[ad_1]
پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے‘ یہ 1890میں نیویارک میں پیدا ہوئے‘ کولمبیا یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی اور اپنے آپ کو تین سال کے لیے چرچ کے حوالے کر دیا اور چرچ نے انھیں 1911میں راولپنڈی بھجوا دیا۔
امریکا میں 1837 میں چند پادریوں نے چین اور ہندوستان میں تعلیمی ادارے بنانے کے لیے ایک مشن ایجنسی بنائی تھی‘ امریکا کی بڑی یونیورسٹیوں کے پوزیشن ہولڈرز تعلیم مکمل کرنے کے بعد خود کو تین سال کے لیے مشن کے حوالے کر دیتے تھے اور مشن انھیں چین اور ہندوستان میں اپنے اسکولوں اور کالجوں میں بھجوا دیتا تھا۔
مشن نے 1893میں راولپنڈی میں پہلا کالج بنایا تھا‘ یہ کالج مشنری اینڈریوگورڈن نے بنایا تھالہٰذا یہ اس مناسبت سے گورڈن کالج کہلاتا تھا‘ پروفیسر اسٹیوارٹ کو راولپنڈی بھجوا دیا گیا‘ اسٹیوارٹ نے راولپنڈی میں تین سال بچوں کو باٹنی پڑھائی‘ یہ اس زمانے میں موجودہ پاکستان کا باٹنی کا پہلا پروفیسر تھا‘ اسٹیوارٹ 1914 میں امریکا واپس گیا مگر وہ اپنا دل راولپنڈی میں چھوڑ گیا۔
اس نے مشی گن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی‘ اپنی کلاس فیلو ازابیل کیرولین ڈارو سے شادی کی‘ ازابیل باٹنی کے دنیا کے بڑے ماہر جارج ایم ڈارو کی بہن تھی‘ اسٹیوارٹ پی ایچ ڈی کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ واپس راولپنڈی آیا اور گورڈن کالج میں باقاعدہ ملازمت کر لی‘ وہ قیام پاکستان کے بعد 1960 تک گورڈن کالج میں پڑھاتا رہا‘ کالج کا پرنسپل بھی رہا‘ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا واپس گیا اور مشی گن یونیورسٹی سے وابستہ ہو گیا۔
اس نے زندگی میں 30 ہزار مختلف پودوں پر کام کیا اور یہ آج بھی باٹنی کی دنیا میں نامور ہے‘ اسٹیوارٹ کا انتقال 103 سال کی عمر میں کیلیفورنیا میں ہوا‘ یہ اور ان کی بیگم دونوں پچاس سال راولپنڈی میں پڑھاتے رہے‘ پروفیسر کی دونوں بیٹیاں پاکستانی ہندوستان میں پیدا ہوئیں‘ انھوں نے تعلیم بھی گورڈن کالج سے حاصل کی چناں چہ یہ خاندان ہندوستان‘ پاکستان اور راولپنڈی کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔
پروفیسر اسٹیوارٹ نے 1960میں اپنی الوداعی تقریر میں اس خطے کے بارے میں بڑی خوب صورت بات کی ‘ اس کا کہنا تھا ’’پاکستانی ایک ناکارہ اور مفلوج قوم ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’اس قوم کو پہلے اس کی مائیں نکما بناتی ہیں‘ یہ اپنے بچوں کا ہر کام خود کرتی ہیں‘ ان کے کپڑے دھوتی ہیں‘ استری کرتی ہیں‘ بچوں کو جوتے پالش کر کے دیتی ہیں‘ لنچ باکس تیار کرکے بچوں کے بستوں میں رکھتی ہیں اور واپسی پر باکسز کو نکال کر دھو کر خشک بھی خود کرتی ہیں۔
بچوں کی کتابیں اور بستے بھی مائیں صاف کرتی ہیں اور ان کے بستر بھی خود لگاتی ہیں چناں چہ بچے ناکارہ اور سست ہو جاتے ہیں اور یہ پانی کے گلاس کے لیے بھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو آواز لگادیتے ہیں یا ماں کو اونچی آواز میں کہتے ہیں امی پانی تو دے دو‘ پاکستانی بچے اس کلچر کے ساتھ جوان ہوتے ہیں‘ اس کے بعد ان کی بیویاں آ جاتی ہیں‘ یہ انھیں اپنا مجازی خدا سمجھتی ہیں اور غلاموں کی طرح ان کی خدمت کرتی ہیں‘ یہ بھی ان کا کھانا بناتی ہیں‘ کپڑے دھو کر استری کرتی ہیں۔
ان کے واش رومز صاف کرتی ہیں‘ ان کے بستر لگاتی ہیں اور پھر ان کی نفرت‘ حقارت اور غصہ برداشت کرتی ہیں چناں چہ میں اگر یہ کہوں پاکستانیوں کی مائیں بچوں کی نرسیں‘ بیویاں ملازمائیں اور چھوٹے بہن بھائی غلام ہوتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا لہٰذا سوال یہ ہے جو لوگ اس ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں کیا وہ ناکارہ اور مفلوج نہیں ہوں گے؟‘‘ پروفیسر اسٹیوارٹ کا کہنا تھا ’’اگر تم لوگوں نے واقعی قوم بننا ہے تو پھر تمہیں اپنے بچوں کو شروع سے اپنا کام خود کرنے اور دوسروں بالخصوص والدین کی مدد کی عادت ڈالنا ہو گی تاکہ یہ بچے جوانی تک پہنچ کر خود مختار بھی ہو سکیں اور ذمے دار بھی‘ تم خود فیصلہ کرو جو بچہ خود اٹھ کر پانی کا گلاس نہیں لے سکتا وہ کل قوم کی ذمے داری کیسے اٹھائے گا؟‘‘۔
پاکستانی قوم کے بارے میں یہ آبزرویشن پروفیسر اسٹیوارٹ نے 64 سال قبل 1960 میں دی تھی‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا یہ بات غلط تھی اور کیا یہ اس قوم کی بیماری کی درست تشخیص نہیں تھی؟ میں نے احمد اقبال کی کتاب ’’اقبالی بیان‘‘ میں کیمسٹری کے امریکی پروفیسر آر ایف ٹیبی کا ایک واقعہ پڑھا‘ وہ گورڈن کالج کے وائس پرنسپل تھے‘ پروفیسر کو طالب علموں نے کہا‘ آپ روزہ رکھیں‘ پروفیسر نے رکھ لیا‘ بچوں نے اس کے بعد اصرار کیا‘ آپ ہماری افطاری کا بندوبست کریں‘ پروفیسر نے پوری کلاس کو اپنے گھر بلا لیا‘طالب علموں کو پروفیسر کے گھر جا کر پتا چلا ان کے گھر نوکر نہیں ہے‘ وجہ پوچھی تو پروفیسر نے بتایا‘ گھر میں ہم تین لوگ ہیں‘ میں‘ میری بیوی اور ایک بچہ لہٰذا ہمیں نوکر کی ضرورت ہی نہیں‘ ہم اپنا کام خود کر لیتے ہیں۔
افطار کے وقت طالب علموں نے دیکھا‘ پروفیسر اور ان کی بیوی خود اپنے ہاتھوں سے کھانا لگا رہی ہیں‘ پچاس طالب علموں کا کھانا بھی دونوں نے بنایا تھا جب کہ اسٹوڈنٹس ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر کرسیوں پر بیٹھے ہیں‘ آخر میں پروفیسر نے طالب علموں کو لائن میں کھڑا کیا‘ انھیں پلیٹیں پکڑائیں اور پروفیسر کی بیوی نے ان میں کھانا تقسیم کیا‘ پروفیسر نے بھی لائن میں لگ کر کھانا لیا‘ آخر میں تمام برتن بھی دونوں میاں بیوی نے سمیٹے‘یہ دیکھ کر طالب علموں کو بہت شرم آئی‘ احمد اقبال نے شاید یورپ یا امریکا نہیں دیکھا تھا ورنہ وہ اس واقعے کا اس حیرت سے ذکر نہ کرتے کیوں کہ پورے یورپ اور امریکا میں یہ عام سی بات ہے‘ آپ امریکی صدر کے گھر بھی جائیں تو وہ خود اٹھ کر آپ کی خدمت کرے گا‘ یورپ میں بھی کھرب پتی خاندانوں کی بیگمات برتن سمیٹتی ہیں‘ مجھے ایک بار عمران خان نے بتایا گولڈ اسمتھ فیملی میں ملازمین نہیں ہیں۔
ڈرائیور بھی شام چار بجے چلا جاتا ہے اور گھر کا سارا کام میری ساس اینابیل گولڈ اسمتھ کرتی ہیں‘ میں جب ان کے گھر جاتا ہوں تو مجھے بھی اپنا کام خود کرنا پڑتاہے چناں چہ یورپ اور امریکا بلکہ ساری فرسٹ ورلڈ میں لوگ نہ صرف بچپن سے اپنا کام خود کرتے ہیں بلکہ دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں لوگوں کو پانی کا گلاس بھی اپنی میز یا کرسی پر چاہیے ہوتا ہے اور یہ گلاس اٹھاتا اور دھوتا بھی کوئی اور ہے چناں چہ کیا پھر ہماری قوم مفلوج اور ناکارہ نہیں اور اسے ناکارہ اور مفلوج بنا کون رہا ہے؟
یہ جرم ہمارا کلچر اور ہماری خاندانی روایات کر رہی ہیں ہمیں سب سے پہلے ہماری مائیں مفلوج بناتی ہیں‘ یہ ہمارے جوتے بھی پالش کرتی ہیں اور ہمارے ٹفن باکس بھی صاف کرتی ہیں‘ اس کے بعد ہمارا والد ہماری سستی اور سماجی فالج کا ذمے دار ہوتا ہے‘ یہ مرنے تک ہمیں گرم ہوا نہیں لگنے دیتا‘ یہ بچوں کے بچے بھی پالتا ہے‘ اس کے بعد ہمارے بہن بھائی ذمے دار ہوتے ہیں‘ یہ ہمیں بستر پر کھانا‘ چائے اور پانی دیتے ہیں‘ ہمارے موٹر سائیکل اور گاڑیاں بھی صاف کرتے ہیں اور رہی سہی کسر ہماری بیویاں پوری کر دیتی ہیں‘ یہ غلاموں کی طرح ہماری خدمت کرتی ہیں چناں چہ ہم لوگ جسم سے لے کر روح تک ناکارہ اور مفلوج ہو جاتے ہیں۔
میں اپنے تمام مہمانوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا ہوں اور خود چائے پیش کرتا ہوں‘ آپ یقین کریں لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں‘ یہ شرمندہ بھی ہو جاتے ہیں جب کہ سینٹرل ایشیا سے لے کر امریکا تک 80 فیصد دنیا یہ کرتی ہے‘ وہاں اگر کسی دفتر یا گھر میں ملازم مہمانوں کی خدمت کر رہا ہو اور صاحب ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھا ہو تو لوگ اسے بدتمیز سمجھتے ہیں‘ مہمان بھی اپنا گلاس‘ کپ یا پلیٹ میز پر چھوڑ جائے تو وہ بدتہذیب سمجھا جاتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں بالکل الٹ ہے یہاں چائے اور کھانا ملازم دے گا اور مہمان پورے گھر میں گند مچا کر جائے گا‘آپ اپنا سماجی دیوالیہ پن دیکھیے ہم جب بھی کسی شخص کی تعریف کرتے ہیں تو بڑی حسرت یا فخر سے کہتے ہیں۔
اس کے گھر میں دس دس ملازم ہیں یا وہ چائے بھی بستر پر پیتا ہے‘ ہماری نظر میں ہاتھ سے کام کرنے والا شخص بھی ’’بے چارہ‘‘ ہوتا ہے اور یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ہم پوری دنیا سے پیچھے ہیں‘ ہمیں جب اپنی شِٹ دھونے کے لیے بھی دوسرا شخص چاہیے‘ ہم جب اپنا غسل خانہ اور واش روم بھی صاف نہیں کر سکتے اور ہم جب اپنی پلیٹ اور گلاس بھی اٹھا کر کچن میں نہیں رکھ سکتے تو پھر ہم من حیث القوم اپنا بوجھ کیسے اٹھائیں گے‘ ہم ترقی کا سفر کیسے کریں گے؟ یہ یاد رکھیں دنیا میں فرد ہو یا قوم یہ ماں کی گود میں بنتی ہے اور جب مائیں بچے کی چیخ سن کر اسے دودھ پلانا شروع کر دیں گی یا بچہ رو کر زمین پر ایڑیاں رگڑ کر اپنے والدین سے اپنی ہر خواہش منوا لے گا تو پھر وہ بڑا ہو کر حکومت کو گندم خریدنے‘ نوکری دینے اور پٹرول‘ گیس اور بجلی کے بل معاف کرنے پر مجبور کیوں نہیں کرے گا؟
وہ آزاد کشمیر میں پولیس اہلکاروں کو دریا میں دھکا کیوں نہیں دے گا اور یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں کیوں بند نہیں کرے گا؟ آپ یقین کریں ہمارے ملک میں موجودہ صورت حال کی واحد وجہ ہمارے والدین ہیں‘ یہ ہمیں بچپن سے خودانحصاری کا سبق نہیں دیتے‘ یہ بلیک میل ہو کر ہماری ساری خواہشیں پوری کرتے ہیں چناں چہ ہم بڑے ہو کر ایک طرف اسٹیٹ کو بلیک میل کرتے ہیں اور دوسری طرف مرنے کے بعد تک دوسروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں‘ ہماری قبر کی ذمے داری بھی دوسروں کے کندھوں پر ہوتی ہے جب کہ گورے اپنی قبر کے پھولوں تک کی ادائیگی کر کے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں لہٰذا پھر سوال یہ ہے ہم زندگی میں آگے کیسے بڑھیں گے؟۔
[ad_2]
Source link