[ad_1]
مشہور انگریزی فکشن نگار’’ایچ جی ویلز‘‘ کو عجیب وغریب سائنسی موضوعات پر لکھنے کا شوق تھا۔ مشہور ناول’’ان وزیبل مین‘‘ بھی اسی کا شاہکار ہے۔جس پر کئی زبانوں میں فلمیں بھی بنی ہیں۔لیکن اس نے ایک اور ناول ایسا بھی لکھا تھا جو زیادہ مشہور تو نہیں ہے لیکن ہمارے خیال میں اس پر ایک ’’سوپ سیریل‘‘ عرصہ (77) سال سے چل رہا ہے۔
اس ناول میں ایک سرپھرے ڈاکٹر اور سائنس دان کا قصہ ہے۔جس نے ایک الگ تھلگ جزیرے پر اپنے تجربات کا سلسلہ چلایا تھا۔وہ مختلف جانور کے اعضاء دوسرے بالکل مختلف جانوروں میں پیوند کرتا تھا۔بھیڑ کو بھیڑیے کا سر،اونٹ کو ہاتھی کے پاؤں،بیل کو گھوڑے کے پیر لگا دیتا تھا۔ پھر اس نے ایک ایسا حیوان بنا ڈالا جس کے جسم میں بے شمار جانوروں کے اعضاء پیوند کیے گئے تھے اس کا سر گدھے کا تھا جس میں بیل کے سینگ لگائے گئے تھے،گردن اونٹ کی تھی۔
جسم ریچھ کا،پنجے شیر کے اور ہاتھ انسانی تھے،پاؤں گھوڑے کے تھے،دُم بندر کی تھی لیکن اس کے آخر میں سانپ کا منہ۔ہوسکتا ہے کہ تفصیلات میں ہم سے کچھ بھول چوک ہوگئی ہو کیونکہ کئی سال پہلے ہم نے یہ ناول پڑھا تھا،لیکن یہ ہے کہ اس کے بنائے ہوئے شاہکار میں تمام جانوروں کے اعضا ٹرانس پلانٹ کیے گئے تھے جو آخر میں خود اس کے لیے تباہ کن اور خطرناک بن گیا تھا۔ایک عرصے تک ہم اسے محض خیالی اور تصوراتی افسانے سمجھتے تھے لیکن اب جان گئے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔
ایسے ہم صفت اور کثیرالاعضاء جانور بنائے جاسکتے ہیں بلکہ بنائے جا چکے اور آپ اسے دیکھ بھی چکے ہیں بلکہ دیکھتے رہتے ہیں۔کسی زمانے میں مرحوم مختار علی نیئر جو’’بابائے ہندکو‘‘ بھی تھے ٹی وی کے لیے ایک ہندکو پروگرام لکھتے تھے جس کا ٹائٹل تھا۔’’دیکھدا جاندارے‘‘ تو اس جانور کو آپ بھی ’’دیکھدا جاندرے‘‘ کررہے ہیں۔ہمیں بھی یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا کوئی کثیرالاعضاء اور کثیرالصفات جانور بھی ممکن ہوسکتا ہے۔لیکن جب دیکھ لیا تو قائل ہونا پڑا۔
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں متعقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
اور اس فتنہ محشر،کثیرالاعضاء،ملٹی پرپزاور ست رنگے اچار کا نام ہے ’’پاکستانی جمہوریت‘‘ اس کمال کی جمہوریت میں وہ سب کچھ ہے جو نہیں ہونا چاہیے اور ایسا کچھ بھی نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ایک سمندری ماہر کا کہنا ہے کہ ’’سمندر‘‘ میں ہر اس قسم کا جانور موجود ہے جو انسانی ذہن میں آسکتا ہے یعنی آپ کوئی سا بھی تصوراتی جانور فرض کریں گے تو ٹھیک ویسا ہی جانور سمندر میں مل سکتا ہے اور ہم اپنی اس رائج الوقت جمہوریت کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ جس چیز کا تصور کرسکتے ہیں وہ اس جمہوریت میں ملے گا سوائے جمہوریت کے۔اس کا جزوئے اعظم تو دراصل جدی پشتی اور خاندانی بادشاہت ہے۔یعنی ابن کے بعد ابن۔ابن ابن بلکہ بنت بھی حکومت کرتے ہیں اور اپنے محلوں کے چاروں کونوں پر مورچے بنا کر آدمی تعینات کیے گئے ہیں کہ جمہوریت کا پرندہ بھی اگر یہاں’’پر‘‘ مارنے کی کوشش کرے تو اسے پرزے پرزے کرکے ہوا میں اڑا دیے جائیں تاکہ وہ ہمیشہ گاتا رہے کہ
مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑالے جائے
وگر نہ تاب و تواں بال وپر میں خاک نہیں
چنانچہ جمہوریت کا پرندہ ان شاہی اور ابن ابن اور بنت بن ابن اور ابن ابن بنت خاندانوں کے قریب سے بھی پر مار کر نہیں گزرتا اور اپنے ’’سر پر پیر‘‘ کے ساتھ دور دور ہی اخباروں میں اڑتا پھرتا ہے لیکن اس جمہوریت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس کے بادشاہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ رعیت کے لیے جگہ کی تنگی ہوجاتی ہے۔
اس جمہوریت میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ چوروں کو لیڈر اور لیڈروں کو چور بنانے کے کارخانے بھی چلاتی ہے،کہیں کہیں اگر کوئی’’شریف‘‘ آدمی پایا جاتا ہے تو اسے فوراً پکڑ لیا جاتا ہے اور تب تک نہیں چھوٹتا جب تک کوئی غنڈہ، بدمعاش اس کی ضمانت نہ دے کہ آیندہ یہ بھول کر بھی شرافت کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔
باقی ساری ایک ہزار ایک سو ایک صفات کے علاوہ اس میں سب سے بڑی صفت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ہمیشہ ’’اقلیت‘‘ حکومت کرتی ہے اور اکثریت کو ناکوں چنے چبواتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو اقلیت اکثریت کو اٹھا کر دور بھی پھینک دیا کرتی ہے،یہ کمال صرف اسی کثیرالاعضا جمہوریت میں ہے کہ انتخابات میں اقلیت منتخب ہوکر حکومت کرتی ہے اگر کسی حلقے میں کوئی شخص ایک ہزار ووٹ حاصل کرلے تو اگر تین ہزار ووٹ اس کے خلاف بھی پڑے ہوں تین دیگر امیدواروں کے تو کامیاب اسی کو قرار دیا جاتا ہے اور تین ہزار ووٹ ردی کے ٹکڑے بن جاتے ہیں۔اس موجودہ سیٹ اپ میں دیکھیے۔تو اقلیت ہی اکثریت پر حکمران ہے۔ایک ہزار ایک ووٹ لینے والے پانچ سال تک ’’تین ہزار‘‘ اکثریت کے سینے پر کود کود کر اس کا ملیدہ بناتے رہیں گے۔
[ad_2]
Source link