10

عظمت کی مسند! – ایکسپریس اردو

[ad_1]

میاں صاحب میرے پرانے دوست ہیں۔ گتے کے بہت بڑے تاجر ہیں۔ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ آبائی شہر راولپنڈی ہے۔ مگر، کئی دہائیوں پہلے کاروبار کی وجہ سے لاہور آگئے اور لاہوری ٹھاٹ سے رہ رہے ہیں۔

ہر دو سال بعد‘ نئی مرسڈیز گاڑی خریدتے ہیں۔ چار کنال کا ذاتی گھر ہے ۔ بیدیاں روڈ پر وسیع فارم ہاؤس بھی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کامیاب انسان ہے۔ ہفتے‘ دو ہفتے کے بعد میرے پاس تشریف لاتے رہتے ہیں۔

میں نے غور کیا، وہ جب بھی آئے بے سکون سے لگے۔ بیٹھے بیٹھے ‘ اچانک کھڑے ہو کر ٹہلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کرسی پر بیٹھتے ہیں مگر ٹانگ کو مسلسل حرکت دیتے رہتے ہیں۔ گفتگو کرتے کرتے‘ بلا جھجک اٹھ کر باہر چلے جاتے ہیں۔ دوچار منٹ کے بعد واپس آکر بات چیت کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیتے ہیں جہاں سے منقطع کیا تھا۔مطلب یہ کہ کبھی ٹک کر بیٹھتے نہیں ہیں۔ اور ہاں! ان کی ہرگفتگو ‘ ملک کے حالات خراب ہیں سے شروع ہوتی ہے اور ہوشربا مہنگائی کو سمیٹتی ہوئی‘ المناک نوحہ پر ختم ہو جاتی ہے۔کبھی لگتا ہے کہ وہ ایک انقلابی بن چکے ہیں۔

یہ انداز گفتگو اور نشست و برخاست گزشتہ بیس پچیس برس سے یکساں ہے۔ وہی فقرے‘ وہی بربادی کی ابدی داستان ۔ پھر بڑے آرام سے تشریف لے جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ سلسلہ گفتگو زبانی جمع خرچ سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہو جاتا ہے۔ ان کے جانے کے بعد‘ اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ میاں صاحب حد درجہ کامیاب انسان ہیں۔ پھر اتنی بے چینی اور متضاد گفتگو کیوں فرماتے ہیں! مجھے تاحال اس کا جواب نہیں ملا ہے۔

میاں صاحب بولتے رہتے ہیں، میں خاموش رہتا ہوں، ان کی باتوں پر غور بھی نہیں کرتا۔ مگر اب مجھے ادراک ہوا ہے کہ ہماری اکثر نشستیں اور باتیں بے مقصد ہی ہوتی ہیں۔ ہم لوگ کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچے بغیر سانس لیتے ہیں۔ ہمارا انقلاب ‘ ڈرائنگ روم ‘ بیٹھک ‘ کسی کیفے یا اچھے ریسٹورنٹ کے ایک کونے سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہیں مقید ہو جاتا ہے۔

ہم کسی بھی دلیل سے فارغ لوگ ہیں اور ہماری عملی زندگی ‘ ہمارے اپنے نظریات کے تحت بسر نہیں ہوتی۔ یہ تو عرض نہیں کر سکتا کہ ہمارے قول وفعل میںفرق ہے۔ مگر یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اپنی خواہشات کی تکیمل کرنے اور ایک پرآسائش زندگی گزارنے کی حد تک محدود نظر آتی ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ صرف اور صرف ذاتی مفادات ہی ہماری زندگی کا مقصد اورمحور ہے۔ اس میں سنجیدہ فکری ، علم و دانش اور اعلیٰ آدرشوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

ذاتی گمان تھا کہ شاید سرکاری ملازمین‘ مذہبی عمائدین ‘ لکھاری ‘ سیاست دان‘ شاعر‘ الیکٹرانک میڈیا پر ہر دم نظر آنے والے افراد‘ کسی بلند مقصد کے تحت زندگی گزارنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ مگر معروضی حالات میں اکثریت‘ ایسا نہیں کر تی۔ انقلاب لانے یا آنے کی نوید دینے والے‘ اپنی پر آسائش زندگی میں قطعاً خلل نہیں ڈالتے۔ ہر وقت میرٹ پر بات کرنے والے لوگ‘ اپنی زندگی میں عملاً میرٹ کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے ۔ بلکہ انصاف‘ مساوات یا سچائی اور مقصدیت سے دور رہنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتے ہیں۔

اس کا حل کیا ہے؟ ذاتی جواب دے سکتا ہوں کہ جس شخص کو فکری طور پرپسند کرتا ہوں، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔حد درجہ متین ہو، میں اس سے قطعاً نہیں ملتا۔ موقع ملے بھی تو کتراتا ہوں۔ ٹال دیتا ہوں۔ یہ عادت بنا لی ہے۔ جواز یہ ہے کہ کئی بار ‘ آپ کے ذہن میں کسی بھی انسان کے بارے میں تراشا ہوا بت‘ حقیقت میں اس فرد سے مختلف نکلتا ہے۔ اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔

شاید آپ اتنے خوش قسمت ہوں کہ ان لوگوں سے متاثر ہوتے ہوں‘ جو ذہنی فکر کے اعتبار سے اندرونی اور بیرونی طور پر یکساں ہوں۔ مگر طالب علم کو اس طرح کے عمائدین سے کم ہی پالا پڑا ہے۔ حد درجہ عظیم نظر آنے والے دیو قامت لوگ‘ جب عمل کی کسوٹی پر نامراد نظر آئیں تو پھر غم کم ہی ہوتا ہے۔

اس دکھ سے بچنے کے لیے‘ اپنے پسندیدہ لوگوں سے نہ ملنا قدرے بہتر نظر آتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں بڑے لوگوں کا فقدان بالکل نہیں ہے۔ ہر شعبہ میں جن نما انسان موجود ہیں۔ جو فلسفی یہ فرماتے ہیں کہ اچھے لوگوں کا قحط پڑ چکا ہے۔ وہ پورا سچ نہیں فرما رہے ہوتے۔ قد آور لوگ‘ ہر خطے اور ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں۔ مگر اس کی شرح ازل سے ابد تک کم ہی رہتی ہے۔ معاشروں کو بھی اس تناظر میں پرکھیے۔ کرہ ارض پر سب سے زیادہ یونانی فکر نے اثر کیا ہے۔

آج بھی لوگ ‘ ارسطو‘ سقراط، افلاطون اور فیثا غورث جیسے دیوقامت لوگوں کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر یونان بلکہ اس خطے میں تو لاکھوں لوگوں موجود تھے۔ مگر گنتی کے چند افراد کے علاوہ آپ کو آفاقی سوچ کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ المیہ نہیں ‘ بلکہ قانون قدرت ہے۔ملک کے تمام لوگ‘ عظمت کے تخت پر براجمان نہیں ہو سکتے۔ بالکل اسی طرح‘ مغرب میں نشاہ ثانیہ کے بعد تمام افراد تو سائنسدان نہیں بن گئے تھے۔

ایڈیسن‘ نیوٹن‘ لوئی پا سچر جیسے لوگ نہ پہلے کبھی پیدا ہوئے تھے‘ نہ بعد میں نظر آئے۔ صاحبان! بڑے لوگ‘ اصل میں ہوتے ہی کمیاب ہیں۔ تمام ملک اور گروہ‘ اسی فطرت پر کام کرتے ہیں۔ برصغیر کی طرف نظر ڈالیں تو یہاں معاملہ مزید مشکل نظر آتا ہے۔ یہاں نسلی تفاخر اور مذہبی عصبیت اس قدر زیادہ ہے کہ لوگوں کے فقید المثال کارنامے بھی تعصب کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب تو خیر مجموعی طور پر یہ صورت حال ہے کہ ہمارے ملک کے ہیرو ہمسایہ ملک کے ولن بنا دیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس کے اندر‘ ایک دوسرے سے نفرت کا جذبہ زیادہ برسرپیکار ہے۔

مثال دینا ضروری ہے۔ برصغیر کا عظیم دماغ‘ چانکیہ‘ ایک سیاسی مدبر، مذہبی اسکالر، امور مملکت اور رموز مملکت کا ماہر، قانون دان اور ذہین سفارت کار تھا۔ یہ اپنے زمانے کا سوچنے والا انسان تھا۔ زمانہ قبل از مسیح کا قصہ عرض کر رہا ہوں، ہندوستان میں اس وقت بھی ہندومت موجود تھا۔ چانکیہ نے رموز حکومت پر ایک شاندار کتاب تحریر کی۔ مگر آج ہم اس کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ بلکہ شاید‘ چانکیہ ‘ لوگوں کے لیے ایک نامانوس سا کردار ہو۔ موریا خاندان کی بادشاہت کا آغاز‘ چانکیہ کے فکری انقلاب سے ہوا۔

ویسے آج سے پچاس برس قبل‘ ہمارے اسکولوں میں تاریخ پڑھاتے ہوئے موریا خاندان اور چانکیہ کا نام بار بار سننے کو ملتا تھا۔ مگر اب درسی نصاب میں ان کا نام تک موجود نہیں ہے۔ اب تو اس خطے کی قدیم تہذیبوں اور قدیم تاریخ کا ذکر بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ مگر یہ طرز عمل حقائق کے بالکل خلاف ہے۔ برصغیر میں‘ آزادی کی لہر‘ 1946 کے الیکشن سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔

1857 کی جنگ میں مسلمان ‘ ہندو ‘ سکھ اور دیگر عقائد کے افراد‘ متحد ہو کر لڑے تھے۔ مگر اس یگانگت کا ذکر نہ یہاں کیا جاتا ہے اور نہ ہی ہمسایہ ملک میں ۔ یہ خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انگریزوں کو ناکوں چنے چبوانے والوں میں سبھاس چندر بھوس کا نام حد درجہ منفرد ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہندوستان میں اقبال بھی اسی تعصب کا شکار نظر آتے ہیں۔

بنیادی نکتے کی جانب عرض کرنا چاہتا ہوں۔ بامقصد، بااصول اور مہذب زندگی‘ بہت ہی گنے چنے لوگ گزارتے ہیں۔ ان کا کوئی زمانہ نہیں ہوتا۔ وہ نظام‘ خطے اور وقت کی قید سے بالکل آزاد ہوتے ہیں۔ اور یہ سفر ذاتی زندگی کی نفی سے شروع ہوتا ہے۔ بلند فکر کو حیات کا مقصد بنا کر زندہ رہنے والے لوگ اصل میں جاوداں ہوجاتے ہیں۔

ان کا اثر صدیوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ باقی لوگ‘ ازل سے ایک ہجوم تھے اور رہیں گے۔ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ڈھائی ہزار برس میں کرہ ارض پر زندگی گزارنے والوں کا تخمینہ لگایا جائے تو کئی ارب ہوگی مگر گزشتہ ڈھائی ہزا برس میں آفاقی سوچ والے لوگ کتنے ہیں، ان کی تعداد شاید ایک ہزار سے اوپر نہ ہو۔ پورے کرہ ارض کی بابت عرض کر رہا ہوں۔ مطلب یہ کہ کسی بڑی سوچ کے ساتھ زندگی گزارنا حد درجہ مشکل کام ہے۔

اس میں تکالیف ہی تکالیف ہیں۔ کیونکہ بڑے لوگ کسی بھی دیمک زدہ معاشرے کی ہر روایت کو توڑتے ہیں۔ ہمیشہ معتوب رہتے ہیں۔ کھربوں لوگ‘ میرے دوست میاں صاحب جیسی فکر کے تحت طبعی زندگی گزار کر دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ناان کی موجودگی سے فرق پڑتا ہے۔ اور افسوس سے عرض کرنا پڑتا ہے کہ نا ان کی غیر موجودگی قیامت ڈھاتی ہے۔ فکر کے تحت زندگی گزارنا شاید ہر ایک کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارے جیسے معاشرے اور ان کے رہنما‘ عظمت کی کسی بھی مسند پر فائز نظر نہیں آتے!



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں