[ad_1]
ہمارا ایک بڑا سیاسی المیہ سیاسی تحریکوں کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ عمومی طور پر سیاسی تحریکوں کی بنیاد جمہوریت ، آئین ، قانون کی حکمرانی اور عام آدمی کے مفادات ہوتے ہیں۔
اسی بنیاد پر تحریکوں کا آغاز کیا جاتا ہے ، فعال کیا جاتا ہے ، منظم کیاجاتاہے اور عملی طور پر لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس تحریک کا حصہ بن کر سیاسی ، معاشی خودمختاری کو یقینی بنائیں ۔ان تحریکوں میں یہ دعوے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ ہم برسراقتدار آکر وہ سب کچھ کریں گے جو ہمارے نعروں اور دعوؤں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکومت مخالف تحریکوں کا بنیادی نقطہ حکومت کو گرا کر اپنے لیے اقتدار کا راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے ۔تحریکوں کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری میں پیش پیش ہوتی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی تحریکیں گروہی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کیونکہ حکومتوں کو گرانا اور خود کو متبادل بنا کر پیش کرنا ، اور جلاؤ گھیراؤ کرکے حکومت کو گرانا یا دباؤ لانا، اس قسم کا سازشی احتجاجی کھیل مجموعی طور پر جمہوریت اور ریاستی خود مختاری کو کمزور کرتا ہے۔حالیہ سیاسی ماحول، پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ، سیاسی جماعتوں کے درمیان بداعتمادی کا ماحول ظاہر کرتا ہے کہ سب کچھ اچھا نہیں ہورہا ۔مختلف نوعیت کے نئے سے نئے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔
اس ملک کا مسئلہ محض سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ بالائی طبقے کے باہمی ٹکراؤ کا بھی ہے۔ آج کے حالات غیر معمولی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس لیے جو بھی حالات کا علاج تلاش کرنا ہے وہ غیر معمولی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں اور نہ ہی ان مسائل کو روائتی طریقوں کی بنیاد پر نمٹا جانا چاہیے ۔’’ تحریک تحفظ آئین پاکستان ‘‘ ایک ممکنہ نئی سیاسی تحریک ہے ۔
پی ٹی آئی کی سرپرستی میں ایک متحدہ محاذ ہے۔ جس میں بلوچستان کی کئی قوم پرست اور چند مذہبی سیاسی پریشر گروپ نما جماعتیں شامل ہیں۔ تحریک تحفظ آئین نامی اس اتحاد کا سربراہ محمود خان اچکزئی کو بنایا گیا ہے،جو بلوچستان میں پختون قوم پرست جماعت پختونخوا میپ کے سربراہ ہیں۔ اس قوم پرست جماعت کی کسی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں ہے۔ دیگر جماعتوں میں بلوچ قوم پرست جماعت بی این ایم(مینگل) کے بلاشرکت غیرے سربراہ اختر مینگل ہیں، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کا نام سنی اتحاد کونسل ہے۔
مجلس اتحاد مسلمین کے راجہ ناصر عباس بھی اس تحریک کا حصہ ہیں۔ اس اتحاد کی قیادت کی کوشش ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور جماعت اسلامی بھی عملی بنیادوں پر اس اتحاد کا حصہ بنے۔ کچھ عرصہ قبل تک پی ٹی آئی تنہا پرواز کی پالیسی پر چل رہی تھی لیکن اس نے بلوچستان کی قوم پرست اور چند مذہبی جماعتوں کو تحریک تحفظ آئین پاکستان ‘‘ میں اکٹھا کیا ہے جو غیر معمولی بات ہے۔ اگر پی ٹی آئی اور فضل الرحمن میں موجود دوریاں ختم ہوتی ہیں اور جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ بنتی ہے تو تحریک تحفظ آئین اتحاد کو نئی سیاسی طاقت ملے گی۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس پی ٹی آئی کی چھتری تلے قائم اس اتحاد میں شامل جماعتیں اپنی سیاست کی بقا کے لیے شامل ہوئی ہیں تاکہ جلسے جلوسوں کے ذریعہ اپنی سیاسی پوزیشن بہتر بنا سکیں۔ عمران خان ، محمود خان اچکزئی ، سردار اختر مینگل ،مولانا فضل الرحمن ، حافظ نعیم الرحمن ، صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ راجہ ناصر عباس اسٹیبلیشمنٹ سے نالاں ہیں ۔ ’’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘‘ کی قیادت اپنی تقریروں اور میڈیا بیانات میں یہ منطق ابھاری جا رہی کہ ملک میں ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جارہا ہے جو آئین اور قانون کی حکمرانی کے برعکس ہے۔یہ تحریک کیا رنگ دکھاتی ہے اورکس حد تک اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دباؤ بڑھا کر اپنے اہداف حاصل کرتی ہے۔
سوال ہی سوال ہیں کہ یہ تحریک کیسے ماضی کی تحریکوں سے مختلف ہوگی۔ پاکستان میں سیاسی اتحاد اور ان کی سرپرستی میں چلائی گئی تحریک سیاسی گٹھ جوڑ کے کھیل کا حصہ رہی ہے۔ یہ تحریک حقیقی بنیادوں پر عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں تھی ۔آج ملک کو کئی قسم کے چیلنجزدرپیش ہیں۔ جن میں سیاست میں انتشار پیدا ہونا، معاشی حالات کا بگاڑ ، سیکیورٹی حالات اور سیاسی مخالفت کو نفرت اور دشمنی میں تبدیل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ’’ تحریک تحفظ آئین پاکستان ‘‘ کا ایجنڈا ان مسائل کا حل پیش کرنا ہے یا ماضی کی روایت کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنا تاکہ اقتدار کی منزل حاصل کرلی جائے ۔
ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی سیاست کرتے رہے ہیں تو کیا اب یہ سب مل کر کچھ بڑا کرسکیں گی یا موجودہ حکومت کو گرا کر اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ نئی نیاز مندی اور تعاون کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آنا ہے۔ مگر اس کھیل سے پاکستان کے سیاسی و معاشی بحران کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ بنیادی نقطہ یہ ہی بنتا ہے کہ تمام ریاستی ، سیاسی اور غیر سیاسی فریقین آئین اور قانون کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں اور ان کا ہر عمل ایک دوسرے کے نظام میں مداخلت کم اور تعاون پر مبنی زیادہ ہونا چاہیے ۔
[ad_2]
Source link