[ad_1]
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ ملکوں کی تہذیب، تعمیر و ترقی اور عروج میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ کوئی معاشرہ تعلیم کی اہمیت وافادیت کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ آج مغربی اقوام کی عالم گیر سرگرمیوں کا راز اور مسلسل کامیابیوں کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے تعلیم کے میدان میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ تواتر کے ساتھ آگے اور صرف آگے بڑھنے کو ترجیح دی اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاتے چلے گئے۔
چاند پر قدم رکھنے سے لے کر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے انقلاب تک سائنس کی دنیا میں جو حیران کن ایجادات سامنے آئی ہیں، ان سب کے پیچھے علم کا جادو ہی کار فرما ہے اور اب ابن آدم اپنے علم کی طاقت سے مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
دنیا کے باشعور اور مہذب جمہوری ملکوں میں حکومتوں کی پہلی ترجیح تعلیم ہوتی ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے وہ پورا ماحول ترتیب دیتے ہیں تاکہ ان کے بچے پرسکون ماحول میں علم کے مدارج طے کر سکیں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا مثبت و تعمیری کردار ادا کر سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں تعلیمی تناسب 80 اور سو فی صد کے آس پاس ہے۔ جب کہ ہم آزادی کے بعد سات دہائیوں کا سفر طے کرنے کے بعد بھی تعلیمی میدان میں اپنی خراب کارکردگی کے باعث اس مقام کے قریب بھی نہ پہنچ سکے۔ پاکستان کی کسی جمہوری حکومت نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور اور انتخابی وعدوں میں تعلیمی ترقی کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کیے جو سب نقش برآب ثابت ہوئے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 250 میں لکھا گیا ہے ’’ریاست قانون کے تجویز کردہ طریقہ کار کے تحت 5سے 16 سال کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ کیا برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے جو عوام سے ہمدردی اور ان کے مسائل حل کرنے کے روز و شب دعوے کرتے ہیں آئین کی اس شق پر اخلاص نیت کے ساتھ کماحقہ عمل درآمد کیا؟ افسوس کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
اگر آئین کی مذکورہ شق پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جاتا ہے تو آج پاکستان میں خواندگی کا تناسب 100 فی صد کے لگ بھگ ہوتا جوکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 62 فی صد قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ آزاد ذرایع اور ماہرین تعلیم کے مطابق یہ شرح 50 فی صد سے کم ہے۔ تعلیمی شرح کے حوالے سے دنیا کے 120 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 113 ہے جوکہ جنوبی ایشیا میں پڑوسی ملک افغانستان سے بھی کم ہے جو ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ اور ہمارے لیے باعث شرم ہے۔ اس پہ مستزاد اسکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد میں ہر سال 7لاکھ کا برق رفتار اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
ایسے ماحول میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اسکول سے باہر 2 کروڑ60 لاکھ بچوں کو لازمی اسکول میں داخل کروائیں گے، تعلیم کے شعبے کی خود نگرانی کروں گا۔
وزیر اعظم کا اعلان بجا طور پر خوش کن ہے لیکن ملکی حالات دگرگوں ہیں۔ مسائل کا انبار ہے، وسائل کی کمیابی ہے، بجٹ کے اعداد و شمار دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم اپنی قومی آمدنی کا 2 فی صد سے بھی کم حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔
پاکستان میں اب تک دس کے قریب تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ اس کے باوجود تعلیم کے میدان میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کر پائے۔ سرکاری اسکولوں سے لے کر پرائیویٹ اسکولوں تک زیر تعلیم طلبا کا معیار تعلیم اس قدر پست ہے کہ ماہرین تعلیم کی تجاویز کی روشنی میں نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بارے ارباب اختیار میں کوئی مثبت سوچ نہیں پائی جاتی کہ تعلیمی پستی سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی دے سکے۔
ہم لارڈ میکالے کے ہندوستان کے لیے بنائے گئے نظام تعلیم سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سرکار کو اپنے سرکاری اسکولوں کی کوئی فکر دامن گیر نہیں جہاں طلبا کے لیے نہ بجلی ہے، نہ پانی ہے، نہ بیت الخلا کی سہولت ہے، نہ باقاعدہ عمارتیں ہیں، نہ اساتذہ ہیں اور نہ بیٹھنے کے لیے ڈیسک ہیں۔ گھوسٹ اسکولوں میں قوم کے ٹیکسوں سے کروڑوں روپے کا بجٹ جھونکا جا رہا ہے۔ نقل مافیا اور بااثر افراد نے اپنے پنجے ہر جگہ گاڑھے ہوئے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب عوام مشتعل ہو جائیں تو وہ انتشار نہیں بلکہ اپنے اتحاد کی شکل میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں جس کی تازہ مثال آزاد کشمیر میں جنم لینے والا عوامی احتجاج ہے، حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پاکستان میں بھی احتجاج کا ’’سونامی‘‘ آ سکتا ہے۔ لاوا تو پک رہا ہے، پھٹنے کی دیر ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کے پہلو بہ پہلو معاشی، عدالتی اور سیاسی ایمرجنسی بھی نافذ کی جائے تاکہ ملک میں سیاسی، معاشی، عدالتی اور سماجی و تعلیمی استحکام آئے۔
[ad_2]
Source link