12

اپنی اپنی آئینی حدود – ایکسپریس اردو

[ad_1]

1973 کے متفقہ آئین میں تمام اداروں کی آئینی حدود کا تعین کردیا گیا تھا جو اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اسمبلی میں سیاسی پارلیمانی لیڈروں نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا جس کو نصف صدی گزر چکی ہے جس پر سیاسی جماعتیں، سرکاری محکمے اور عدلیہ بھی پابند کی گئی تھی مگر آئین کی منظوری کے بعد صرف چار سال ہی گزرے تھے کہ ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا۔

حالانکہ آئین میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو پابند کیا گیا تھا کہ سب آئین کی مکمل پابندی کریں تاکہ کوئی آئین سے بالاتر نہ ہو جائے اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی دانست میں سمجھ لیا تھا کہ آئین نے ملک کو کسی غیر آئینی اقدام یعنی مارشل لا سے محفوظ کردیا ہے اور ملک میں پارلیمانی نظام کے مطابق جمہوریت برقرار رہے گی اور ملک کا پارلیمانی سربراہ صدر کے بجائے وزیر اعظم ہوا کرے گا۔

ذوالفقار علی بھٹو اسی آئین کے تحت پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور ملک کے دو بڑے صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی اور باقی دو چھوٹے صوبوں میں نیپ اور جے یو آئی کے وزرائے اعلیٰ منتخب ہوئے تھے اور ملک بھی نیا نیا دولخت ہوا تھا اور توقع تھی تمام سیاسی جماعتیں ملک کے آئین کی حدود میں رہ کر عوام کی خدمت کر کے زخمی ملک کو مزید نڈھال نہیں کریں گی۔

مگر ذوالفقار علی بھٹو، وفاق اور دو صوبوں میں اپنی حکومتوں سے مطمئن نہیں تھے اور چاروں صوبوں میں اپنی حکومت چاہتے تھے اور دو چھوٹے صوبوں میں اپوزیشن کی حکومتیں انھیں برداشت نہیں ہو رہی تھیں حالانکہ سرحد کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل سلجھے ہوئے اور معتدل مزاج سیاسی رہنما تھے اور انھوں نے اقتدار کے دو ماہ نہ گزارنے والے کے پی کے میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی طرح اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی دھمکی نہیں دی تھی مگر بھٹو صاحب کو نہ جانے کیوں جلدی تھی۔

انھوں نے دو چھوٹے صوبوں کی اپوزیشن کی حکومتوں کی جگہ اپنی پارٹی کی حکومت لانے کا فیصلہ کیا اور خوامخوا بلوچستان میں گورنر راج لگا کر مینگل حکومت برطرف کر دی جس میں جے یو آئی بھی شامل تھی جس پر کے پی کے جو اس وقت صوبہ سرحد تھا کے جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ مفتی محمود نے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں دونوں صوبوں میں اپنے وزیر اعلیٰ منتخب کرا لیے تھے اور یہ سب کچھ آئینی حدود میں رہ کر ہی کرایا گیا تھا کیونکہ آئین میں گورنر راج لگانے پر پابندی نہیں تھی۔

اس وقت ملک کو سیاسی اتحاد کی ضرورت تھی مگر آئین کے نام پر دو صوبوں میں پی پی کی حکومتیں لانے کی نہ جانے کیوں جلدی تھی۔ ملک میں سیاسی انتشار بڑھایا گیا اور وزیر اعظم بھٹو نے قبل از وقت 1977میں عام انتخابات کا غیر متوقع اعلان کردیا، جب کہ اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو حکومت ہی کی نگرانی میں عام انتخابات ہوئے، جن سے فوج کا کوئی تعلق نہیں تھا اور ذوالفقار علی بھٹو حکومت اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اپوزیشن کی 9 جماعتوں نے مل کر اسلامی جمہوری اتحاد بنایا اور پی پی کی تلوار کا مقابلہ ہل سے ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے منصوبے کے تحت خود کو اور اپنے رہنماؤں کو بلا مقابلہ منتخب کرا لیا جس کے خلاف ملک گیر تحریک چلی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے تین بڑے شہروں میں مارشل لا اس لیے لگایا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک کچل دی جائے اور بھٹو صاحب اپنی دوسری حکومت کو پہلے سے زیادہ مضبوط کر لیں حالانکہ پی پی پی کی پہلی حکومت بہت مضبوط تھی مگر بھٹو صاحب مزید طاقت اور مضبوطی چاہتے تھے۔

ادارے حکومت کے ساتھ تھے جن کی مدد سے ذوالفقار علی بھٹو نے ملک گیر احتجاج کو کچلنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو وہ کر سکتے تھے۔آئین کی بالادستی کے نام پر اپوزیشن کے احتجاج کو کچلنے کے لیے فورسز کا استعمال ہوا جس سے ملک میں خون بہا، گرفتاریوں سے جیلیں بھر دی گئیں، تمام بڑے رہنما بھی گرفتار کرائے گئے مگر تحریک نے زور پکڑا تو پیپلز پارٹی حکومت اپوزیشن سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی جس سے معاہدہ بھی ہوا مگر عمل نہ ہوا تو جنرل ضیا الحق  5 جولائی 1977 کو مارشل لا لگانے پر مجبور ہوگئے جو آئین نہ روک سکا اور جنرل ضیا اور بھٹو کے معاملات اس انتہا پر پہنچ گئے اور ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھا دیے گئے اور 1973 کا آئین انھیں نہ بچا سکا جو آئین کے خالق کہلاتے تھے ۔

آئین کے 51 سالوں میں ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہ ہو سکا، جس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی دو دو حکومتیں آئیں اور سب آئین کی بالادستی کی باتیں اور مرضی کی آئینی تشریح کرتے رہے مگر دونوں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں آنے سے نہ روک سکے، جن کو عدلیہ نے آئین میں ترمیم کا غیر آئینی اختیار دیا اور عدلیہ کے فیصلے متنازع ہوتے رہے۔ اب تک دو بار غیر سول اقتدار آیا، دو سیاسی حکومتیں عدلیہ نے برطرف کیں۔اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مکمل ملوث پی ٹی آئی نے کیا جس کے چیئرمین اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی مکمل مدد سے وزیر اعظم بنے مگر غیر سیاسی فیصلوں اور من مانیوں سے مدت مکمل نہ کرسکے اور اب جیل بھگت رہے ہیں۔

ہر حکمران اور حکومت نے آئین کا نام ضرور لیا مگر آئین پر عمل کسی نے نہیں کیا۔ سب کے دعوے رہے کہ وہ آئین پر عمل کر رہے ہیں۔ سب اپنے اپنے طور آئین کی حدود میں رہنے کے دعویدار رہے۔ سب اقتدار کے نشے میں طاقتور رہے اور آئین بے بس رہا۔ من مانی تشریحات نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا جس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی انتشار انتہا پر ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں