12

یہ وطن ہمارا ہے – ایکسپریس اردو

[ad_1]

زینب عمر کے اعتبار سے بمشکل چھ سال کی تھی لیکن ذہانت اور متانت نے اسے اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑا کردیا تھا، بچوں جیسی تو کوئی بات ہی نہیں تھی، دادی تو اسے کہتیں، یہ ہمارے گھر بیٹی نہیں بلکہ دادی اماں پیدا ہوگئی ہیں، ہر بات سے ہر نکتے سے واقف ابھی دادی اماں اس کے گن گا رہی تھیں کہ اسی وقت اس کی اسکول سے واپسی ہوگئی، آتے ہی اپنی ماں سے بولی’’ اماں ! جھوٹ بولنے والوں کے منہ سے بدبو آتی ہے نا، اور فرشتے بھی پاس نہیں آتے اور پھر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے‘‘ …’’ تمہیں کیسے معلوم؟‘‘

اماں نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا ’’ اماں ! قرآن میں لکھا ہے، لعنت اللہ علی الکاذبین‘‘ یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ۔ ’’ ہاں بیٹا ! زینب تم ٹھیک کہتی ہو‘‘ ماں کے چہرے پر مسکراہٹ اور حیرت کی ملی جلی کیفیت نمودار ہوئی، ’’ اماں ایک بات تو بتائیں، یہ پرندہ اور رٹو طوطے تو خوب جھوٹ بولتے ہیں، یہ اللہ سے نہیں ڈرتے ہیں‘‘… ’’ارے، جب انسان اللہ سے نہیں ڈرتا ہے تو پرندے کیوں ڈرنے لگیں۔‘‘

’’ہائے اللہ … اماں آپ اس قدر کند ذہن کیوں ہیں؟ بات کو سمجھتی نہیں ہیں‘‘ زینب کی دادی پوتی کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہی تھیں، آخری جملے پر تو وہ دل کھول کر ہنسیں، اماں مصنوعی غصے سے بولیں’’ بڑوں سے اس طرح بات کرتے ہیں‘‘… ’’اماں تو پھرکس طرح کرتے ہیں؟ اب دیکھیں ، جس نے سچی بات کہی اس کی ہوگئی پکڑ ۔۔ اماں ! ایک سال ہو رہا ہے انکل صداقت کوگرفتار ہوئے ، ذرا بتائیے کیا غلطی تھی ان کی؟ یہ ہی نا سچ بولتے تھے اور آخری بار تو کچھ زیادہ ہی بول گئے اور جھوٹ بولنے والے ایسی ایسی باتیں سینہ تان کرکرتے ہیں کہ بس مجھے تو ہنسی بھی آتی ہے اور غصہ بھی، اماں ان کے منہ سے بدبو بہت آتی ہوگی، لوگ ان سے کس طرح بات کرتے ہونگے ‘‘…’’ ارے زینب بیٹا ، بدبو تو سب کے منہ سے آتی ہوگی، اب یہ لوگ عادی ہوچکے ہیں جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق نہیں رہا۔‘‘

’’ اچھا دادی اماں چلو جاؤ یونیفارم بدلو، فریش ہوکر آؤ پھر کھانا کھاتے ہیں۔‘‘

زینب جونہی کمرے میں داخل ہوئی ، دادی اماں ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگیں،’’ یہ لڑکی ہے یا آفت کی پڑیا‘‘…’’ اماں دراصل آج کل کے بچے ہر بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بات کی تہہ تک بڑی آسانی تک پہنچ جاتے ہیں ، دراصل ہمارا معاشرہ برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، خوب برائیوں اور بد دیانتی نے پر نکال لیے ہیں، تعلیم کا فقدان تھا ہی، طالب علم چوری چھپے نقل کرلیا کرتے تھے لیکن ان دنوں جو نویں دسویں کے امتحانات ہورہے ہیں رشوت کے طور پر باقاعدہ پانچ ہزار کی رقم اس طرح لیتے ہیں جیسے فیس وصول کر رہے ہوں۔‘‘

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کراچی ثانوی تعلیمی بورڈ میں ہونے والے امتحانات میں افسوسناک صورت حال اس وقت سامنے آئی جب ڈی سی ملیر نے امتحانی سینٹرکا دورہ کیا ، کیا دیکھتے ہیں کہ ضلع ملیر کے امتحانی مراکز میں 20 طلبہ کی گنجائش والے کمرے میں 70 ،70 طلبہ سے پیپر لیا جا رہا ہے، ایک ایک ڈیسک پر 4 طلبہ پرچہ حل کرنے میں مصروف ہیں ، پرچے بھی آؤٹ کیے جا رہے ہیں، یہ ہیں ملک و قوم کے دشمن امتحان کے دوران ڈی سی کے حکم کے مطابق چار غیر متعلقہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

تعلیم کی خرید و فروخت اور اس کے زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے وہ لانڈھی کے امتحانی مرکز پر پہنچے، لیکن بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے تو انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسکول کے دروازے بند کردیے، لو جی کر لو گل ، زینب نے لقمہ دیا، اماں نے زینب کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بلند آواز میں اخبار پڑھتی رہیں، لیکن 5 منٹ بعد ایس پی اور ڈی سی کو اند ر جانے دیا ، وہاں کے حالات بھی مختلف نہیں تھے، طلبہ کے پرچے دوسرے افراد حل کر رہے تھے، نیوکراچی اسکول میں نقل کرنے کا طریقہ کار کچھ اس طرح تھا کہ طلبہ پرکسی قسم کی روک ٹوک اور دباؤ نہیں تھا۔

ڈپٹی کمشنر وسطی فواد غفار سومرو اور اسسٹنٹ کمشنر نیو کراچی ارسلان طارق نے امتحانی مرکز میں ہنگامی بنیادوں پر دورہ کیا تھا اور یہ ان کا آنکھوں دیکھا حال تھا کہ امتحان شروع ہونے سے قبل ہی واٹس ایپ کے ذریعے پرچہ ہاتھوں میں آچکا تھا اور طلبہ کو مکمل آزادی حاصل تھی کہ وہ حل شدہ پرچہ ایک دوسرے سے شیئر کریں، اور یہ امتحانات درجہ دہم کے تھے، میٹرک کی کامیابی وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آگے کا سفر کیا جاتا ہے ، نقل سے پاس ہونے والے طلبہ اہم ذمہ داریوں اور ملکی مفاد کے لیے کیا کام کریں گے ؟

سوائے رشوت لینے اور سفارش کی بنیاد پر کامیابیوں کے سرٹیفکیٹ تقسیم کریں گے چونکہ وہ ابھی اس ہی عمل سے یہاں تک پہنچے ہیں، نقل کرانے والے حضرات اسکول کے مالکان اور اساتذہ جن کی تعداد دس تھی، انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے، لیکن اس گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں، بہت جلد اعلیٰ افسران کی سفارش انہیں آزادی کا پروانہ تھما دے گی اور تعلیمی نظام اس ہی طرح چلتا رہے گا۔

’’ سوچیں اور غورکریں کہ قائد اعظم ؒ نے تو طلبہ کو وطن عزیزکا معمار کہا تھا کہ ان کے ہی دم سے ملک ترقی کرے گا ، ارے اماں وہ جو پرندہ ہے نا، بس اپنی چونچ میں دانہ ڈالنا چاہتا ہے ، اب رہے رٹو طوطے جو رٹا دیا جائے وہ ہی کہتے ہیں‘‘…’’ زینب نہ جانے تم کیا اول فول بک رہی ہو۔‘‘…’’ اماں میرا تو بڑا دل دکھتا ہے، پاکستان میں کوئی ایسا شخص ہے جو انصاف سے کام لے، کیا انہیں نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟‘‘ پھر وہ تیزی سے بھاگی اور اسٹڈی روم سے اخبار اٹھا لائی۔’’ ساری خبریں ایسی ہیں جیسے کوئی بھی بااختیار نہیں ہے ، اپنے فائدے کے لیے ہر شخص خاموشی اختیار کر لیتا ہے لیکن سچ بولتے ہوئے ان کے منہ پر تالے پڑ جاتے اور جھوٹ بولنے میں تو ان لوگوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے ، ہر محکمہ حتیٰ کہ وہ محکمہ بھی جہاں انصاف کرنے والوں کے منہ سے بھی بدبو آتی ہے ، فرشتے ان کے نزدیک نہیں آتے ہیں ، چونکہ ان کے لالچ ، ناانصافی نے بے قصور لوگوں کو پھانسی اور جیل کی چار دیواری میں بندکردیا ہے۔ ‘‘

’’ اب چپ ہوجائو‘‘ زینب اماں نے اسے ٹوکا، تو وہ اطمینان سے بولی’’ اماں بچوں کو بولنے کا موقع دیا کریں، اگر آج کے بچوں نے اپنی زبان کو سچ بولنے سے روک لیا توکل اپنے ملک کو کیسے بچاسکیں گے۔‘‘…’’ اچھا بیٹا کھانا کھاتے وقت تو خاموش ہو جاؤ۔‘‘

’’ رٹو طوطی‘‘ اس نے پیچھے مڑکر اپنے بھائی عمرکو غضب ناک نگاہوں سے دیکھا ، تو سب نے ایک ساتھ مل کر بھرپور قہقہہ لگایا، ’’ اس میں ہنسنے کی کونسی بات ہے، ہم سب کو مل کر اپنے ملک کو بچانا ہے، یہ ملک ہزاروں قربانیاں دینے کے بعد بنا تھا، اس کا چپہ چپہ ہمیں پیارا ہے، ہم اس کا ایک کونہ بھی نہیں بکنے دیں گے ، یہ ہمارا وطن ہے، ہمارا ہے‘‘ اماں نے اسے غور سے دیکھا، زینب وطن کی محبت میں زار و قطار رو رہی تھی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں