[ad_1]
میرے خیال میں اس دنیا میں سیاسی شعور اور اپنی مٹی سے محبت کرنے والا ہر شخص شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ نور اللہ مرقدہ کی سیاسی جدوجہد سے واقف ہوگا مگر کیوں کہ میرے داد جان شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا عبد الحکیم الداجوی اور چچا داد شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا محمد صدیق صاحبؒ دونوں شیخ الہندؒ کے شاگرد تھے اس لیے ہم اپنے باباجانؒ سے اپنے والد محترم اور چچا کے استاد و شیخ، شیخ الہندؒ کے علمی اور سیاسی شان کے بارے میں سنتے رہے۔ شیخ الہند کے بارے باباجانؒ سے جو سنا اس کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کرونگا۔
حضرت شیخ الہند کی حیات، عزیمت کا انتہائی روشن باب، تحریک آزادی اور جہاد حریت کے میدان میں اْن کی جدوجہد اور قائدانہ کردار اپنی مثال آپ تھی، برصغیر کو انگریزوں کے استبداد سے نجات دلانے اور اْمت کے وقارکی بحالی کے لیے نہ صرف فکرمند بلکہ شب و روز سرگرم عمل رہتے تھے۔
انھوں نے اپنے استاد حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی ایماء اور حکم پر اپنے رفقاء کے ساتھ 1878 میں ایک تنظیم ’’انجمن ثمرۃ الترتیب‘‘ کے نام سے بنائی، یہ بظاہر دارالعلوم دیوبند کے ابنائے قدیم کی ایک اجتماعی تنظیم تھی مگر درحقیقت آزادی وطن اور جہاد حریت کا مشن آگے بڑھانے کے مقصد سے وجود میں آئی تھی، اس تحریک کی سرگرمیاں پورے برصغیر میں تھی مگر ان کا فوکس قبائلی علاقوں پر تھا، شیخ الہندؒ نے اپنے شاگرد رشید مولانا سندھیؒ کو سندھ کے اطراف میں آزادی ہند کے لیے مخفی اور منظم کوششوں پر مامور کر رکھا تھا۔
1909 میں یہ تحریک ’’جمعیت الانصار‘‘ کے نئے نام سے سامنے آئی، نظامت کی ذمے داری مولانا سندھیؒ کے کندھوں پرڈالی گئی، اس تحریک سے عوام کو متعارف کرانے کے لیے دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام 1911میں ایک عظیم الشان اجلاس طلباء کرام کے دستاربندی کے موقع پر منعقد کیا گیا۔
جس میں 30 ہزار سے زیادہ افراد شریک ہوئے اور یہ تحریک سرگرم ہو گئی، آگے چل کر یہی تحریک ’’نظارۃ المعارف القرانیہ‘‘ کے نئے نام سے سامنے آئی۔ 1914میں جنگ آزادی شروع ہوئی جس میں دولت عثمانیہ کو زبردستی گھسیٹا گیا جب اس کے وجود کو خطرات لاحق ہونے لگے، تو حضرت شیخ الہند نے تحریک جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کر دیا اور یہی تحریک اپنے بام عروج پر پہنچ کر ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کہلائی۔ خلاصہ یہ کہ حضرت شیخ الہند کی تمام عمر تحریکی جدوجہد میں گزری۔
اب آتے ہیں پاکستانی سیاست اور موجودہ حالات میں مولانا فضل الرحمٰن کی جدوجہد وسیاست کی طرف، ان کے چاہنے والوں کے تو وہ سیاسی رہبر اور علاوہ مرشد و مربی بھی ہیں مگر مولانا کے ناقدین یہ طعنہ دیتے نہیں تھکتے تھے کہ ’’مولانا اور ان کی جماعت پاور پالیٹکس کے عادی ہیں، انھیں اپوزیشن میں بیٹھنا سوٹ ہی نہیں کرتا۔ ‘‘آج مینڈیٹ چوری کے خلاف مولانا کی جدوجہد کا یہ روپ دیکھ کر کل کے ناقدین ناصرف ورطہ حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں بلکہ مولانا کے بارے میں اپنی پہلی رائے سے بھی رجوع کرکے یہ بات تسلم کر رہے ہیں کہ مزاحمتی تحریک کی کامیابی مولانا کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی بات کل کوئی کرتا تھا اور آج کوئی اور مان گیا۔ وہ اینکرپرسن منصور علی خان کا ایک مشہور اور وائرل جملہ یہاں دھراونگا گا کہ:
حالات بدل گئے، جذبات بدل گئے، خیالات بدل گئے
شیخ الہندؒ کا جو خاکہ میرے ذہن میں ہے، آج مولانا اسی خاکے میں رنگ بھرتے نظر آرہے ہیں اور مجھے ان کے انداز میں ان کے سیاسی جد امجد کی جھلک نظر آرہی ہے۔ اس لیے میں نے آج ان کے لیے شیخ الہند ثانی کے لقب کا انتخاب کرکے کالم کا عنوان بنایا۔ اگر تعصب کے عینک اتار کر دیکھا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ شیخ الہند کے سیاسی وارث و جانشین مولانا اسی انداز، اسی اسلوب اور انھی خطوط پر اپنی جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں جو صرف حضرت شیخ الہند کا طرہ امتیاز تھا۔
مولانا نے اپنے جن حلیفوں کے ساتھ مل کر 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تھی۔ آج الیکشن 2024 میں مینڈیٹ چوری ، ماضی کے حلیفوں اور ان کے ہینڈلرز کے خلاف میدان عمل میں ہیں، مولانا نے ہینڈلرز کو زیادہ شدت سے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
مولانا نے انتخابی نتائج مسترد کرکے ایوان کے بجائے میدان کا انتخاب کیا اور پشین کی تاریخی ’’عوامی اسمبلی‘‘سے اپنی مزاحمتی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ عوامی اسمبلیوں کا یہ سلسلہ اب حقیقی عوامی اسمبلیوں کے قیام تک جاری رہے گا، انھوں نے پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود 2 مئی کوکراچی میں فقید المثال عوامی اسمبلی لگائی اور پھر 9 مئی کو پشاور میں ’’عوامی اسمبلی‘‘ لگا کر حکمرانوں اور ان کے ہینڈلرز کو پریشان کر دیا۔ سیاسی مبصرین اور سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان مولانا کی تحریک پر نگاہ جمائے بیٹھے ہیں۔
مولانا الاعلان کہہ رہے ہیں کہ مینڈیٹ چوری کے ذمے داروں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ہر گزرتے دن مولانا کے لب و لہجہ میں تلخی اور موقف میں شدت آرہی ہے۔ تینوں عوامی اسمبلیوں میں مولانا نے جو کہا اسے اگر چہ مین اسٹریم میڈیا پر دیکھایا گیا اورنہ ہی قومی اخبارات میں مناسب جگہ دی گئی مگر سوشل میڈیا پر کروڑوں پاکستانی ان کو سن چکے ہیں۔ میری مولانا سے اس دوران جو باتیں ہوئی ان کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
مولانا دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں کہ ’’ 2024میں انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا اور ہیرا پھیری کر کے ہمیں اور ہمارے جیسے دوسرے‘‘عام لوگوں’’ کو ہرایا گیا اور تابعدار ‘‘خاص الخاص لوگوں’’کو جتوایا گیا مگر اب یہ نہیں چلے گا اس کے مکمل خاتمے تک یہ عوامی جدوجہد جاری رہے گی، جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ مولانا اور ان کی پارٹی احتجاج کے قابل نہیں رہی تو ان کولگ پتہ جائے گا‘‘۔ اصولًا تو مولانا کے لب و لہجہ کی سختی سے اہل اختیار سمجھ گئے ہوں گے کہ اس بار عارضی علاج سے بات نہیں بنے گی نظام کی باقاعدہ سرجری کرنا ہوگی۔
مولانا کہتے ہیں بس بہت ہو چکا اس بار وہ اور ان کی جماعت عوامی مینڈیٹ کی چوری کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے مطابق منصفانہ عام انتخابات دوبارہ کرانے ہوں گے ورنہ کسی کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ چاہے سالوں سڑکوں پر رہنا پڑے یا جیلوں کو بھرنا پڑے، مگر یہ تحریک انصاف والی جیل بھرو تحریک نہیں ہوگی جس دن جمعیت نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تو لاکھوں کارکنان جیلوں کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے اور ان کو لگ پتہ جائے گا۔ ہمیں نہ اسمبلیوں کا سودا منظور ہے نہ ایوان صدر کا‘‘۔ مولانا کہتے ہیں کہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف، پاکستان، افعانستان تنازعہ ختم کرنے اور امت مسلمہ کے مفادات پر مبنی ہمارے موقف کو جرائم گردانا جا رہا ہے۔ اگر یہ جرم ہے تویہ جرم ہم بار بار کرینگے چاہے یہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو برا لگے یا ان کے غلاموں کو، ہمیں کوئی پروا نہیں۔
بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ جمعیت کو اس خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ مانتے ہیں۔ اس لیے ہر بار جمعیت کا رستہ روکا جاتا ہے۔ پوری دنیا پر تینوں عوامی اسمبلیوں میں عوام کی جم غفیر نے ہمارے اصلی مینڈیٹ کو عیاں کیا انشاء اللہ سب کو اندازہ بھی ہو جائے گا۔ یہ ان کو ماننا پڑے گا کہ ہم ہارے نہیں ہمیں ہرایا گیا۔
اسٹبلشمنٹ کا موقف ہے کہ 9 مئی کو ریاست پر حملہ ہوا اور یہی موقف سوائے تحریک انصاف کے پوری قوم کا ہے۔ اگر دھاندلی نہیں ہوئی تو قوم نے کیسے 9 مئی کے ذمے داران کو پختونخوا میں دو تہائی اکثریت دی، پورے ملک سے ان کو کروڑوں ووٹ ملے؟ اگر الیکشن کمیشن کا موقف یہی ہے کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو پھرہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک کروڑ سے زائد ووٹرز نے نو مئی کا ریاستی بیانیہ مسترد کردیا ہے۔
شیخ الہند ثانی کے لب و لہجہ اور اسٹبلشمنٹ کی لاتعلقی کو دیکھ کر میں حالات کو بند گلی کی جانب بڑھتے دیکھ رہا ہوں۔ ہوش کے ناخن لے کر پاکستان کی بقا، سالمیت اور استحکام کے لیے کھلے دل سے اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور سب کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ نہ رہے گا تخت اورنہ بجے گی بانسری۔
[ad_2]
Source link