[ad_1]
وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ پٹرول 15روپے 39 پیسے اور ڈیزل 7 روپے 88 پیسے سستا کردیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمتوں کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے نرخ کم کیے گئے ہیں۔
بلاشبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے جہاں عام صارف کو براہ راست ریلیف ملتا ہے وہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے معاشی استحکام بھی آتا ہے، لیکن حالیہ کمی کی شرح ایک مرتبہ پھر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی شرح کے مقابلے میں کم ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے واضح اثرات کی منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ اضافی ٹیکس اور لیویز ہیں، جس کے باعث تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود تیل سستا نہیں ہوتا۔
ماہرین کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمت کا 40 فیصد تیل کی خریداری اور 40 فیصد ہی حکومت کا منافع یعنی پٹرولیم لیویز و ٹیکس میں جب کہ باقی 20 فیصد پٹرولیم سے وابستہ افراد کا حصہ ہے اس طرح حکومت کو بیٹھے بٹھائے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کی مساوی رقم ملتی ہے۔
حکومت کوئی بھی ہو، زراعت پر توجہ کسی کی نہیں ہے۔ آج دنیا اپنی زراعت سے جتنی پیداوار لے رہی ہے ہم اس سے بہت پیچھے ہیں۔ زرعی مداخل مہنگے، زرخیز اراضی پر رہائشی کالونیاں بننے سے زراعت تباہ ہورہی ہے، ملک میں مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعتی و زرعی پیداواری عمل بہت زیادہ مہنگا ہوچکا ہے جو کہ مہنگائی کا بنیادی سبب ہے جس کے باعث ہم بیرون ملک عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے باعث بجلی کی قیمتوں میں بھی حقیقت پسندانہ کمی کی جائے۔ بجلی کے بلوں میں ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ اس کا صنعت کاروں کو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔زرعی مداخل میں اٖضافے نے کسان کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے، ہماری انڈسٹری کو 85 فیصد را میٹریل زراعت سے ملتا ہے۔ دنیا کو بھی ہم را میٹریل ہی فروخت کر رہے ہیں، ویلیو ایڈیشن کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی۔
ہمارا نوے فیصد کاشت کار پانچ ایکڑ یا اس سے کم زمین والا ہے۔ ایسی زرعی مشینری دستیاب نہیں جو چھوٹا کاشتکار باآسانی خرید سکے اور نہ ہی کبھی ایسی کوئی پالیسی بنائی گئی ہے جو چھوٹے کاشتکاروں کو سپورٹ کرتی ہو۔ زرعی قرضوں کی اسکیم ہے تو اس پر شرح سود 28 فیصد ہے۔ بجلی مہنگی ہونے سے پانی بھی بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ کاشتکار سے گنا سستا خریدنے کے باوجود چینی کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ کسانوں کو گندم کی جائز قیمت نہیں دی جارہی۔ انھی پالیسیوں کی وجہ سے گندم امپورٹ کرنی پڑتی ہے، گزرے تین سال سے یوریا کی بلیک مارکیٹنگ بند نہیں ہو رہی۔
چھوٹے کاشتکار کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ کاشت کے اخراجات بھی اٹھائے اور اچھا ریٹ ملنے تک اپنی پیداوار کو ذخیرہ بھی کیے رکھے۔ اگلی فصل کی بجائی کا انحصار پچھلی فصل کی فروخت پر ہوتا ہے۔ کاشتکار کو نہ صرف فوری طور پر کھاد، اسپرے اور بیج کی مد میں لیا گیا قرض اتارنا ہوتا ہے بلکہ اگلی فصل کے لیے بیج اور ہل کا انتظام بھی کرنا ہوتا ہے۔، اگر وہ اچھی قیمت کے لیے محض چند دن بھی انتظار کرے تو اگلی فصل کی کاشت میں دیر ہو سکتی ہے جس کا خمیازہ اسے کم پیداوار کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔
ہر سال کسان سرکاری نرخوں سے بھی کم پر فصل فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے سر سے زرعی مداخل کی مد میں لیا قرض فوری چکا سکیں۔ یہی گندم تین ماہ کے بعد منڈی میں دگنی قیمت پر فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔ کھاد، بجلی، بیج ہر چیز مہنگی ہوگئی۔ ڈیزل کی حالیہ قیمت میں کمی سے زرعی شعبے پر خاص مثبت اثرات نہیں پڑیں گے، ڈیزل کے ساتھ ساتھ دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں بھی کمی کی جائے خاص طور پر کھادوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی لاکر زرعی شعبہ کو ریلیف دیا جا سکتا ہے زرعی اجناس کی کاشت سے قبل امدادی قیمت مقرر کی جائے اور اس قیمت پر فروخت یقینی بنائی جائے۔
حکومت نے ایجنڈے کے مطابق ڈیزل کی قیمت کم نہیں کی لیکن پھر بھی یہ اچھا اقدام ہے زرعی شعبہ کو ریلیف دینے کے لیے مزید قیمتیں کم کی جائیں، حکومت اپنے اعلانات پر عملدرآمد یقینی بنائیں ڈیزل کی قیمت کم ہونے پر ٹرانسپورٹرز نے کرائے کم نہیں کیے۔
حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچانا چاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم کروائے تاکہ عملی طور پر عام آدمی کے روزمرہ اخراجات میں کمی واقع ہو۔ اس وقت پاکستانی معیشت پہلے ہی کافی مشکلات سے دوچار ہے، زیادہ شرح سود کا بڑھنا اور دیگر ایسے دوسرے عوامل ہیں جنھوں نے مل کر عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا ڈالا ہے۔ اس معمولی کمی کو عوام کے لیے تھوڑا سا ریلیف بھی کہا جا سکتا ہے۔
حکومت کو گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات پر عائد سرکاری ٹیکسز کو کم سے کم کرے تاکہ حقیقی معنوں میں تبدیلی آسکے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی سے عوام کو خاصی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باعث ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو یہ ریلیف کتنے عرصے تک ملتا ہے۔ عالمی منڈی میں اگر تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئیں تو یہ ریلیف کم ہونا شروع ہوجائے گا۔
ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے توانائی کی قیمتوں میں توازن اور تسلسل انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کے لیے توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل جلد نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ملکوں میں تیل کی قیمتیں سالانہ میزانیے میں طے کی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک برس تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکساں رہتی ہیں۔ اس طریقے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں کو متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے، یوں ملکی معیشت یکساں رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تو مارکیٹ میکنزم کامیاب ہے لیکن پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک کے لیے یہ طریقہ کار زیادہ کامیاب نہیں ہے۔ ایک خبر کے مطابق مہنگائی بڑھ جانے کو ان کی نااہلی تصور کیا گیا ہے۔ بہتر عمل یہ تھا کہ جب حکومت پٹرولیم مصنوعات سستی کرنے جا رہی تھی، تو ایک مربوط پالیسی کے تحت ایسا کیا جاتا، خود حکومت ماہرین کے تعاون سے باقاعدہ ایک پالیسی مرتب کرتی، جو مارکیٹ کے مکمل جائزے اور تجزیے کی بناء پر ہوتی اور ایوان ہائے صنعت و تجارت سے بھی تعاون مانگا جاتا۔
اس سلسلے میں اشیاء خوردنی اور ضرورت بنانے والی صنعت کے کرتا دھرتا حضرات سے میٹنگز کی جاتیں اور ان سے نرخ کم کروائے جاتے، اسی طرح تھوک مارکیٹ والوں سے بات کی جاتی تو نتائج بہتر ہوتے کہ اوپر سے جب کمی ہوگی تو نیچے عوام کو ریلیف ملے گا۔
حکومت اگر مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کو اگر کوئی ریلیف دینا چاہتی ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنی کمی کر دی جائے کہ عام انسان کی زندگی آسان ہوجائے کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافے کے باعث غریب اور متوسط لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور مہنگائی کا سیلاب جو ملک میں ڈیرے ڈال چکا ہے اس کی شدت میں مزید تیزی آگئی ہے اس وقت وطن عزیز میں مہنگائی ایک بار پھر اپنے عروج پر دیکھنے میں آرہی ہے، اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں کچھ حد تک جو کمی ہوئی تھی تاجر کمیونٹی خاص طور پر مارکیٹ میں موجود مافیا جو روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں اتار چڑھائو اپنی مرضی سے کرتا ہے نے روز مرہ کے استعمال کی چیزوں اور دیگر اشیا ء خورونوش کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کردیا ہے۔
بلاشبہ مہنگائی کا یہ عفریت ملک میں غربت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ڈالر کی اونچی اڑان کو کسی حد تک قابو میں کیا گیا تھا،لیکن جن اشیاء کی قیمتیں ڈالر کی قدر میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے باعث بڑھ گئی تھیں لیکن ڈالر کی قیمت کم ہونے اور پاکستانی روپے میں کسی حد تک استحکام کا ان اشیاء کی قیمتوں پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا۔ اخباری صنعت میں کاغذ اور پلیٹس کی قیمتوں میں جو ہوشرباء اضافہ ہوا تھا وہ آج بھی بر قرار ہے اسی طرح بہت سی اشیا کی قیمتوں میں کوئی قابل ذکر کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
جب تک ضلعی حکومتیں مہنگائی مافیا کو کنٹرول کرنے کے لیے متحرک نہیں ہونگی، مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے، تاکہ ایک طرف معیشت بحران سے نکل سکے اور دوسری طرف عوام کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوسکے۔ بلا شبہ اس وقت عوام کی قوت خرید کافی حد تک کم ہوچکی ہے، کاروبار میں کافی حد تک مندی کا رحجان دیکھنے میں آرہا ہے۔
کاروباری سرگرمیاں محدود ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقعے انتہائی کم ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال اور معاشی بحران کو ختم کرنے میں نگران حکومت اپنا کردار ادا کرے اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ عالمی مارکیٹس میں پیٹرولیم مصنوعات کی کمی کا فائدہ ملک کی عوام کو بھی دیا جائے تاکہ عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔
[ad_2]
Source link