13

سی ایس ایس امتحانات کے نتائج

[ad_1]

ریاستی نظام چلانے والی بیوروکریسی کا انتخاب کرنے والے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے گزشتہ سال ہونے والے سی ایس ایس کے نتائج نے ایک طرف تو ملک کے تعلیمی نظام کی پسماندگی کا اعلان کیا اور دوسری طرف ان نتائج نے حکومت سندھ کے تعلیم کو اہمیت دینے کے دعوے کی قلعی کھول دی۔

سینٹرل سپیریئر سروس آف پاکستان کے نوٹیفکیشن کے مطابق کامیاب امیدواروں کی شرح 2.96 فیصد رہی۔ نتائج کے مطابق پورے ملک سے 13008 امیدواروں نے امتحانات میں حصہ لیا جن میں سے صرف 401 کامیاب ہوسکے۔ منتخب امیدواروں میں مرد اور عورتیں شامل ہیں۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ صرف 401 امیدوار تحریری امتحان میں مطلوبہ نمبر حاصل کرسکے، زبانی امتحان اور میڈیکل ٹیسٹ کے نتائج کے بعد 386 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔

ان میں 234 مرد اور 152 خواتین شامل تھیں۔ ان نتائج کے مزید مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے 18 امیدواروں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ میرٹ لسٹ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی 9 ویں پوزیشن ہے۔ آزاد کشمیر کے امیدوار 19ویں پوزیشن حاصل کرسکے۔

کے پی سے تعلق رکھنے والے امیدوار 26ویں پوزیشن جب کہ سندھ کے دیہی علاقوں کے امیدواروں کی پوزیشن 60 ویں اور سندھ کے شہری علاقوں کے امیدواروں کی پوزیشن 116ویں تھی۔ سندھ کے بعد گلگت بلتستان کے امیدواروں کی 130ویں پوزیشن تھی۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی ان نتائج پر یہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ پاکستان تعلیمی میدان میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے یہ نتائج پورے ملک کے تعلیمی معیارکی ناکامی کا اظہار ہیں۔ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاق اور صوبے تعلیمی میدان میں اربوں روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں مگر اس کے باوجود طلبہ کا معیار بلند نہیں ہو رہا ہے۔ سی ایس ایس کے امتحانات میں عام طالب علم شریک نہیں ہوتا، بلکہ وہ طالب علم شریک ہوتے ہیں جو اعلیٰ معیار کے پرائیوٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

یقیناً کچھ امیدوار ضرور ایسے ہوتے ہیں جو سرکاری کالجوں اور سرکاری یونیورسٹیوں کے ڈگری یافتہ ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہوتے ہیں جن کی میٹرک یا او لیول سے لے کر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم کے دوران امتیازی پوزیشن ہوتی ہے۔ اس تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے جو طالب علم اس طرح کے امتحانات میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے کچھ تو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکا چلے جاتے ہیں اور کچھ طالب علم اور ان کے والدین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کا تعلیمی معیار اتنا بلند نہیں ہے کہ اتنی پرکشش ملازمت کے لیے جستجو کریں ۔

ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کراچی اور حیدرآباد میں 80ء کی دہائی سے سی ایس ایس کے امتحانات میں عدم شرکت کا رجحان تقویت پاگیا۔ شہری علاقوں کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ محدود کوٹہ کی بناء پر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے اور ہر سال بہت سے ذہین طالب علم اس بنیاد پر امتحان نہیں دیتے۔ ان میں سے بیشتر یورپ اور امریکا چلے جاتے ہیں جہاں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کامیاب پروفیشنل زندگی گزارتے ہیں، مگر ایک طرف تو یہ نتائج پورے ملک کی تعلیمی پسماندگی کی نشاندہی کرتے ہیں تو دوسری طرف ان نتائج سے ایک دفعہ پھر سندھ کے تعلیمی نظام کی زبوں حالی آشکار ہوتی ہے۔

نتائج پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نا صرف سندھ میں دیہی اور شہری کوٹہ ہے مگر اس کوٹہ کے باوجود مجموعی طور پر سندھ کے امیدواروں کی کارکردگی مایوس کن ہے رہی اور شہری علاقوں کے امیدواروں کی کارکردگی اور زیادہ مایوس کن رہی۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ اندرونِ سندھ طلبہ میں یہ سی ایس ایس کے امتحانات میں شرکت کا رجحان خاصا بڑھا ہے جن میں طالبات بھی شامل ہیں، جو طالب علم اچھے مالیاتی حیثیت رکھنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ امتحان کی تیاری کے لیے شہروں کی مخصوص اکیڈمیوں میں داخلے لیتے ہیں۔

سکھر، لاڑکانہ اور حیدرآباد کی پبلک لائبریریاں امتحان دینے والے طلبہ سے بھری ہوتی ہے۔ ان نتائج سے یہ بالکل واضح ہوگیا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کراچی اور حیدرآباد جہاں سب سے زیادہ تعلیمی سہولتیں موجود ہیں وہاں تعلیمی معیار انتہائی گر گیا ہے۔ تعلیمی ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں نقل کرانے کے کاروبار سے سارا نظام خراب ہوا۔ نقل کرانے میں ان جماعتوں کے کارکن زیادہ متحرک ہوتے ہیں جو شہری علاقوں سے منتخب ہوتی ہیں۔

گزشتہ روز کراچی میں میٹرک کے ہونے والے امتحانات میں نقل کی ذمے داری ایک سابق ایم پی اے پر عائد کی گئی۔ ایم کیو ایم نے فوری طور پر اس سابق ایم پی اے کو اپنی جماعت سے نکال دیا ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس ایم پی اے کو ایم کیو ایم نے بحال کردیا ہے۔

کالجوں میں باقاعدہ کلاسیں نہ ہونے، طلبہ کو کوچنگ سینٹر میں صرف مخصوص مواد کے ذریعے اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے رجحان، غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کے مضبوط ہونے کی بناء پر تعلیمی معیار گرگیا ہے، مگر یہ معاملہ صرف حکومت کا نہیں رہا بلکہ کراچی اور حیدرآباد کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والے تمام سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال پر غور کرنا چاہیے۔ سندھ کا موجودہ مالیاتی سال تعلیم کا کل بجٹ 2247581 بلین روپے تھا۔

بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور غیر سرکاری تنظیموں کا تعلیم کے لیے بجٹ علیحدہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں تعلیم کا بجٹ کم نہیں ہے، اگرچہ بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے مگر تمام تر اعداد و شمارکے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں تعلیم کا بجٹ شفاف طریقوں کے مطابق خرچ نہیں ہورہا۔

این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی ہر سال اپنے پہلے سمسٹر میں داخلہ کے لیے انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کرتی ہے۔ اس سال کے انٹری ٹیسٹ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرسال اول میں 70 سے 80 فیصد نمبر لانے والے طلبہ کی اکثریت ناکام ہوگئی۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں آغا خان بورڈ کے طلبہ کے نتائج بہتر رہے۔

اس بورڈ کے نتائج کا تناسب 71سے 84 فیصد رہا جب کہ کراچی بورڈ کے نتائج کا تناسب 67.64 فیصد رہا مگر لاڑکانہ بورڈ کے نتائج کا تناسب 21.8 فیصد، نواب شاہ بورڈ کا تناسب 26.8 فیصد، میر پور خاص بورڈ کا 26.69 فیصد، سکھر بورڈ کا 31.61 فیصد اور سکھر بورڈ کا 31.61 فیصد رہا۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے انٹرمیڈیٹ کے نتائج اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں خرابی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پھیل گئی ہے۔

متعلقہ رپورٹر نے لکھا ہے کہ سندھ میں بیشتر تعلیمی بورڈ کا نظام ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جارہا ہے اور ایسی ہی صورتحال یونیورسٹیوں کی ہے۔ سی ایس ایس کے ان نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پورے ملک میں تعلیمی نظام پسماندگی کا شکار ہے اور تمام صوبوں کے امیدواروں کی اکثریت کم سے کم نمبر نہیں حاصل کرسکی۔ یوں اس سال بھی بہت سی اسامیاں خالی رہ جائیں گی۔

یہ صورتحال اس بناء پر بھی خطرناک ہے کہ ایک طرف تو یونیورسٹیوں کے ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں اور چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف تعلیمی قابلیت نہ ہونے کی بناء پر وہ ان اسامیوں پر اپنے آپ کو منتخب نہیں کراسکتے۔ اس مجموعی صورتحال میں ایک اور حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ تعلیمی نظام کی خرابی اسکول کی سطح سے یونیورسٹی کی سطح تک ہے۔

ہر صوبے کو صرف ان بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو اسکول نہیں جا پاتے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسکول کا معیار بھی بلند کرنا ہوگا، یوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا معیار بھی بلند ہوگا۔ فزکس کے ماہر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی برسوں سے اس بات کا ماتم کررہے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا معیار دنیا سے بہت کم ہے۔ انھوں نے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ صرف ایران کا تعلیمی معیار اسرائیل کے تعلیمی معیار کے برابر ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں ان نتائج پر بحث کے لیے کچھ دن مقرر کریں اور ماہرین کی کمیٹیاں قائم کی جائیں جو حقیقی اسباب تلاش کریں۔ معیاری تعلیم کے بغیر غربت ختم نہیں ہوسکتی۔ وزیر اعظم نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے مگر اس ایمرجنسی میں صرف طلبہ کے داخلے میں اضافہ پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے معاملے کو بھی اہم سمجھنا چاہیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں