8

چین روس بڑھتی قربت، نیٹو کے بڑھتے قدم

[ad_1]

چینی صدر نے کہا بیجنگ اور ماسکو یوکرین سمیت متعدد اہم مسائل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

چینی صدر نے کہا بیجنگ اور ماسکو یوکرین سمیت متعدد اہم مسائل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

چینی صدر شی جی پنگ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکا کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کی مذمت کی ہے اور دونوں ممالک نے پہلے سے قریبی دفاعی اور فوجی تعلقات مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

چینی صدر نے کہا بیجنگ اور ماسکو یوکرین سمیت متعدد اہم مسائل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا کے عالمی دفاعی میزائل سسٹم سے روس اور چین کو خطرہ ہے۔ دوسری جانب امریکا نے کہا ہے کہ چین کو مغرب یا روس دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہ دونوں کام بیک وقت نہیں ہوسکتے۔

امریکا اور یورپ کے پالیسی ساز ادارے چین اور روس کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی قربت سے پریشان ہیں۔ مختلف النوع اقتصادی پابندیوں نے دونوں ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کردیا۔ اسٹرٹیجک اور اقتصادی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے نام پر امریکا اور یورپ جو اقدامات اٹھا رہے ہیں، اس کے منفی اثرات بھی ظاہر ہورہے ہیں۔

چین، روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور تیزی سے پنپتے ہوئے اتحاد کو مزید ارکان بھی مل سکتے ہیں۔ ایسے میں امورِ خارجہ اور امورِ معیشت میں متوازن پالیسیاں تیار کرنا مغربی پالیسیی سازوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ بھی معیشت کے مختلف شعبوں میں امریکا اور یورپ سے بڑھتی ہوئی مخاصمت کے باعث روس اور ایران سے مزید قربت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ تینوں ملک مل کر ایسا سیاسی و معاشی اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں جو امریکا اور یورپ کی معیشتوں کے لیے بقا کا سوال کھڑا کرسکتا ہے۔

روس اور چین کی قربت بڑھتی جارہی ہے۔ دونوں کے تعلقات 1950 کے بعد مضبوط ترین سطح پر ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی قربت کی نوعیت کیا ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں، چین اور روس کے تعلقات جیسے خوشگوار اب ہیں، پہلے ایسے کبھی نہیں رہے۔ ان کے باہمی تعلقات میں گرمجوشی کی وجوہات میں اپنی سلامتی کا تحفظ، معاشی و تزویراتی مفادات کا حصول، امریکا اور اس کے اتحادیوں کا رویہ اور نئے حالات اور عالمی صف بندی کے لیے تیاری شامل ہیں۔

مغرب کے ساتھ مشترکہ دشمنی اور دونوں پر امریکی و مغربی پابندیاں دونوں ممالک کو قریب لے آئی ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکا اور مغرب چین کے خلاف تیزی سے اپنا معاشی غلبہ کھو رہے ہیں جب کہ نیٹو کو ایک طاقتور روس کا سامنا ہے۔

امریکا، روس اور چین کو مستقبل کا اپنا تزویراتی حریف سمجھتا ہے۔ اس کے چین کے ساتھ تائیوان، سنکیانگ اور انسانی حقوق جب کہ روس کے ساتھ یوکرین، سائبر حملوں وغیرہ پر اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ امریکا نے حالیہ دنوں میں آن لائن ہونے والی عالمی جمہوریت سربراہ کانفرنس میں چین اور روس کو دعوت ہی نہیں دی۔ جوں جوں روس اور چین کے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں توں توں ان کی باہمی قربت اور تعاون بڑھتا جارہا ہے۔

ایک دوسرے کے ملکوں میں عدم مداخلت، غیر متزلزل باہمی اعتماد اور بین الاقوامی امور پر باہمی تعاون ان تعلقات کی خصوصیات ہیں۔ دونوں نے 2021 میں مسلسل اور قریبی رابطہ رکھا ہے۔ مئی میں دونوں نے وڈیو لنک کے ذریعے دو طرفہ جوہری توانائی کے تعاون کے منصوبے کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی اور اگست میں دو طرفہ تعلقات اور افغان صورتحال پر بات چیت کے لیے فون پر بات چیت کی۔ روس اور چین کے درمیان سیاست، معیشت اور تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، توانائی اور فوج کے شعبوں میں باہمی تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔

چین اور روس نے چاند پر مشترکہ طور پر ایک بین الاقوامی سائنسی تحقیقی اسٹیشن کے قیام کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ دونوں نے تیانوان نیوکلیئر پاور پلانٹ سمیت جوہری توانائی کے مشترکہ منصوبے شروع کیے ہیں۔ یوکرین جنگ چھیڑنے کی پاداش میں روس پر بھی امریکا اور یورپ نے سیکڑوں اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں روس اور ایران میں قربت مزید بڑھی ہے۔ ادھر چین کے خلاف امریکا اور یورپ کی بڑھتی ہوئی مخاصمت بھی چینی قیادت کو متبادل راستوں پر چلنے کی تحریک دے رہی ہے۔ امریکا اور یورپ کے آٹو میکرز کو چین سے ڈر لگ رہا ہے۔

چین نے سستی الیکٹرک گاڑیاں تیار کر کے مغرب کے آٹو سیکٹر کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ امریکا کے سابق صدر اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں چینی ساختہ گاڑیوں پر 100 فیصد ڈیوٹی لگا دیں گے تاکہ امریکا کے آٹو سیکٹر کو نئی زندگی مل سکے۔

ایسے ہی اقدامات کے بارے میں یورپ میں بھی سوچا جارہا ہے، اگر ایسا ہوا تو چین مزید اتحادی تلاش کرے گا تاکہ امریکا اور یورپ کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چین انتہائی سستی جدید گاڑیاں تیار کرکے امریکا اور یورپ کی مارکیٹ میں کھلبلی مچاتا رہے۔ دوسری جانب سویڈن دوسری عالمی جنگ کے بعد سے کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی غیر جانبداری ختم کرتے ہوئے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اتحاد کا دوسرا نیا رکن بن گیا ہے۔

سویڈن کی نیٹو شمولیت کی توثیق سے اتحاد نارڈک خطے (ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن) میں مضبوط ہوا ہے۔ اب علاقے کے تمام ممالک نیٹو کے رکن بن چکے ہیں اور بحیرہ بالٹک ٹھیک روس کے صدر ولادی میر پوتن کی دہلیز پر ’بحیرہ نیٹو‘ بن گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں کہا تھا ’’نیٹو دنیا کی تاریخ کا سب سے طاقتور دفاعی اتحاد ہے اور آج یہ اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ 75 سال پہلے تھا جب ہمارے اتحاد کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے ملبے پر رکھی گئی۔‘‘

یوکرین کو چھ سو میل طویل اگلے محاذ کے مشرقی علاقوں میں روسی پیش قدمی اور گولہ بارود کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یورپی مفکرین کہتے ہیں ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ یوکرین جنگ کیسے ختم ہو گی، بھاری جانی نقصان کے باوجود کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، یہ جنگ مزید کئی سالوں تک جاری رہ سکتی ہے چونکہ تنازعہ کی وجوہات ماسکو کو اسٹرٹیجک جواز فراہم کرتی ہیں، اس لیے یوکرین کے پاس لڑائی یا ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ماہرین کہتے ہیں مغربی حمایت پر کیف کا انحصار اس کی فوجی کارروائیوں کو دن بدن محدود کر رہا ہے کیونکہ مغربی ممالک یوکرین کو دفاع کے لیے وسائل تو فراہم کر رہے ہیں لیکن وہ ایسے ہتھیاروں کی فراہمی سے گریزاں ہیں، جو یوکرین کو روس سے جنگ جیتنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ مغرب کو امید تھی پابندیوں سے بڑھتے اقتصادی اخراجات، بالآخر روس کو جنگ سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیں گے لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکام ہو گئی، چنانچہ آج سب سے زیادہ امکانی منظرنامہ لڑائی جاری رہنے کا ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے، اگر ایٹمی جنگ سے بچنے کی خاطر امریکا یوکرین کوکوئی ذلت آمیز سمجھوتہ قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے تو اس کا مستقبل میں نیٹو کی ساکھ یا مغرب کے جوہری ڈیٹرنس پہ کتنا اثر پڑے گا؟ عالمی سرمایہ داری کے پیچیدہ تضادات نے بڑی طاقتوں کے درمیان دنیا کی ایک نئی تقسیم کو جنم دیا ہے۔

یہ کشمکش سامراج کی طرف سے اپنے جیو پولیٹیکل حریفوں اور ہر ملک میں محنت کش طبقے کی قیمت پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک رد انقلابی جدوجہد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادیوں کے دیگر اہم اہداف مشرق وسطیٰ میں ایران اور سب سے بڑھ کر ہند، بحرالکاہل میں چین ہیں۔

چین کے ساتھ جنگ کا امکان جو امریکی بالادستی کے لیے براہ راست خطرہ ہے، اب ایک امکان کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ناگزیریت کے طور پر زیر بحث ہے۔کچھ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کو الگ نہیں کرنا چاہیے بلکہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات کے لیے اتحادی بنانا چاہیے۔

امریکیوں کو ہمیشہ یورپ میں اپنی مرضی کی کمی کی شکایت رہی لیکن کیا امریکا، یورپ کا قابل اعتماد اتحادی رہے گا؟ امریکی پہلے ہی یوکرین کو فوجی اور اقتصادی امداد جاری رکھنے بارے منقسم ہیں۔ یوکرین میں ناکامی بائیڈن انتظامیہ کی ساکھ کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی، کیونکہ یوکرین میں صریح ناکامی کے بعد کا امریکا آسانی سے عالمی تنہائی کی طرف ڈھلک سکتا ہے۔ پہلی دونوں عالمی جنگیں مغربی تہذیبوں پر قہر بن کر ٹوٹی تھیں جس میں تقریباً سارا نقصان اہل مغرب ہی کا ہوا۔

دوسری عالمی جنگ میں روس آخری وقت پر پیچھے ہٹ گیا تھا جس کا خمیازہ جاپان کو دو ایٹم بمبوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ جرمنی بھی تباہ ہوا مگر یہ دونوں ملک مکمل طور پر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوچکے ہیں۔

پہلے روس کا نام ’’سوویت سوشلسٹ ریپبلکس‘‘ تھا جو 26 دسمبر 1991میں مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو کر بکھر گیا اور روس ابھی تک معاشی طور پر اس پوزیشن میں نہیں جا سکا ہے کہ وہ تیسری عالمی جنگ کا سامنے کرنے کے لیے سیدھا کھڑا ہو سکے جب کہ چین عالمی جنگ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے لڑ رہا ہے اور چین امریکا اور روس کی طرز کا جارح ملک بھی نہیں ہے کہ وہ فریق ثانی کے طور پر امریکا اور نیٹو کے مغربی ممالک کو چیلنج کرے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا یہ کسی کو معلوم نہیں مگر یہ موقع ضرور ہے کہ تیسری عالمی جنگ کو رد کر کے اس مسئلے کا کوئی پرامن حل نکالا جائے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں