[ad_1]
ماہ مئی کی آمد ہمیں بچپن میں طالب علمی کے زمانے میں پڑھی ہوئی ایک نظم کے یہ اشعار یاد دلا رہی ہے۔
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایہ
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب بجلی تو کیا اس کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ دیہات میں محنت کش کسان چلچلاتی ہوئی دھوپ میں گندم کی فصل کاٹتے تھے اور پھر اس کے بعد گندم کے دانوں کو بھوسے سے الگ کرنے کے لیے اس پر جھاڑیوں کا ایک پلندہ چلاتے تھے، جس پر بھاری پتھر رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ چٹیل میدان میں پڑی ہوئی ، گندم کے انبار پر بیلوں کی جوڑی گھوم گھوم کر بھوسہ کو گندم کے دانوں سے جدا کرتی تھی۔
پھر جب اناج اور بھوسہ الگ ہوجاتا تو اسے چھاج میں بھر کر ہوا کے رخ پر اوپر سے نیچے کی جانب گرایا جاتا تھا جس سے بھوسہ اور گندم علیحدہ ہوجاتا تھا۔ اس زمانہ میں تھریشر کا تصور تک موجود نہیں تھا۔ اس لیے کسان کو سخت محنت اور انتہائی جانفشانی سے کام کرنا پڑتا تھا۔ سورج کی تمازت صبح کے سات آٹھ بجے سے ہی شروع ہوجاتی تھی اور جوں جوں وقت گزرتا تھا اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
پینے کے پانی کے لیے کنویں کھودے جاتے تھے جن سے رسی کو ڈول سے باندھ کر پینے کا پانی نکالا جاتا تھا۔ دس گیارہ بجے سے شدید گرم ہوا چلنا شروع ہوجاتی تھی جسے لُو کہا جاتا تھا۔ بعض اوقات لُو لگنے کی وجہ سے لوگ شدید بیمار پڑ جاتے تھے اور ڈاکٹر اور حکیم نام کی کسی مخلوق کا وجود نہ ہونے کی وجہ سے لُو لگنے سے بیمار پڑنے والوں کا علاج ٹوٹکے کے ذریعے کیا جاتا تھا، جس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ کچے آم کو مٹی کے چولہے میں اپلوں کی راکھ میں تھوڑی دیر کے لیے جھلسنے کے لیے دبا دیا جاتا تھا اور پھر جب آم کی کیری نرم پڑجاتی تھی تو اِس سے نکلا ہوا رس پانی میں گھول کر مریض کو پلا دیا جاتا تھا جس سے اللہ کے حکم سے شفایابی ہوجاتی تھی۔
آم کے درختوں پر بور آتے ہی فضا مہک جاتی تھی اور کوئل کی میٹھی کُوک سے سماں بندھ جاتا تھا۔ کوئل کے علاوہ طوطوں کی ٹیں ٹیں سے نغمے بکھر جاتے تھے۔ یہ اس دور غلامی کی یادیں ہیں جب برصغیر پر فرنگیوں کا راج تھا۔ دہلی جو اس زمانہ میں بھی پایہ تخت تھا اور نئی دہلی کے نام سے ایک نیا شہر آباد کیا گیا تھا جہاں صرف گوروں کی رہائش گاہیں اور دفاتر تھے۔ گرمیوں کے موسم کا آغاز ہونے سے قبل گورے حکمران دہلی کو چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کرتے تھے۔ شملہ اور مسوری قابلِ ذکر ہیں۔ شملہ وہ ہل اسٹیشن ہے جہاں قائد اعظم کے انگریزوں کے ساتھ تاریخی مذاکرات ہوئے تھے اور مسوری ملکہ کوہسار مری کی مماثل ہل اسٹیشن ہے۔
لوگ سادہ اور قناعت پسند تھے۔ بقول بھگت کبیر :
دیکھ پرائی چُوپڑی مت للچائے جی
روکھی سوکھی کھائے کر ٹھنڈا پانی پی
پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مٹکے استعمال کیے جاتے تھے جو شدید لُو چلنے کی وجہ سے پانی کو خوب ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ مٹکوں کے علاوہ پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے صراحیاں بھی استعمال کی جاتی تھیں۔آم گرمیوں کا خاص تحفہ ہے جسے کھا کر غیر معمولی فرحت محسوس ہوتی ہے۔ آم مرزا غالبؔ کا پسندیدہ پھل تھا اور آم کی تعریف میں مرزا کا کہنا تھا کہ ’’ آم ہوں اور خوب ہوں۔‘‘
گاؤں دیہات میں لسّی جسے مٹّھا بھی کہا جاتا تھا لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھا۔ گائے کی تعریف میں لکھی گئی بچوں کی ایک نظم میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
دودھ، دہی، مٹّھا اور مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا
موسم گرما میں امراء اور رؤسا کے گھروں میں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے خس کی ٹٹیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ خاص خاص دفاتر میں بھی انھی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ خس ایک خاص قسم کی خوشبودار گھاس کا نام ہے۔ اس گھاس کی پتلی پتلی تہیں بنا کر پانی کا چھڑکاؤ کر کے انھیں کمروں کے داخلی دروازوں پر لٹکا دیا جاتا تھا اور جب گرم ہوا ان سے ٹکرا کر کمروں میں داخل ہوتی تھی تو کمرے نہ صرف ٹھنڈے ہوجاتے تھے بلکہ ان کی خوشبو ماحول کو معطر بھی کر دیتی تھی۔
مٹکے کی قلفی گرمیوں کی خاص سوغات ہوتی تھی۔ مشینوں کے چلن نے سارا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ بجلی کی ایجاد نے وہ کرشمے دکھائے ہیں جن کا تصور بھی محال تھا۔ پہلے بجلی کے پنکھے ایجاد ہوئے پھر اس کے بعد روم کولرز آئے اور ایئرکنڈیشنرز نے گرمی کی شدت کا توڑکر دیا۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
[ad_2]
Source link