[ad_1]
کچھ کہنے سے قبل بشیر بدر کا ایک شعر:
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
یادوں کے اُجالے ساتھ لیے زندگی کے شب و روز میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب انسان کے پاس کسی کی صرف یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ رفتگان اور زندگان دونوں کی باتیں، لہجہ اور انداز، شفقت و محبت ہمیشہ کے لیے دل پر نقش ہو کر رہ جاتی ہیں۔
کچھ یادیں تازہ گلاب کے پھولوں کی طرح سدا بہار ہوتی ہیں جو خزاں آنے پر بھی تر و تازہ اور خوشبودار رہتی ہیں۔ کچھ یادیں جنہیں انسان بھول جانے کی کوشش کرتا ہے توکچھ یادیں خوبصورت اور حسین و پرکشش کہ انسان انھیں ہمیشہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے کی خواہش کرتا ہے۔
ایسی کچھ باتیں اور یادیں موجودہ عہد میں عالمی شہرت یافتہ نعت گو، ادیب، مصنف، دانشور اور مزاحیہ شاعر سید سلمان گیلانی کی ہیں۔ جن کی منصہ شہود پر آنے والی کتاب’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ کا مطالعہ کرنے کا شرف قلم فائونڈیشن کے روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم نے بخشا، یہ کتاب سید سلمان گیلانی کی یاد داشتوں پر مبنی ہیں۔ جس کے تمام صفحات پر یادوں کے جگنو ٹمٹما رہے ہیں، سوچ کے ستارے اپنی روشنی سے ہماری سوچوں کو منور کر رہے ہیں۔
اس کتاب میں نصف صدی پر محیط کئی واقعات در ج کیے گئے ہیں، اس کتاب کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس میں شامل مضامین سے لگایا جا سکتا ہے۔
سید سلمان گیلانی اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’ اس کتاب میں زیادہ تر واقعات میرے چشم دید ہیں یا مجھے میرے ہم عصر لیکن قابل اعتماد بزرگوں دوستوں نے سنائے ہیں، میرے والد مرحوم سید امین گیلانی کی انقلابی زندگی کے پون صدی پر مشتمل ان گنت واقعات ان سے خود سنے ہیں کچھ انہوں نے تحریر کر دیے، جن کو میں اپنی یاد داشت پر بھروسہ کر کے لکھنے کی کوشش کی ، بعد میں ان کی کسی معمولی فرق نکلا تو میں نے نظر انداز کرکیا۔ کبھی کوئی واقعہ کسی اور جگہ کا تھا میں نے سہواََ کسی اور واقعہ سے ملا دیا ہوگا اسے بھی اگنورکیا ہے۔ اصل مدعا تو اس بات کی افادیت اور اس میں پنہاں حکمت کو بیان کرنا تھا۔‘‘
1953 ء میں شیخوپورہ کی سرزمین پر اپنے پہلے مشاعرے سے وابستہ یاد داشت اور واقعات کا کچھ حصے کو بیان کیا گیا ہے۔ والد مرحوم کا دوسرا اور آخری حج کے حوالے سے یادوں کے ایک ورق پرکئی محبت بھرے الفاظ کو سجایا گیا ہے۔ ’’ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ یہ مضمون طارق عزیز مرحوم سے دو ملاقاتوں کا احوال بیان کرتی ہیں، جو پی ٹی وی سٹیشن لاہور اور ایڈمبرا برطانیہ میں پی ٹی وی کے ایک شو کی یاد کو تازہ کر دیتی ہیں۔ اس شو میں سید سلمان گیلانی کو نیشنل سیرت ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ’’پانچ کے دو میلے نوٹ‘‘ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے بابا گھنگرو سرکار کا پنجابی کا یہ شعر ہی کافی ہوگا۔
میرے دل دے ٹیشن اُتے ریل پیار دی چلی اے
ساری دنیا چیکر بن گئی وچ سواری کلی اے
سید سلمان گیلانی اپنی اس کتاب میں جگرگوشہ رسول ﷺ سیدہ فاطمتہ الزھراؒ کے روضہ کی زیارت کا ذکر نہایت عقیدت و احترام کیساتھ کیا ہے۔ یہ بات 1999 ء کی جب وہ اپنی کزن فضیل کے ہمراہ عمرہ کے سفر پر گئے۔ زیادہ قیام مدینہ منورہ میں کرنے کے باعث جنت البقیع میں کئی بار حاضری کا موقع فراہم ہونے پر زیادہ تر ان کا وقت سیدہ پاکؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے قدمین شریفین میں گزرتا۔ ’’ درود شریف کے فیوض و برکات‘‘ 2001 ء کی بات ہے جب وہ اپنے والد کیساتھ حج پرگئے، اس سفر کے دوران تمام کام بہ حسن و خوبی سر انجام پائے، اس دوران درود شریف کے فضائل پر نعت مبارکہ کے چند اشعار بھی انہوں نے کہے۔
دل بے سکوں ہو جب تو نبی پر درود پڑھ
تسکیں کا ہے سبب تو نبی پر درود پڑھ
لیتے ہیں بوسہ نام محبت کا خود ہی دیکھ
آپس میں مل کے لب، تو نبی پر درود پڑھ
اسی درود شریف کا مقطع دیکھیے:
اے دوست چاہتا ہے تو سلمان کی خوشی
خوش رکھے تجھ کو رب تو نبی پر درود پڑھ
سید سلمان گیلانی کی یاد داشتوں میں ان کے دادا اُستاد حضرت احسان دانش کے حوالے سے بھی کچھ مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ’’ ایک جن کا بے وزن شعر‘‘ یہ دلچسپ واقعہ شائد احسان صاحب کی کتاب ’’ جہانِ دانش‘‘ میں ہو۔ ’’ ایک جن مجھ سے ملنے آتا تو عجیب عجیب فرمائشیں کرتا۔ ایک دن بہت تنگ کرتا رہا کہ ایک ایسا شعر سنائیں جس میں چار بار آپ کا نام آئے، کہتے ہیں میں بڑا پریشان ہُوا کہ یا اللہ یہ ایک عجیب فرمائش لے آیا ہے اب ایسا شعر میں کیسے کہوں جس میں چار بار احسان یا دانش کو استعمال کروں۔
کہتے ہیں پھر وہ آیا اور کہا سنائو، میں نے کہا میں ایسا شعر بنانے پہ قدرت نہیں رکھتا۔ جن نے کہا ’’ واہ جی واہ ، بزعم خویش اتنا بڑا شاعر بنا پھرتا ہے اور فرمائش پر ایک شعر نہیں کہہ سکتا۔‘‘ میں نے کہا ’’ہاں، بھائی جن میں ہار گیا مجھے تسلیم ہے میں بڑا شاعر نہیں ہوں۔‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا لو پھر میں نے شعر بنا لیا ہے جس میں چار بار آپ کا نام آئے گا۔ کہتے ہیں میں نے کہا سنائو، اُس نے سُنایا۔
احسان صاحب مجھ پہ اک احسان کیجیے
احسان صاحب آپ کے احسان بہت ہیں
اسی طرح کے بہت سے واقعات اور یادیں ان نایاب کتاب میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کتاب میں سیاسی، مذہبی، ادبی اور دیگر ایسی شخصیات سے وابستہ یادوں کو قلم بند کیا گیا ہے جن کی محبتوں، شفقتوں کے زیر سایہ ان کی تربیت ہوئی۔ سید سلمان گیلانی کی خود نوشت ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ ان کی کمال شاعری کی طرح باکمال نثر کا بہترین تحفہ ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم کے بقول ’’یہ کتاب ایک حیرت کدہ ہے، سیکڑوں نا قابل فراموش، حیرت ناک اور عبرت ناک سبق آموز واقعات پر مشتمل اس مجموعے کو شائع کرتے ہوئے ایک خاص مسرت اور فخر محسوس کر رہا ہوں۔ ‘‘
سید سلمان گیلانی ایک سادہ مزاج، نیک سیرت، صاف گو اور پُرکشش شخصیت کے آدمی ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے ایسے شعراء میں ہوتا ہے جنہیں شوق سے سنا اور ذوق سے پڑھا بھی جاتا ہے۔ ان کی مزاحیہ شاعری کی طرح ان کی نثر میں بھی کٹھے میٹھے پھل کا ذائقہ پایا جاتا ہے۔ ان کے مضامین کو پڑھتے ہوئے انسان کہیں بھی کسی گٹھن اور زبان کی کڑواہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ اب تک دنیا کے کئی ممالک کا سفر کر چکے ہیں، ان کی شعراء کے علاوہ علماء ، مشائخ سے بے شمار ملاقاتیں اور دوستیاں ہیں۔ وہ بزرگوں کی صحبت اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ان کی آئیڈیل شخصیت ان کے والد سید امین گیلانی ہے جو اپنے دورکے منجھے ہوئے شاعر اور خوبصورت لہجے کے نعت گو تھے۔
’’میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ اس کتاب کے بیک سرورق پر امیر جمعیتہ علماء اسلام مولانا فضل الرحمن کی رائے درج ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ سید سلمان گیلانی اکابر و اسلاف کی گود میں پل کر جوان ہوا اور اب میری طرح منزل پیروی میں قدم رکھ چکا ہے، اس لیے اسے احساس ہُوا کہ میں ان اکابر کے حیران کن واقعات و حالات تحریری شکل میں آئندہ آنے والی نسلوں کے حوالے کر جائوں تاکہ ان کیلئے مشعل راہ ہوں۔‘‘
سید سلمان گیلانی اب تک حرمین شریفین کے تقریباََ چھتیس کے قریب سفرکر چکے ہیں۔ ان اسفار کے دوران پیش آنے والے قابل ذکر اور ناقابل فراموش واقعات ’’ شب جائے کہ من بودم‘‘ کے عنوان سے تحریر کیے ان کالموں کو ’’نقوشِ حضوری‘‘ کا نام دے کر ایک الگ سے کتاب منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ جس پر پھر کبھی کسی دن تفصیل سے کالم لکھوں گا۔ ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ اس کتاب پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہوگا۔ سید سلمان گیلانی سے میری پہلی ملاقات گوجرانوالہ آرٹس کونسل کے ایک مشاعرے میں ڈاکٹر سعید اقبال سعدی کے ہمراہ ہوئی۔
المختصر ان کی باتیں فکری کینوس کو اُجاگر کرتی ہوئی مختلف ادوارکے معاشرتی، تہذیبی اور تاریخی واقعات سے بھی روشناس کراتی ہیں۔ انہوں نے جہاں اپنی چٹ پٹی اور کھٹی میٹھی شاعری سے لوگوں کے چہروں پر تبسم کے پھول کھلا رکھے ہیں وہاں اب انہوں نے نثر میں بھی اس کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔ سید سلمان گیلانی کی ادبی خدمات ہمارے لیے قابلِ ستائش اور قابلِ رشک ہیں۔ سید سلمان گیلانی کی باتیں یاد رکھتے ہوئے راحت اندوری کا ایک خوبصورت خیال:
اُس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
[ad_2]
Source link