[ad_1]
پاکستانی نژاد صادق خان تیسری دفعہ لندن کے میئر منتخب ہوگئے، ان کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے، وہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے زبردست حامی ہیں۔ امریکا کے سابق صدر ٹرمپ ان کے شدید مخالف ہیں۔ صادق خان کی کامیابی ایک سیکولر جمہوری عوام کی ریاست پر بالادستی کا مظہر ہے ۔ برطانیہ میں نچلی سطح تک اختیارات کا کاؤنٹی کا نظام انتہائی مضبوط ہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد لندن کے میئر کو سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔
صادق خان 8 اکتوبر 1970 کو جنوبی لندن کے علاقے Troting کے سینٹ جارج اسپتال میں پیدا ہوئے۔ صادق خان کا تعلق ایک ورکنگ کلاس خاندان سے ہے۔ ان کے دادا متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنؤ سے 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے، پھر ان کے والدین 1968میں برطانیہ منتقل ہوگئے۔
صادق خان کے والد امان اﷲ ایک بس ڈرائیور تھے، ان کی والدہ بھی ورکنگ لیڈی تھیں۔ صادق خان کے 7 بھائی اور ایک بہن ہیں۔ صادق خان اور ان کے بھائی بہنوں نے کونسل کے فراہم کردہ تین بیڈروم کے فلیٹ میں زندگی گزاری۔ صادق خان نے یونیورسٹی آف لاء گلڈ فورڈ سینٹر سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور عملی زندگی کا آغاز انسانی حقوق کے وکیل کی حیثیت سے کیا۔ لیبر پارٹی میں شامل ہوئے اور پھر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
صادق خان سب سے پہلے 2016میں لندن کے میئر منتخب ہوئے۔ اس وقت عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما کے بھائی کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے میئرکے امیدوار تھے۔ عمران خان اپنے بچوں کے ماموں کی انتخابی مہم میں شرکت کے لیے خود برطانیہ گئے تھے۔ برطانیہ کے لوکل باڈیز کے قانون کے تحت لندن کے میئر کی ذمے داریوں میں پولیس فورس ، ٹرانسپورٹ، ہاؤسنگ، بلڈنگ اور تعلیم اور صحت کے شعبوں کی نگرانی شامل ہے۔ صادق خان کا سالانہ بجٹ 21 بلین پونڈ تھا۔ ایک میئرکو سالانہ 143,911 یورو ملتے ہیں۔
صادق خان اور سعدیہ کی شادی 1994 میں ہوئی تھی۔ صادق خان 2005میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تو دہشت گردوں نے لندن میں بموں کے خوفناک دھماکے کیے۔ ان دھماکوں میں 50 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ صادق خان نے اس دہشت گردی کی مذمت میں ایک مضبوط تحریک منظم کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹکی ہوئی اقلیت ان دھماکوں کی ذمے دار ہے۔
صادق خان کو لیبر حکومت میں مختلف عہدے سونپے گئے، وہ State of communities کے انڈر سیکریٹری رہے۔ انھیں ترقی دے کر ٹرانسپورٹ کی وزارت کا انڈر سیکریٹری مقررکیا گیا، جب 2015کے پارلیمنٹ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس لیبر پارٹی کی شیڈو حکومت میں جسٹس سیکریٹری بنا دیا گیا۔
2011 میں میئر لندن کے انتخاب میں صادق خان میئرکے امیدوار نامزد کردیے گئے۔ اس دوران کنزرویٹو وزیر اعظم بورس جانسن تیسری دفعہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ صادق خان نے ہمیشہ ایشیائی اور اقلیتی عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئرکی امریکا میں عراق میں مدد کے لیے فوجی حکومت بھیجنے کی بھی شدید مخالفت کی تھی۔ صادق خان برطانیہ کی یورپی یونین سے بھی علیحدگی کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں۔ صادق خان کے اس مؤقف کی بناء پر سابق صدر ٹرمپ شدید مشتعل ہوئے تھے۔
صادق خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ایک تقریب میں اپنے والدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کے والد نے بطور بس ڈرائیور اس شہرکی خدمت کی ہے۔ ان کے والد خود کو لندن کا باسی کہلانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ جب ان کے والد لندن آئے تھے تو ان دنوں نسل پرستی عروج پر تھی، دکانوں اورگیسٹ ہاؤسوں کی کھڑکیوں پر لکھا ہوتا تھا کہ سیاہ فارم، آئرش اورکتوں کا داخلہ منع ہے اور اب پھر وقت تبدیل ہوگیا ہے کہ ایشیائی تارکین وطن کا بیٹا جنوبی لندن کونسل میں پڑھا ہوا میئر بن گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لندن شاندار شہر ہے جہاں ترقی کے بہت مواقعے ہیں۔
صادق خان کی میئر لندن کے لیے تیسری کامیابی ایک ایسی تاریخی کامیابی ہے جس کے اسباب کا جاننا ضروری ہے ۔صادق خان جب سے لندن کے میئر منتخب ہوئے ہیں، وہ مسلسل لندن کے عوام کے لیے سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ صادق خان نے پولیس کے عملے میں کئی تبدیلیاں کی ہیں اور خاص طور پر’’ مسلم فوبیا‘‘ کے خاتمے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں کمی آئی ہے۔ ٹیوب کے چلنے کے اوقات میں اضافہ اور سفری مشکلات کو دورکرنے کے علاوہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے بنیادی پالیسیاں بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
صادق خان نے کورونا 19 کی وباء کے دوران ہنگامی سروس کو فعال رکھا اورکورونا کے مرض میں مبتلا افراد کو اسپتالوں میں داخل کرانا اور ان کے علاج معالجے کے لیے نگرانی کی ایک مؤثر نظام قائم کیا گیا۔ کورونا کے دوران جب تمام کاروبارِ زندگی مہینوں بند رہا تھا، صادق خان کی قیادت میں بلدیاتی اہلکاروں نے بے گھر اور بے روزگار افراد کی نگہداشت پر خصوی توجہ دی تھی۔ صادق خان کی اس پالیسی میں کسی قسم کا مذہبی فرقہ واریت، لسانی اور علاقائی تعصب کا شائبہ تک نہیں تھا۔
صادق خان نے تیسری معیاد کے لیے میئر منتخب ہونے کے بعد کہا کہ ’’ ان کی ساری توجہ نئی نسل پر مرکوز ہوگئی۔‘‘ صادق خان کا کہنا ہے کہ وہ اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کو کھانے کی فراہمی پر مکمل توجہ دیں گے۔ صادق خان 57 فیصد ووٹ لے کرکامیاب ہوئے۔ ان کے ووٹروں میں مسلمان، ہندو، عیسائی ، یہودی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے علاوہ کسی مذہب کو نہ ماننے والے بھی شامل ہیں، یہ سب کچھ ان ایک جدید سیکولر ریاست میں ہی ممکن ہے۔
برطانیہ کی جدید ریاست کا ارتقاء 12ویں صدی سے شروع ہوا تھا۔ بادشاہ، چرچ اور پارلیمنٹ کے درمیان جنگ کے بعد 1217 میں میگنا کارٹا معاہدہ ہوا جس کے تحت مذہب کو ریاست سے علیحدہ کردیا گیا۔ اس معاہدے کے ذریعے ریاست پر عوام کی بالادستی کا تصور عملی شکل کی طرف گا مزن ہوا تھا۔
ریاست کے تین ستون انتظامیہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ ابھرکر سامنے آئے، پریس کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا گیا، یوں ارتقائی طور پر پرامن انتخابات کو شفاف بنانے کی اہمیت کو محسوس کیا گیا اور پھر نچلی سطح کے اختیارات کے لوکل گورنمنٹ کے تصورکو عملی طور پر نافذ کیا گیا۔ برطانیہ میں غلامی کا ادارہ ختم ہوا۔ متوسط طبقہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ٹریڈ یونین، ادیبوں، دانشوروں، اساتذہ اور طلبہ کی تنظیموں نے ایک سیکولر جمہوری نظام کے قیام کی تاریخی جدوجہد کی۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں 20 ویں صدی کے پہلے عشرے میں خواتین کو ووٹ کا حق حاصل ہوا، یوں ریاست میں تمام شہریوں کی نمایندگی یقینی ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ تارکینِ وطن کو بھی برطانوی نظام میں کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں 1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور ہوا مگر اس آئین میں اس طرح کی ترامیم کردی گئیں کہ پاکستانی شہریوں کے ایک حصے کے بنیادی حقوق غضب ہوئے، یوں جمہوریت کا ریاست کے تمام شہریوں کے ساتھ بلاتفریق مذہب، ذات اور جنس یکساں سلوک کا اصول مٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں صادق خان کی طرح کوئی مثال قائم نہیں ہوسکی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں صادق خان کو جس نظام کا تحفظ حاصل ہے ہمارے ملک میں وہ نظام کب قائم ہوگا؟
[ad_2]
Source link