13

نئی پارٹی نہیں، نئی قیادت

[ad_1]

پی ڈی ایم کی حکومت کے وقت سے ہی سنا جا رہا ہے کہ ملک کو نئی پارٹی کی ضرورت ہے جس کے قیام کے لیے (ن) لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق (ن) لیگی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل، سابق پی پی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور ایک بلوچ رہنما سرگرم بھی رہے اور انھوں نے بعض بڑے شہروں میں تقاریب بھی منعقد کیں۔ مختلف رہنماؤں کی ملاقاتیں بھی ہوئیں جس میں دو سال گزرگئے۔ نئے الیکشن بھی ہوگئے جن میں نئی پارٹی بنانے والوں نے حصہ نہیں لیا اور اب ایک مزید نئی پارٹی کے قیام کی خبر سنائی دی گئی ہے مگر آثارکہیں نظر نہیں آ رہے۔

ملک میں قومی سطح کی پارٹیاں تو ایک درجن بھی نہیں مگر الیکشن کمیشن میں ایک سو سے زائد پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں صوبائی پارٹیاں بھی ہیں جو اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں صوبائی و علاقائی سیاست کرتی ہیں جن کے رہنماؤں میں بعض کے نام قومی سطح پر مشہور ہیں جو قومی اسمبلی کے الیکشن جیت لینے کے حامل ہیں باقی درجنوں ایسی پارٹیاں ہیں جن کی کسی بھی صوبائی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں ہے۔

جماعت اسلامی پرانی اور قومی جماعت ہے جس کے پاس صرف سندھ اسمبلی کی دو نشستیں ہیں جو اب قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی نمایندگی سے محروم ہوچکی ہے مگر جماعت اسلامی ملک کی واحد جمہوری پارٹی ہے جس کا اپنا ووٹ بینک ہے اور عوام میں اثر بھی رکھتی ہے اور بڑے بڑے جلسے بھی کر لیتی ہے۔

جہاں بعض خاندانوں کی اجارہ داری نہیں۔ نیچے سے اوپر تک جماعت اسلامی کے رہنما پہنچے ہیں مگر عوام کی اکثریت اس کے پاس نہیں کہ وہ ہر اسمبلی میں منتخب ہو سکے جس کی قیادت قومی تصور ہوتی ہے مگر حالیہ الیکشن میں اس کے امیر تک ہار گئے۔ بعض صوبائی پارٹیوں کے رہنما محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل قومی اسمبلی میں منتخب ہوئے اور دونوں کا تعلق سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان سے ہے اور کوئی صوبائی پارٹی قومی اسمبلی نہ پہنچ سکی۔

تقریباً ایک سال وزیر اعظم بننے کا موقعہ شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف کو ملا تھا مگر شاہد خاقان اب اسمبلی سے باہر ہیں جب کہ یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی قیادت کے سے مخلص رہے تو انھیں پارٹی کے چیئرمین سینیٹ منتخب کرا دیا کیونکہ انھوں نے چار سال وزیر اعظم رہ کر خود کو پی پی قیادت کا ہم پلہ نہیں سمجھا اور نیچے رہنے ہی میں عافیت سمجھی، اسی طرح دس ماہ کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پارٹی کے وفادار رہے اور قومی اسمبلی میں موجود ہیں۔

شریف فیملی، زرداری فیملی، گیلانی خاندان نے توشہ خانہ کو عمران خان کی طرح کاروبار نہیں بنایا تھا تحائف خرید کر مہنگے داموں فروخت کرکے کروڑوں روپے نہیں کمائے تھے مگر ایمانداری کی شہرت کے حامل اور خود کو عدالتی صادق و امین سمجھ لینے والے عمران خان نے وزیر اعظم بن کر توشہ خانہ سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور ان کی بیگم نے قیمتی تحائف حاصل کرنے کا نیا ریکارڈ بنایا تھا۔

عمران خان نے بھی ملکی خزانہ ذاتی مفاد کے لیے خوب استعمال کیا کسی نے بھی اپنی جیب سے قومی خزانے میں ایک روپیہ بھی نہیں ڈالا اور حکمرانوں اور انھی کے باعث اقتدار میں رہنے والوں نے ملک و قوم کے لیے کوئی ذاتی قربانی نہیں دی۔اقتدار میں رہنے والے امیر سے امیر اور عوام غریب سے غریب تر ہوگئے اب ایک بھی کوئی صاحب اقتدار نہیں جس کی قیادت پر عوام اعتماد کر سکیں۔ آزمائے گئے پرانے چہرے ملک کو نئی قیادت دینے کے لائق ہی نہیں رہے ہیں۔

ان میں ایک بھی بھارتی وزرائے اعلیٰ کی طرح کوئی اچھی مثال پیش کرنے کے قابل نہیں۔ کوئی ایک ایسا نہیں جو بھارتی رہنماؤں کی طرح کرائے کے گھروں میں رہا اور مال نہ بنایا ہو۔ ان میں تو کوئی دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال جیسا بھی نہیں تو کوئی قائد اعظم، شہید ملت لیاقت علی خان اور ان کے ساتھیوں جیسا بھی خود کو سچا ثابت نہ کر سکا تو ملک کو وہ نئی قیادت کیا دے گا۔ یہاں سیاسی پارٹیاں قائدین کی ذاتی جاگیریں ہیں سیاسی پارٹیاں درجنوں ہیں مگر نئی پارٹی بنانے والا مخلص قائد کوئی نہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں