13

ڈپریشن زدہ قوم – ایکسپریس اردو

[ad_1]

دو لفظ کبھی میری سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ ایک ’’جنریشن گیپ‘‘ جس کا کچھ عرصہ قبل بڑا شور تھا۔ پڑھے لکھے لوگ اس پر زیادہ بات کرتے تھے، لیکن مجھے کبھی اس لفظ کا ادراک نہیں ہوا، کیونکہ ہمارے گھر میں والدین اپنے بچوں سے اور ہم سب بہن بھائی اپنے تمام مسائل والدین اور دادی سے شیئر کرتے تھے۔

بھائیوں نے بھی اپنی اولاد کے ساتھ وہی رویہ اپنایا۔ میرا اور میرے شوہر کا بھی رویہ اپنے بیٹے سے دوستانہ رہا، آج تک وہ ہر بات مجھ سے شیئر کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں کبھی جنریشن گیپ سے واسطہ نہیں پڑا۔ دوسرا لفظ ہے ’’ ڈپریشن‘‘۔ میں جب بھی اس لفظ کو سنتی، عجیب سا لگتا ، لیکن جب میں خود ڈپریشن کا شکار ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ڈپریشن تو باقاعدہ ایک بیماری ہے جس کا سائیکاٹرسٹ اور ماہر نفسیات علاج کرتے ہیں۔

ایلوپیتھک اور ہومیو پیتھک دونوں میں اس کا علاج موجود ہے، لیکن سب سے زیادہ ضروری اس میں کاؤنسلنگ ہے۔ ماہر نفسیات کاؤنسلنگ ہی کرتے ہیں، لیکن انسان خود بھی اپنی کاؤنسلنگ کرسکتا ہے۔

یوں دیکھیے تو ہر تیسرا آدمی ڈپریشن کا شکار ہے۔ پہلے یہ بیماری یورپ اور امریکا میں زیادہ ہوتی تھی، بڑی عمر کے لوگ اس کا زیادہ شکار ہوتے تھے کہ وہاں اپنے والدین کو یا دادا، دادی کو دینے کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا، بوڑھے ماں باپ کو اولڈ پیپلز ہوم میں داخل کرا دیتے تھے، وہ اپنوں سے دور ہو کر تنہائی کا شکار ہو جاتے تھے، لیکن ہمارے ہاں صورت حال بہت ابتر ہے۔

شہروں کے رہنے والے ڈپریشن کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ پاکستان میں تو سبھی ڈپریشن کا شکار ہیں اور کیوں نہ ہوں ملکی حالات اتنے خراب ہیں کہ ایک رکشہ والا، چائے بیچنے والا، سبزی فروش اور پڑھے لکھے افراد سبھی شامل ہیں، طاقتور ہاتھ پچھتر سال سے ’’کٹھ پتلیاں‘‘ نچا رہے ہیں، چند جانی پہچانی ’’کٹھ پتلیاں‘‘ اپنے کام میں اتنی ماہر ہوگئی ہیں کہ اب طاقتور ہاتھوں کی جنبش تک کو وہ پہچانتی ہیں، عوام ہر بات سے باخبر ہیں، لیکن وہ ڈپریشن میں دن بہ دن ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔

مہنگائی کا آسیب پوری طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، اس کا ادراک کٹھ پتلیوں کو بالکل نہیں کیونکہ کٹھ پتلیاں ہمیشہ اپنے نچانے والے مالک کی وفادار ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں،کمیٹیاں بن رہی ہیں جو مہنگائی کم کریں گی، سرکاری نرخ نامے دیے جا رہے ہیں، لیکن گراں فروش ان سرکاری نرخ ناموں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، ہر شخص اپنی چیزکی منہ مانگی قیمت وصول کر رہا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں، رمضان کے مہینے میں سنا ہے کہ شیطان کو بند کردیا جاتا ہے، اگر یہ سچ ہے تو یہ گراں فروش کون ہیں؟

جو لوگ کینیڈا میں رہتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ رمضان شروع ہوتے ہی تمام ڈیپارٹمینٹل اسٹورز پہ رمضان مبارک کے بینرز لگ جاتے ہیں، تمام اشیائے خور و نوش خاص کر ان اشیا کی جن کے بغیر رمضان کا مزہ نہیں ان کی قیمتیں آدھی کر دی جاتی ہیں جیسے بیسن، تیل، کھجوریں، سموسے، فروزن آئٹم، شربت، جوس غرض یہ کہ ہر شے پچاس فیصد تک کم کر دی جاتی ہے اور آخری عشرے میں قیمتیں پچھتر فی صد تک گھٹ جاتی ہیں، یہی حال کرسمس پر ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دونوں مواقع پر کوئی بھی شخص خریداری کر سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کرسمس اور رمضان کے موقع پر خاص کر انڈین اور پاکستانی زیادہ خریداری کرتے ہیں۔ پھر ہولی اور دیوالی پر بھی یہی منظرنامہ ہوتا ہے، یہ سب سن کر انسان ڈپریشن کا شکار نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔

ڈپریشن باقاعدہ ایک بیماری ہے جس کا نوٹس لینا چاہیے لیکن لوگ اسے بیماری نہیں سمجھتے۔ وجہ وہی تعلیم اور آگہی کے شعور کا نہ ہونا ہے، انسان ڈپریشن میں شدید احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے، ہر وقت اداس اور رنجیدہ رہنا، دوسرے کامیاب لوگوں سے اپنا موازنہ کرنا، بھوک کا نہ لگنا، یہ سب ڈپریشن کی علامات ہیں، لیکن ہماری قوم اس سے نجات کیسے پائے کہ ڈپریشن کا علاج بہت مہنگا ہے۔

شوگر، بلڈ پریشر کی طرح ڈپریشن کی دوائیں بھی بہت مہنگی ہیں، لیکن اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو معاملہ بگڑ سکتا ہے، بہت سے لوگ اس بیماری میں اس حد تک مبتلا ہو جاتے ہیں کہ خودکشی کر لیتے ہیں، آئے دن جو خودکشی کرنے کے واقعات ہوتے ہیں، پتا لگائیے تو معلوم ہوگا کہ سب کے سب مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے اتنے زیادہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ خاندان سمیت خودکشی کر لیتے ہیں۔

اخبار کی سرخی تھی کہ ’’19 رکنی وفاقی کابینہ کا مہنگائی روکنا اولین ترجیح‘‘ اس سرخی کو دیکھ کر ہنسی آئی، لیکن عوام سمجھ گئے کہ اس کا ’’اپنے اثاثے بنانا اور اپنی اولادوں کے کیس ختم کرانا اولین ترجیح ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جن طاقتور ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں ناچتی ہیں اور ہر بات پہ یس سر کہتی ہیں وہ خود مہنگائی کے خلاف کام کیوں نہیں کرتے۔

آج تک اس ملک میں جو بھی الیکشن ہوئے پبلک خوب ان کی حقیقت سے واقف ہے لیکن میں بات کروں گی گزشتہ الیکشن کی جس میں اخراجات کا تخمینہ 47ارب سے زیادہ تھا۔ اس بدقسمت اور غریب ملک میں اس 47 ارب سے بہت سے کام ہو سکتے تھے۔ سڑکیں بن سکتی تھیں، پانی کا نظام بہتر ہو سکتا تھا، لیکن ہوا کیا؟ وہی بندربانٹ، چار سیٹیں ان کی، پانچ سیٹیں کسی اور کی، ہوا وہی جو ٹی وی چینلز اور اخبارات یا کالم نگار کہہ رہے تھے۔ مقبول جماعت کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے عجیب عجیب ہتھکنڈے، کبھی ان کا نشان چھین لیا گیا، کہیں بیلٹ پیپر پر ان کے نشان کی ہیئت تبدیل کردی۔

وہی شعر یاد آ رہا ہے کہ:

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ مقتدر حلقے اور طاقتور لوگ ہی اس ملک کے اصل حکمران ہیں تو الیکشن کا ڈرامہ کیوں رچایا جاتا ہے۔ سب لوگ سب جانتے ہیں، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے یہاں تو جمہوریت کے نام پر جو تماشا ہوتا ہے اسے سبھی جانتے ہیں۔ ’’بچہ جمہورا‘‘ وہی جواب دیتا ہے جو اس کے مالک نے اسے پہلے سے پڑھا دیا ہوتا ہے، بقول اقبال:

جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

جب آپ ہی ’’مائی باپ‘‘ ہو تو کھل کر سامنے آؤ اور سامنے بیٹھ کر حکومت کرو۔ کم سے کم مہنگائی تو کم کرواؤ، ہمیں یقین ہے کہ آپ کا ’’ڈنڈا‘‘ جب حرکت میں آئے گا تو ہر کسی کا پِتّہ پانی ہوگا، دودھ، دہی، گوشت، سبزی، پھل فروٹ، گھی تیل سب کی قیمتیں کم ہو جائیں گی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آپ کی نظر بھی صرف اپنے طویل القدر کی طرف ہے، اسی لیے آپ نے پتلی تماشا سجایا ہے تاکہ اپنے اقتدار کو طول دے سکیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں