9

بکھرے موتی – ایکسپریس اردو

[ad_1]

پچھلے کالم میں سیدمختار باچا پر بات کی تھی، اب اس بارے میں مزید کچھ کہنے سے پہلے اسد آفریدی کی بات ہوجائے۔

سید مختار باچا اور اسد آفریدی دونوں ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے‘ایک پارٹی کا مرکزی سیکریٹری تھا اور اسدآفریدی صوبائی سیکریٹری۔ دونوں بچپن کے دوست اور سیاسی و نظریات جدوجہد میں بھی ہمیشہ ساتھ رہے ‘جب باچا جی فوت ہوئے تودس روز بعد اسد آفریدی بھی چل بسے۔وہ قومی وطن پارٹی خیبرپختونخوا کے سینئر وائس چیئر مین تھے ۔

مختار باچا نے ساری عمر انقلابی سیاست کی ‘جب انقلاب پاکستان کے دروازے تک پہنچ گیا تو اچانک سوویت یونین تحلیل ہوا، یوں پورا عالمی سوشلسٹ بلاک بھی بکھر گیا، پاکستان میں ترقی پسند تحریک بھی اختتام کو پہنچ ،اس مایوسی کے دور میں سید مختار باچا جی نے ’’بکھرے موتی‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ جاری کیا۔ باچا جی کے اس آخری پیغام کے کچھ حصے نذر قارئین ہیں۔

انھوں نے لکھا ہے کہ میں ایک سیاسی کارکن رہا ہوں ‘کوئی دانشور نہیں‘معروضی مشاہدات پر مبنی تبصرہ کر سکتا ہوں، دوم یہ کہ خیبر پختونخوا سے باہر دوستوں سے رابطے بہت کم رہے‘اس لیے خیبر پختونخوا کو بنیاد بناکر لکھوں گا‘پیارے انجینئر جمیل ملک کا طنز قبول ہے۔

’’دو قطبی دنیا کے خاتمے کے بعد خیبر پختونخوا اور پاکستان میں بائیں بازو کے کارکن منتشر ہوگئے‘کشش ثقل(کمیونسٹ پارٹی) نہیں رہی اور یہ سیارچے فضاء میں اپنے مقام کی تلاش میں تا ہنوذ سرگردان ہیں‘وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ شکلیں (Formations) وجود میں آنے لگی ہیں‘لیکن سب منزل کے لیے دو ٹوک جواب کے منتظر ہیں‘ مسئلہ ایک فکری ہے اور دوسرا منتشر سیاسی ماحول میں اپنے مقام کا تعین۔ بہرحال جو مرکزے بنتے جا رہے ہیںجو اس وقت نشاندہی کے معیار پر اترتے ہیں۔ درج ذیل ہو سکتے ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی کے نام کے وارث ‘جوآج کے دور میں اپنے فکر کو توانائی دلانے کے لیے اسٹالنسٹ تشخیص پر زور دیتے ہیں ‘ان کا خیال ہے کہ ‘اسٹالن کے بعد سوشلسٹ تحریک موقع پرستی یا سازشوں کا شکار رہی‘ اس کو مضبوطی کے ساتھ دوبارہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔

اسٹالن عہدی کے بعد مارکسسٹ تحریک انحراف کا شکار ہوئی‘ورنہ یہ دن دیکھنا نہ پڑتے اور انقلاب ناکام نہ ہوتا‘انقلاب کو اصل شکل (بقول ان کے) میں برپا کرنے کی ضرورت ہے۔چوتھی انٹرنیشنل ‘لیون ٹراٹسکی کے پیرو کاروںکے مختلف گروپ جن میں لال خان کا گروپ زیادہ موثر ہے۔

عوام کو ساتھ جوڑے بغیر اور ان کی عمومی مانگوں کا ساتھ دیے بغیر پیش قدمی ناممکن ہے‘من چلوں کے خواہشات انقلاب نہیں لا سکتیں‘بورژوا جمہوریت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے‘چھوٹی چھوٹی پیش قدمیوں پر توجہ دینا ہوگی۔عوامی ورکرز پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی کا ایساہی موقف ہے۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوںسے نتائج حاصل کرنا‘سعی لاحاصل ہے‘ بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے سے ان کو مثبت رخ دیا جا سکتا ہے‘اے این پی اور قومی وطن پارٹی میں کچھ دوست اس طرح کی فکر رکھتے ہیں۔

بکھرے موتی کوئی شاعری نہیں ہے‘ خیبرپختونخوا میں یہ ہزاروں موتی ہیں ‘جن کا دور پہاڑوں پر بسیرا ہو یا صحرائوں ‘شہروں‘دیہاتوں کارخانوںیا کھیتوں میں‘ جب دس بیس سال بعد بھی ملیں گے‘ تو سیاسی سوچ و فکر کے ساتھ تر و تازہ ملیں گے‘ان کے ذہنوں میں بنیادی تضاد عموماً یکساں رہتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پشاور میں مختلف اضلاع کے دوستوں کا ‘(جو اب مختلف پارٹیوں میں ہیں) ‘کا ایک اجتماع ہوا تھا‘خطے کی صورت حال ‘طالبائزیشن کے مسئلے‘وجوہات اور خد و خال پر لائحہ عمل وغیرہ پر یکساں موقف تھا‘ میں نے ان دوستوں سے کہا کہ آپ انسانوں میں ایک الگ برادری، قبیلہ یا خیل اس لیے ہیں کہ لمبی ریاضت اور فکر نے آپ کو کندن بنا دیا ہے‘کبھی پستول سے فائر نہیں کیا ہوگا لیکن مورچوں پر چڑھائی کرتے رہے ہیں‘ بادشاہ اور نواب آپ کے سامنے ہیچ ہیں۔

قوم پر سختی آتی ہے یا مارشل لاء تو آپ اگلی صف میں ہوتے ہیں‘جب دوسرے نام نہاد سیاسی اکابرین چپ سادھ لیں تو آپ ہر آڑے وقت میں ہر محاذ پر مارکسی فکر کی تصدیق کرتے رہے‘کندن بنتے رہے۔ویسے تو سوسائٹی میں عالم فاضل بہت ہیں‘ کیمسٹری‘ فزکس‘ سوشل سائنسزمیں PHDہیں‘لیکن ان کا علم ایک رخ پر سفر کرتا ہے‘جب کہ آپ مارکسی اپروچ رکھتے ہیں ‘مجھے یقین ہے کہ کسی بھی صورت حال میں راستہ نکالنے کے اہل ہیں‘سالہا سال کی محنت اور فکر نے ان کو موتی بنا دیا ہے لیکن اب ان میں catalystکی صلاحیت نہیں رہی‘ شاگردوں کا تسلسل رک گیا ہے‘وارث نہیں چھوڑے ‘شرح نمو و مزید پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔

ساتھی صرف ‘پرانے ساتھیوںکے جنازوں تک محدود ہوگئے ہیں‘بکھرے نہ ہوتے تو آج بے پناہ طاقت بنتے‘(بعض ساتھیوں کی سازشوں کی وجہ سے) قومی انقلابی پارٹی نہ ٹوٹتی تو آج حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوتی‘قومی انقلابی پارٹی take offکی پوزیشن میں آگئی تو اس وقت دو قطبی دنیا کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہوا‘گورباچوف نے بیان دیا کہ”No to cold war”کولڈ وار تو دو نظاموں کے درمیان تھی ‘کولڈ وار نہیں تو دو قطبی دنیا بھی نہیں‘سوشلسٹ کیمپ نہیں۔میری رائے تھی کہ نئی کانگریس بلائی جائے‘اس تجویز کو دوستوں نے مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں رد کردیا۔

سویت یونین کے خاتمے پر مغربی پریس کا یکطرفہ پروپیگنڈہ جاری رہا لیکن بائیں بازو میں سنجیدہ مذاکرے نہیں ہوئے‘ ٹراٹسکائٹس کے علاوہ پاکستان کے بائیں بازو میں سوویت یونین کے ٹوٹنے پر چار قسم کی رائے بنتی ہے۔

سویت یونین کی قیادت منحرف ہوگئی ہے جو جلد یا بدیر پرانے موقف پر آجائے گی۔سی آر اسلم امام علی نازش وغیرہ کی سوچ۔ستر سال سوشلزم رہا‘انسانوں نے پہلے بھی تجربے کیے ہیں‘یہ بھی تجربہ تھاجو ناکام ہوا‘سرمایہ داری ہی واحد ترقی کا راستہ ہے۔پروفیسر جمال نقوی،افراسیاب خٹک کا خیال۔ستر سال سوشلزم رہا‘جس نے سرمایہ داری پر بھی اثر ڈالا‘اب دونوں نظام پرانے جیسے نہیں رہے‘دونوں کے اشتراک سے نیا نظام وجود میں آئے گا‘اسٹاک ایکسچینج کی نئی منصفانہ شکل وغیرہ ۔وغیرہ ۔

مارکسی نظریے کے تین اجزا ئے ترکیبی (قدر زائد‘طبقاتی جدوجہد ‘تاریخی و جدلیاتی مادیت ) کو فلسفیانہ طور پر کوئی چیلنج نہیں کر سکا کیونکہ اس حقیقت کا متبادل نہیں ۔سوشلزم نئے عصر میں نئی شکل میں آئے گا‘اس کے خد وخال ابھی سے متیعین کرنا ممکن نہیں‘ مستقبل بعید میں نئے حالات اور نئی اقدار سوشلزم کی شکل متعین کریںگے ‘مستقبل کے لیے تبدیلی کا پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔باچا جی کا باقی پروگرام انشاء اللہ آیندہ کبھی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں