وی اور ورزش کی بھی سہولت دے دی گئی ہیں۔

اب تو اُن کی زوجہ محترمہ کو بھی اُن کے ساتھ ایک ہی جیل میں شفٹ کر دیا گیا۔ داد دی جائے میاں شہبازشریف حکومت کو کہ اس نے ایک دن کے لیے بھی اپنے اس سب سے بڑے سیاسی حریف کوتنگ کرنے کی غرض سے کوئی اقدام نہیں کیا۔ نہ میاں نوازشریف اور محترمہ مریم نواز نے جو آج پنجاب کی وزیراعلیٰ ہیں انھیں مجبورکیا کہ اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کا بدلہ اسی انداز میں چکائیں کہ زخمی دلوں کی کچھ تشفی ہوسکے۔ یہ سب باتیں اور خصلتیں اچھے ظرف کی ہوا کرتی ہیں۔ خاندانی سیاستدان ایسی حرکتیں نہیں کرتے جن سے اُن کے ظرف پر کوئی داغ لگے۔

اس سارے تجزیے کا مقصد یہ ہے کہ نو مئی کے واقعہ کو لے کر اس پر سیاست کرنے کے بجائے فیصلہ کیا جائے کہ ذمے داروں کو واقعی کوئی سزا سنانی ہے یا پھر اُس واقعے کو سیاسی بنا کراس سے اسی طرح کھیلتے رہنا ہے۔

اس جانب ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دی ہے۔ صرف جذباتی اور سرکاری بیانات سے کہ انھیں نہیں بخشا جائے گا انصاف کے تقاضے تو پورے نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ ملزموں کو جب تک عدالتی چھلنی سے گذارا نہیں جاتا، انصاف کا عمل پورا نہیں ہوگا۔ معافی مانگنے یا معافی دینے کا استحقاق بھی صرف عدلیہ کے پاس ہے۔

ملک کو سنوارنا ہے یا آیندہ کے لیے ایسے واقعات کا تدارک کرنا ہے تو عدل اور انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں کسی کے ساتھ نا انصافی نہ کی جائے۔ امیر غریب، کمزور اور طاقتور سب کے ساتھ یکساں سلوک اور برتاؤ روا رکھا جائے تبھی جاکے ہمارے یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں