[ad_1]
ایک نہیں کئی مسلم ممالک کے دانشوروں کے طعنے کئی بار سنے ہیں کہ ’’پاکستانیو! آپ کیسے لوگ ہیں،آپ ڈاکٹر محمد اقبالؒ جیسے عظیم محسن کی قدر نہیں کرسکے۔ آپ کتنے احسان فراموش ہیں کہ آپ نے اتنی بڑی شخصیت اور اپنے قومی شاعر کو بھلا دیا ہے‘‘، الزام سچّا ہو تو زبان ساتھ نہیں دیتی اور جواب میں کوئی لفظ نہیں سوجھتا۔ یہ بات درست ہے کہ پچھلی کئی دھائیوں سے عوامی سطح پر یا حکومت کے زیرِ اہتمام مفکّرِ پاکستان علّامہ اقبالؒ پر کوئی ڈھنگ کا پروگرام نہیں ہوتا۔ برقی میڈیا پر چونکہ دوقومی نظرئیے سے بعض رکھنے والوں کا قبضہ ہے۔
اس لیے ٹی وی چینل اپنے عظیم محسن علامہ اقبالؒ کے ضمن میں چشم پوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمسایہ ملک کی کوئی گلوکارہ انتقال کرجائے یا کسی اداکارہ کی منگنی ٹوٹ جائے تو کئی کئی گھنٹے اس پر پروگرام ہوتے رہتے ہیں مگر اقبالؒ کے شایانِ شان پروگرام ترتیب دینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ ایک آدھ منٹ کے لیے بے دلی سے بے جان سی گفتگو کی بھی جاتی ہے تو ایسے جیسے فٹیگ پوری کی جارہی ہو لہٰذا ہمیں احسان فراموش قوم نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
بے پناہ پابندیوں کے باوجود سوشل میڈیا ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار کی کچھ جھلکیاں دکھاتا رہتا ہے، اس لیے اب پاکستان کے باشندوں کو آزادی کی قدروقیمت کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔
ہم یہاں 24 کروڑ ہیں جب کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 26 کروڑ ہے مگر وہاں نہ ان کی جان اور مال محفوظ ہے اور نہ مسلم خواتین کی عزّت۔ انتہا پسند غنڈے جب چاہیں کسی مسلمان کے گھر میں گھس کر مرد کو گھسیٹ کر سڑک پر لے آتے ہیں اور لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوںسے مار مار کر کچل دیتے ہیں، وہاں مسلمان مرد کو قتل کرنا یا کسی مسلم خاتون کو اٹھا کر لے جانا اور اس کی عزّت پامال کردینا، کیڑے مکوڑوں کو کچل دینے سے زیادہ آسان ہے، یہ اس لیے ہے کہ مسلمان وہاں غلام ہیں۔
ارون دھتی رائے جیسی جرأت مند رائٹرز لکھتی ہیں کہ اب بھارت کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی، سیاسی یا تعلیمی پسماندگی نہیں بلکہ صرف بقاء ہے، اگر گھر کے تمام افراد شام کو زندہ لوٹ آئیں تووہ شکرانے کے نفل پڑھتے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی نئی نسل اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کھوچکی ہے۔
مسلم نوجوان زندہ رہنے کے لیے اپنی مذہبی شناخت چھپاتے ہیں اور اب تو ان کے لیے وہاں مسلم ناموں کے ساتھ زندگی گذارنا بھی ممکن نہیں رہا، اس لیے وہ اپنے اسلامی نام تبدیل کررہے ہیں۔ اقبالؒ اور قائدؒ کی بصیرت کو سلام کہ جنھوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ مستقبل کا ہندوستان کیسا ہوگا، لہٰذا مسلمانوں کے حقوق اور علیحدہ تشخص کی حفاظت کی ایک ہی صورت ہے کہ ان کے علیحدہ ملک کا قیام عمل میں لایا جائے۔
پوری سنجیدگی کے ساتھ مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا تصوّر سب سے پہلے اقبالؒ نے پیش کیا۔ پھر سات سمندر پار سے لیڈر بھی ڈھونڈ کر دیا۔ میرِ کارواں کو دو قومی نظرئیے اور علیحدہ ریاست کے بارے میں قائل بھی کیا اورواپس آکر مسلمانوں کی قیادت کرنے پر راضی بھی اقبالؒ نے کیا اور پھر تحریکِ پاکستان کو اساس اور بنیاد بھی فکرِ اقبال نے فراہم کی۔ اسی لیے علّامہ اقبالؒ کو پاکستان کا نظریاتی باپ کہا جاتا ہے۔ ہماری آزادی، حقوق، جائیدادیں، عہدے سب کچھ جناحؒ اور اقبالؒ جیسے محسنوں کے طفیل ہیں۔ جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کردیں، وقت انھیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔
یہ تو سب مانتے ہیں کہ پاکستان اقبال کے خواب کی تعبیر اور ان کے نظرئیے کا ثمر ہے مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اس کے دارالحکومت میں ہمارے قومی شاعر کے یومِ ولادت یا یومِ وفات پر کوئی بڑی تقریب منعقد نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ کمی پوری کرنے کا بیڑہ علّامہ اقبال کونسل نے اٹھایا۔ چند سال پہلے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے آڈیٹوریم میں ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی جس میں جڑواں شہروں کے جیّد اقبال شناس، کئی مسلم ممالک کے سفیر اور شہر کی اہم شخصیات شریک ہوئیں۔
اس کے بعد کووڈ کی وجہ سے کئی سال تعطّل رہا، مگر اس سال کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ فکر اقبال کے فروغ کے لیے اس بار پھر 21 اپریل کے آس پاس علّامہ کی یاد میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا جائے۔ جس میں ترکی، ایران اور سینٹرل ایشیاء کے ممالک کے سفارتکاروں کو بھی مدعو کیا جائے۔
مقرّرین کی فہرست بڑے غور وحوض کے بعد ترتیب دی گئی۔ خیال رکھا گیا کہ مقررین ایسے ہوں جو تقریب کو سیاسی اکھاڑا نہ بنادیں اور اپنی تقریر کو آج کے مسائل کے حل کے لیے اقبال کے پیغام تک محدود رکھیں۔ سیاستدانوں میں سے تین کو دعوت دی گئی، حکومتی پارٹی سے سینیٹر اسحاق ڈار اور اپوزیشن کی نمایندگی کے لیے قومی اسمبلی کے رکن علی محمد خان کو مدعو کیا گیا، جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب کو بھی دعوت دی گئی۔
پہلے دونوں حضرات تقریب میں شریک ہوئے مگر حافظ صاحب نہ آسکے۔ پی این سی اے کا آڈیٹوریم چند منٹوں میں ہی کھچا کھچ بھرگیا۔ ڈاکٹر حمیرا شہباز نے فارسی زبان وادب میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور نمل یونیورسٹی میں علامہ اقبال کی فارسی تصنیفات کا مضمون پڑھاتی ہیں۔ لہٰذا ماہرِ اقبالیات کے طور پر ڈاکٹر صاحبہ کو ’’علامہ اقبال کی فارسی تصنیقات کا تعارف‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے کہا گیا۔
انھوں نے اقبال کی ساتوں تصنیفات کا مختصر تعارف کرایا۔ ان کا اسلوب اور خاص طور پر فارسی شعر پڑھنے کا لہجہ اس قدر پرسوز تھا کہ حاضرین نے کھل کر داد دی۔ اسٹیج سیکریٹری کا انتخاب بھی بڑا ہم مسئلہ ہوتا ہے، کسی بڑی تقریب یا جلسے کی کامیابی یا ناکامی میں اسٹیج سیکریٹری کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے چونکہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تقریب شاندار اور باوقار ہوگی اس لیے ہم نے کسی چینل کے اینکر کے بجائے لاہور کا رخ کیا اور اردو زبان کے (اپنے وقت کے) سب سے بڑے مقرر سیّد تنویر عباس تابش صاحب سے رابطہ کیا جو ہماری درخواست پر اسلام آباد آنے کے لیے تیّار ہوگئے۔
ترکی، ایران اور تاجکستان کے سفیروں نے تقریب میں شامل ہونے کا وعدہ کیا تھا، ترکی کے سفیر جناب مہمت پاچاجی تشریف لائے اور انھوں نے بڑی جامع اور پر مغز تقریر کی۔ ایران کے سفیر ایرانی صدر کے دورے کی وجہ سے نہ آسکے مگر انھوں نے اپنی نمایندگی کے لیے محترمہ معصومہ خانم کو بھیجا۔ جنھوں نے بڑی شستہ اردو میں بڑی پراثر تقریر کی۔
دونوں سیاستدانوں نے بھی سامعین کو مایوس نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کے اکن اسمبلی وزیرِخارجہ کی تقریر کے دوران پہنچے، ڈار صاحب جلدی جانا چاہتے تھے مگر وہ اپوزیشن کے رکنِِ اسمبلی کے احترام میں رک گئے اور ان کی تقریر کے دوران اسٹیج پر موجود رہے۔
علی محمد صاحب نے بھی اچھی باتیں کیں اور جب انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے حکومت سے سخت اختلافات ہیں مگر جہاں پاکستان کی یا قائداعظم اور علّامہ اقبال کی بات ہوگی وہاں کوئی اختلاف نہیں ہوگا اور ہم سب متحد ہوں گے‘‘ تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔تقریب کے اختتام پر شہر کے معززین اور اکابرین بھی اور صاحبانِ دانش بھی ملے، اساتذہ، خواتین وکلاء، علماء اور طلباء بھی بڑی تعداد میں ملتے رہے، سب اپنے اپنے انداز میں ایک ہی بات کررہے تھے کہ وفاقی دارلحکومت میں مفکّرِ پاکستان کے بارے میں اتنی جاندار اور شاندار تقریب پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ بہت سے خواتین وحضرات نے اقبال کی گائی ہوئی نظموں سے بننے والے ماحول اور تقاریر کے اعلیٰ معیار کے علاوہ اسٹیج سیکریٹری جناب تنویر عباس تابش کی موضوع پر گرفت اور موثر لب ولہجے کو بھی خصوصی طور پر دادوتحسین پیش کی۔
تقریب کے اختتام پر چائے پر بہت سے ناواقف لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ سب لوگوں نے پرزور انداز میں کہا کہ اقبالؒ کے پیغام کو پھیلانے کی آج ازحد ضرورت ہے۔ تمام دانشوروں نے ایسی تقریبات کے مسلسل انعقاد پر زور دیا۔ اس کے فوراً بعد ایلاف کلب اسلام آباد کے صدر سجاد افضل چیمہ صاحب اور شہراقبال سے تعلق رکھنے والے ہمارے مشترکہ دوست صفدر شبیر صاحب نے ایک اور تقریب کی میزبانی کی پیشکش کی چنانچہ اسلام آباد میں 12 مئی کو اسلام آباد کلب میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد ہوا جس میں جناب مشاہد حسین سیّد، سابق سفیر جناب جاوید حفیظ، ڈاکٹر حمیرا شہباز اور راقم نے تقاریر کیں۔
اس میں بھی اسلام آباد کی اشرافیہ، دانشوروں، شاعروں، سول اور ملٹری کے ریٹائرڈ افسران، خواتین اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس تقریب کو مشاہد صاحب نے سامعین اور تقاریر کے معیار کے لحاظ سے وفاقی دارالحکومت کی ایک یادگار تقریب قراردیا۔ دونوں تقاریب کو یادگار بنانے کے لیے علّامہ اقبال کونسل اور ایلاف کلب کے ارکان اور عہدیداران نے بہت محنت کی جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ انشاء اللہ آیندہ ایسی تقریبات لاہور، کراچی اور پھر دوسرے شہروں میں بھی منعقد کی جائیں گی۔
[ad_2]
Source link