[ad_1]
عام انتخابات کے بعد سیاسی حالات پرانی ڈگر پر رواں ہیں۔ سیاسی حدت کو کم کرنے کی کوئی کوشش فی الحال کامیاب ہونے کے امکانات کم نظر آر ہے ہیں۔عام انتخابات سے پہلے ہی یہ پیش گوئیاں جاری تھیں کہ معاملات مزید بگڑیں گے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔
ریاست کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں حکمران تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ ہر الیکشن مبینہ طور پر متنارعہ ہی ہوئے ہیں، اس لیے کوئی بھی ایسا جمہوری حکومت نہیں گزری جس کی جیت پر اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات نہ لگائے ہوں۔ انھی انتخابی تنارعات کی وجہ سے ہم اپنا ملک دولخت کر بیٹھے لیکن اتنے بڑے سانحے سے بھی نہ آمروں نے کچھ سیکھا نہ جمہوریت کے نام لیوا حکمرانوں نے۔سب عوامی رائے کو روندتے ہی رہے۔
جنرل ایوب خان ہوں یا جنرل یحییٰ خان ہوں، جنرل ضیاء الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف تمام جمہوریت کو روند کر آئے البتہ ان کی خوش قسمتی کی یہ رہی کہ ان کی حکمرانی کے دوران امریکا اس خطے میں موجود رہا۔جنرل ایوب خان امریکا کو پاکستان میں لے آیا، یہ سلسلہ آگے یوں بڑھا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکا اور کمیونسٹ مخالف افغانیوں کا اتحاد اور گٹھ جوڑ قائم ہوا، تاکہ سوویت یونین کو افغانستان میں گھیرا جائے ۔
پرویز مشرف کے کے دور امریکا نے اپنے پرانے حلیف افغانیوں کو ہی تختہ مشق بنا ڈالا ۔ ہمارے حکمرانوں کی نہ جانے وہ کون سی مجبوریاں تھیں کہ امریکا کے ساتھ چلنا پڑا۔ یہی ڈالر ہماری معیشت کو سہارے دیے رہے اور جب امریکا نے اس خطے سے کوچ کا فیصلہ کیا تو ہماری معیشت کی دیوارجو مصنوعی سہاروں پر کھڑی تھی، دھڑام سے نیچے آگری اور آج کی صورتحال سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح ہمارے حکمران ملک چلانے کے لیے دنیا بھر میںپاکستان برائے فروخت کا بورڈ اٹھائے پھرتے ہیں لیکن کوئی گاہک نہیں مل رہا۔
آئی ایم ایف نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری لانے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے ۔ہمارے ملک کے کارپرداز نہ جانے یہ بات سمجھنے کی کیوں کوشش نہیں کر رہے کہ جب ہر طرف سے سیاسی استحکام لاؤ کی آواز آرہی ہے تو اس آواز پر کان دھرنے کی فوری ضرورت ہے لیکن شاید کچھ کان ایسے بھی ہوں جن کو یہ آواز بھلی نہ لگ رہی ہو اور وہ اس کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑانے کی کوشش کر رہے ہوں لیکن اس وقت ضروت اس امر کی ہے کہ اگر ملک کی معیشت کو درست سمت کی جانب لے جانا ہے تو اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی انا قربان کرنی پڑے گی اور کان کھلے رکھنے پڑیں گے تا کہ باہمی گفتگو و شنید ممکن ہو سکے اور جب آپس میںمل بیٹھنے کا سامان ہو جائے تو ہر طرح کے حالات سے نکلنے کی سبیل پیدا کی جا سکتی ہے البتہ اس کے لیے سب کو دل بڑا کرنا پڑے گا اور اپنی اپنی ضد کو چھوڑنا ہو گا ۔ جتنی جلدی ہم اس ضدی پن سے نکل آئیں ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
بداعمالیوں اور نااہلی کی ایک طویل داستان ہے جس سے پاکستانیوں کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ لامتناہی پریشانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ عوام برداشت کر رہے ہیں لیکن اب یہ برداشت ختم ہو چکی ہے اور اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم نے آزاد کشمیر میں دیکھی ہے جہاں پر عوامی سمندر نے اپنے مطالبات منوا لیے ہیں لیکن کسی بھی ریاست کے استحکام کے لیے روز روز کے احتجاج کوئی نیک شگون نہیں ہوتے ۔ پاکستان میں کسان کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ہے اس سے ان میں حکومت کے خلاف غصے میں اضافہ ہوا ہے ۔
وزیر اعظم نے پاسکو نے دو بڑے افسران کو معطل کر کے کسانوں کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کیا اس سے کسانوں کی گندم ان کے مطلوبہ نرخوں پر خریداری ممکن ہو جائے گی اور آج تک بیشتر گندم سرکار کے مقرررہ کردہ نرخوں سے کہیں کم فروخت بھی کی جاچکی ہے کہ کسان زیادہ دیر تک اسے رکھنا برداشت نہیں کر سکتا۔ اسے فصل کی کاشت کے لیے اٹھائے گئے قرض بھی چکانا ہوتے ہیں تا کہ اسے اگلی فصل کے لیے مزید قرض مل سکے۔
دانشوروں کی محفل میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ حالات اور وقت کا تقاضہ ہے کہ تما م اسٹیک ہولڈرزبشمول مقتدرہ ، مقننہ اور عدلیہ ملکی معیشت اور اس سے جڑی عوامی بہتری کے لیے ایک میز پر بیٹھ جائیں۔ ہمارے ہاں بڑے سیاسی رہنماء اب نہیں رہے جو اپنی سیاست سے زیادہ ملک کا سوچتے تھے اور ملکی استحکام کے لیے اپنی سیاست کو قربان کر دیتے تھے۔
آج کے سیاستدان تو سیاست بچاؤ ایجنڈے پر گامزن ہیں اور کوئی بھی فریق حالات کی سنگینی کو سمجھنے کو تیار نہیں ہے ۔ملک چلانے کے فیصلے سیاسی میزوں پر کرنے چاہئیں نہ کہ لڑائی جھگڑے سے کیونکہ لڑائی سے مسائل حل نہں ہوتے ۔ سیاستدان جتنی جلد اس حقیقت کو سمجھ جائیں اتنا ہی ان کے اچھا ہے۔
[ad_2]
Source link