12

اسرائیل اور امریکا کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس

[ad_1]

اعدادوشمار کی رو سے امریکا میں 76لاکھ یہود آباد ہیں۔یہ اسرائیل کے بعد یہود کی دوسری بڑی آبادی ہے۔تاہم امریکا کی مجموعی آبادی میں یہ حصہ صرف  2.4فیصد بنتا ہے جو معمولی ہے۔

مگر امریکا میں یہود بینکاری، صنعت وتجارت، کاروبار، میڈیا، سیاست، ملٹری، اسلحہ ساز کمپنیوں، عدلیہ، بیوروکریسی، سائنس و ٹیکنالوجی غرض زندگی کے ہر شعبے میں چھائے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے، دنیا کی اکلوتی سپرپاور کے حکمران طبقے پہ یہود کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے۔اسرائیل اور حماس کی حالیہ جنگ نے اسی حقیقت کو بڑی شدت سے نمایاں کر دیا۔

امریکی اسلحہ ہی کام آیا

سات ماہ قبل جنگ شروع ہوئی تو امریکی حکومت اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے لگی۔اس امریکی اسلحے نے ہزارہا فلسطینی بچے، خواتین اور بوڑھے شہید کر ڈالے۔امریکی سائنس دانوں نے ٹارگٹ کی تلاش کے لیے مصنوعی ذہانت پہ مبنی جو سافٹ وئیر ایجاد کیے تھے، اسرائیلی فوج نے کھل کر انھیں اہل غزہ پر آزمایا۔ جب ایرانی میزائیلوں نے اسرائیل پہ حملہ کیا، تو یہ امریکی اسلحہ ہی تھا جو انھیں روکنے میں کام آیا۔جب بھی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش ہوئی، امریکا نے اسے ویٹو کر دیا۔غرض امریکا کی ننگی حمایت ہی نے اسرائیل کو علاقائی غنڈہ اور بدمعاش بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

جنرل مارک ملی کی ’’شُرلی‘‘

امریکا کے حکمران طبقے میں یہود کے اثرورسوخ کا اندازہ اس امر سے لگایئے کہ امریکی افواج کے ایک سابق سربراہ (chairman of the Joint Chiefs of Staff )،جنرل مارک ملی نے غزہ میں اسرائیل کی دہشت گردی، وحشت اور ظلم وستم پہ پردہ ڈالنے کے لیے اپنی ہی فوج کو رگید ڈالا۔اس نے دنیا والوں پہ اپنی امریکی افواج کے مظالم کو بیان کیا تاکہ اہل غزہ پہ اسرائیل کے ظلم وستم کو درست ثابت کیا جا سکے۔ جنرل مارک کی باتوں نے سبھی حساس و باشعور امریکی باشندوں کو ششدر کر دیا۔

امریکی یہود کی کمپنی، گوگل کے ایک سابق سی ای او، ایرک شمیدت نے سپیشل کمپیٹیٹو سٹڈیز پروجیکٹ(Special Competitive Studies Project)نامی تنظیم بنا رکھی ہے۔ اس کا مشن یہ ہے: مصنوعی ذہانت اور دیگر ابھرتی عسکری ٹیکنالوجیوں کے بارے میں امریکی حکومت کو مشورے دینا تاکہ وہ ان کی مدد سے اپنا دفاع مضبوط بنا سکے اور اپنے معاشرے اور معیشت کو توانا رکھے۔اسی تنظیم کے ایک اجلاس میں مارک ملی شریک تھا۔ اجلاس میں جنرل مارک نے کہا:

’’ مجھے غزہ میں بے گناہ لوگوں کے مرنے پر صدمہ ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم (امریکی فوجیوں )نے موصل و رقہ (عراق) میں بہت سے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا۔ اسی طرح امریکا نے 12000 بے گناہ فرانسیسی شہریوں کو قتل کیا۔ ہم نارمنڈی پہ حملے کی اسّی ویں سالگرہ منا رہے ہیں مگر یہ مت بھولیں کہ ہم نے نارمنڈی پہ بم باری کر کے اسے تباہ وبرباد کر دیا تھا۔ ۔ ہم نے ہیروشیما اور ناگاساکی سمیت 69 جاپانی شہروں کو تباہ کیا۔ ہم نے بڑی تعداد میں لوگوں کو، مرد، عورتیں اور بچے ذبح کیے…بے گناہ لوگ جن کا اپنی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جنگ ایک خوفناک چیز ہے۔ لیکن اگر اس کا کوئی معنی ہے، اگر اس میں اخلاقیات کا کوئی احساس ہونا ہے، تو اس کا ایک سیاسی مقصد ہونا چاہیے۔ اور یہ مقصد کم سے کم لاگت کے ساتھ تیزی سے حاصل کیا جانا چاہیے۔‘‘

اسرائیل کے ظلم وستم جائز

اجلاس میں امریکی افواج کے اعلی افسر موجود تھے اور انھوں نے جنرل مارک کے درج بالا بیان پر زور دار تالیاں بجائیں۔یوں انھوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ وہ بھی جنرل کی باتوں سے متفق ہیں۔جب عراق،افغانستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں امریکی فوجی مسلمانوں کو شہید کر رہے تھے تو امریکا کے جنرلوں نے درج بالا استدلال پیش نہیں کیا تھا کیونکہ ایسی صورت میں وہ سزا کے مستحق پا جاتے۔لیکن اب اسرائیل کے ظلم وستم کو جائز قرار دینے کی خاطر انھوں نے یہ استدلال پیش کر دیا کہ امریکاکا دفاع کرتے ہوئے امریکی افواج نے بھی ماضی میں بے گناہوں کا قتل عام کیا ہے اور وحشت و درندگی کا مظاہرہ کیا۔

جینوا کنونشن

امریکا کے جرنیل درج بالا دلیل پیش کرتے ہوئے بھول گئے کہ خوفناک اور تباہ کن دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949ء میں جینوا کنونشن منعقد ہوئے تھے۔ انہی میں یہ طے پایا تھا کہ شہری آبادی کو جنگ کی آفتوں سے محفوظ رکھنا ہر ملک کی بنیادی ذمے داری ہے۔ امریکا نے مگر اس قانون کو کئی بار پیروں تلے روند ڈالا۔اور اسرائیل بھی اپنے آقا کے نقش قدم پر کاربند رہتا ہے۔اس خلاف ورزی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ نئی جنگ ہمیشہ معاشی و مالیاتی لحاظ سے امریکا ، یہود اور اسرائیل کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے۔

نئی جنگیں ظہور پذیر ہوں

امریکا اور اسرائیل میں شعبہ عسکریات باقاعدہ صنعتی کمپلیکس بن چکا جس کی مجموعی مالیت کئی ٹریلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔یہ عسکری صنعتی کمپلیکس لاکھوں امریکیوں اور اسرائیلوں کو روزگار مہیا کرتا ہے۔اسی صنعتی کمپلیکس کی بدولت کئی صنعتیں اور کاروبار رواں دواں ہیں ۔یہ کھربوں ڈالر کو گردش میں بھی رکھتا ہے۔اس لیے عسکری صنعتی کمپلیکس سے وابستہ سبھی بااثر شخصیات کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ نئی جنگیں ظہور پذیر ہوں تاکہ ان کے دھندے کا پہیہ بھی چلتا رہے اور وہ ڈالر کما کر اپنی تجوریاں بھرتی رہیں۔ لالچ وہوس کا طوفان ہے جس نے انھیں گھیر کر ان سے ساری اخلاقیات چوس لی۔

جب غزہ میں جنگ شروع ہوئی تو امریکی اخبارات نے یہ سرخی لگائی:”مشرق وسطی کی جنگ ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ کردے گی۔” غزہ، یوکرین اوردیگر تنازعات بے پناہ انسانی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں، لیکن انھوں نے اسلحہ ساز کمپنیوں کی چاندی کر ڈالی۔ ایک وقت تھا جب ہتھیاروں کے فروخت کنندہ “موت کے سوداگر” یا “جنگی منافع خور” کہلاتے تھے مگر اب یہود نواز امریکی میڈیا نے اس عمل کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

قاتل مددگار بن گئے

اب امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے پھیلاؤ میں حکومتوں کی مددگار دکھایا جاتا ہے۔یہ یاد رہے، امریکی ہتھیاروں کی صنعت پہلے سے ہی حیران کن انداز میں بین الاقوامی مارکیٹ پر حاوی ہے۔ عالمی سطح پر خریدا جانے والا 45 فیصد اسلحہ امریکی ساختہ ہوتا ہے۔ اسرائیل-حماس اور روس-یوکرین جنگوں کے بارے میں اپنے قومی ٹیلی ویژن خطاب میں امریکی صدر بائیڈن نے اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کو کچھ یوں چمکدار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:

’’ دوسری جنگ عظیم کی طرح آج بھی محب وطن امریکی کارکن جمہوریت کو فروغ دینے والے ہتھیار بنا رہے ہیں۔ان کا مقصد آزادی کی خدمت کرنا ہے۔”

اس طرح امریکی صدر نے بڑی چالاکی سے ایسے تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں ملوث کارکنوں کی تعریف وتوصیف پر توجہ مرکوز کر دی جو غزہ اور یوکرین میں نہتے اور معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کو بے رحمی سے موت کی نیند سلا رہے ہیں۔ان جنگوں سے صرف اسلحہ ساز کمپنیوں کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔ان کے اعلی افسر بونس میں کروڑوں ڈالر کماتے ہیں۔ جبکہ کمپنیوں کے شئیرز کی مالیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اکثر اسلحہ ساز کمپنیوں کے اعلی افسر کک بیکس اور کمیشنوں کے ذریعے بھی کروڑوں ڈالر کماتے ہیں۔ جنرل مارک ملی نے درست کہا کہ جنگ بڑی خوفناک شے ہے…مگر صرف کمزور ممالک کے شہریوں کے لیے، امریکا ، اسرائیل اور دیگر یورپی ملکوں کی حکومتیں اور اسلحہ ساز کمپنیاں تو جنگوں سے خوب فوائد سمیٹتی ہیں۔

معیشت کو فوائد ملے

صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں یہ نکتہ بھی واضح کیا کہ اسلحے کی فروخت سے امریکی معیشت کو فوائد ملتے ہیں:’’ہم اپنے ذخیرے میں موجود اسلحہ یوکرین بھیجتے ہیں۔ اور جب ہم کانگریس کی طرف سے مختص کردہ رقم کا استعمال کریں، تو ہم اپنے اسٹوروں، اپنے ذخیروں کو نئے اسلحے سے بھر لیتے ہیں۔ یہ وہ سامان ہے جو امریکہ کا دفاع کرتا ہے اور امریکہ میں بنایا گیا ہے۔ ایریزونا میں فضائی دفاعی بیٹریوں کے لیے پیٹریاٹ میزائل بنتے ہیں۔۔ پینسلوینیا، اوہائیو، ٹیکساس سمیت ملک بھر کی بارہ ریاستوں میں توپ خانے کے گولے تیار کیے جاتے ہیں اور بہت کچھ۔”

مختصراً یہ کہ امریکا میں ملٹری صنعتی کمپلیکس عروج پر ہے۔اس کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے اور واشنگٹن میں اعلیٰ سیاسی قیادت کی طرف سے اسے تعریفیں مل رہی ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ ملٹری صنعتی کمپلیکس حقیقت میں جمہوریت کی شہ رگ ہے؟ یا یہ ایک ایسا غیر اخلاقی ادارہ ہے جو اپنی مصنوعات کسی بھی حکومت کو بیچنے کے لیے تیار ہے، چاہے وہ ظالم وجابر ہو، ڈکٹیٹر ہو یا استبدادی !

لیہی قانون

امریکا کی پارلیمنٹ نے 1997ء میں ’’لیہی قانون‘‘ (Leahy law)منظور کیا تھا۔ اس کے ذریعے قرار پایا کہ جو ملک جنگی جرائم میں مرتکب پایا گیا، اسے امریکی اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔ امریکا میں یہود کے زبردست اثرورسوخ کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اسرائیل پہ کبھی ’’لیہی قانون‘‘کا اطلاق نہیں ہوا حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ بے گناہ اہل فلسطین کے قتل عام میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز ملوث ہیں اور اس دوران امریکی اسلحہ استعمال کرتی ہیں۔ اگر امریکی حکومت دیانت داری اور حق گوئی سے کام لے تو اسے فوراً اعلان کر دینا چاہیے کہ امریکی اسلحہ اسرائیل کو فروخت نہیں کیا جائے گا۔لیکن عملی طور پہ ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔اسرائیل نے پورا غزہ تباہ کر دیا مگر انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام لیوا امریکی حکمران طبقے کے ضمیر نے انگڑائی تک نہ لی۔

’’لیہی قانون‘‘امریکی وکیل ٹم رائزر (Tim Rieser)نے تیار کیا تھا۔وہ سینٹر پیٹرک لیہی کے نائب تھے جنھوں نے یہ قانون برائے منظوری امریکی پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔وہ کہتے ہیں:’’ اس قانون کی طویل تاریخ میں یہ اسرائیل پر کبھی لاگو نہیں ہوا۔ پھر بھی امریکی حکومت کا اصرار ہے کہ اس کا اطلاق پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہوتیں جب قانون کا اطلاق اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) پر کیا جاتا۔‘‘

امریکی یونیورسٹیوں میں پولیس گردی

حقیقت یہ ہے کہ امریکا 1947ء سے اسرائیل کا پشتی بان بنا ہوا ہے۔وہ ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دیتا ہے۔ امریکی و اسرائیلی سائنس دان و موجد مل کر جدید ترین ہتھیار بنانے کے لیے تجربات وتحقیق کرتے ہیں۔حال ہی امریکی طلبہ وطالبات نے یونیورسٹیوں میں اہل فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے تو انھیں پولیس گردی کے ذریعے خاموش کر دیا گیا۔وجہ یہ ہے کہ امریکا کی سبھی یونیورسٹیوں کو یہود ہر سال بھاری چندے دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے مفادات پورے کرنے والے کام کرتی رہیں۔

 15 ارب ڈالر کا اسلحہ

صدر جو بائیڈن نے ماہ مئی میں بیان دیا کہ اسرائیل نے رفح پہ حملہ کیا تو اسے بعض ہتھیار نہیں دئیے جائیں گے۔اس بیان سے دنیا والوں کو گمراہ کرنا مقصود تھا۔ اندرون خانہ امریکی حکمران طبقہ اسرائیل کو حملے کی اجازت دے چکا تھا۔اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ جب اسرائیلی فوج غزہ میں بے دردی سے فلسطینی بچوں و خواتین کو شہید کر رہے تھے، امریکی پارلیمنٹ نے 15 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ اور مختلف جنگی سازوسامان اسرائیل کو فراہم کرنے کی منظوری دے دی۔اگر امریکی حکومت جنگ بندی کی حامی ہوتی تو کبھی اسرائیل کو مزید اسلحہ فراہم نہ کرتی۔

امریکا کے فراہم کردہ پندرہ ارب ڈالر سے اسرائیلی افواج اپنی آرٹلری (توپ خانے ) کو بہتر بنائیں گی۔ دفاعی نظام مضبوط بنایا جائے گا۔ اس پیکج میں اسرائیل کے “آئرن بیم” لیزر ہتھیار کے لیے 1۔2 بلین ڈالر بھی شامل ہیں، جو فضائی دفاع کے لیے ممکنہ ہدایت شدہ توانائی کا نظام ہے۔ایک بار آپریشنل ہونے کے بعد آئرن بیم کا نظام اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں میں انقلاب لے آئے گا۔ یوں غزہ میں جاری بحران اور مشرق وسطیٰ میں پہلے سے بڑھتے ہوئے تناؤ میں شدت آ جائے گی۔

آئرن بیم کیا ہے؟

یہ اسرائیل کے “آئرن ڈوم” میزائل ڈیفنس سسٹم کا ایک ممکنہ جانشین ہے جو اسرائیل کی سرحدوں کے اندر آنے والے میزائیلوں ، ڈرون اور جنگی طیاروں وغیرہ جیسے خطرات کو روکنے اور مار گرانے کے لیے میزائل لانچ کرتا ہے۔ آئرن بیم ایک ڈائریکٹڈ انرجی سسٹم ہے جو فائبر لیزر کے ذریعے آنے والے پروجیکٹائل کو بے اثر کرتا یا مار گراتا ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ آئرن ڈوم آنے والے 90 فیصد خطرات ختم کر دیتا ہے، لیکن سسٹم کی کمزوری اس کے زیادہ اخراجات ہیں۔اس نظام کے ایک ہی انٹرسیپٹر میزائل کی قیمت تقریباً 50 ہزار ڈالر ہے۔ اس کے برعکس آئرن بیم مہنگے میزائیلوں اور توپ خانے کے بغیر کہیں سستے انداز میں اسی طرح کے نتائج پیدا کرے گی۔ لیزر شعاع مکمل طور پر بجلی سے پیدا ہوتی ہے۔یہ لیزر بیم ٹینک، راکٹ، ڈرون اور دیگر اہداف کو تجربات میں تباہ کر چکی۔

“آئرن بیم ایک گیم چینجر ہے کیونکہ ہم نہ صرف دشمن پر فوجی حملہ کر سکتے ہیں بلکہ اسے معاشی طور پر بھی کمزور کر سکتے ہیں۔”یہ بیان اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے 2022 ء میں دیا تھا۔ ’’وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے مخالفین لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے میزائیل اور ڈرون بنا رہے ہیں ۔ جبکہ ہم آئرن بیم کی مدد سے صرف دو ڈالر خرچ کر کے ایک میزائیل ، ڈرون یا راکٹ مار گرائیں گے۔لیزر شعاع کو جنم دینے والی بجلی پہ اتنا ہی خرچہ آئے گا۔‘‘

خراب موسم اگرچہ آئرن بیم نظام کی تاثیر ختم کر سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ آئرن بیم کو ممکنہ طور پر جامع فضائی دفاع کے لیے آئرن ڈوم سسٹم کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے گا۔لیزر شعاعیں خارج کرنے والے ہتھیار عسکری اصطلاح میں ’’ڈائریکٹڈ انرجی ویپنز‘‘(DEWs) کہلاتے ہیں۔یہ ہتھیار لیزر شعاعیں، ہائی پاور مائیکرو ویوز یا پارٹیکل بیم خارج کر کے دشمن کے اسلحے کو نشانہ بناتے ہیں۔

ان کی صلاحیتوں سے آگاہ متعدد ممالک ڈائریکٹڈ انرجی ویپنز تیار کر رہے ہیں۔ برطانیہ نے حال ہی میں “ڈریگن فائر” لیزر ہتھیار کا تجربہ کیا ہے جو مبینہ طور پر ایک کلومیٹر دور سے سّکے تک کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور روس کا ’’پیریسویٹ‘‘ (Peresvet) لیزر سسٹم سیٹلائٹ جیسے اونچا اڑنے والے خلائی جہاز کو غیر فعال یا “اندھا” کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔امریکا لیزر اور ملحقہ ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیار تیار کرنے کے لیے سالانہ تقریباً 1 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ مگر یہ ہتھیار دنیا میں خوفناک تباہی پھیلانے والی نت نئی جنگیں جنم دینے کا سبب بھی بن جائیں گے۔

انسانی حقوق کی قراردادیں مسترد

دنیا کی دس سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے پانچ امریکا کی ہیںیعنی لاک ہیڈ مارٹن، آر ٹی ایکس کارپوریشن، نارتھروپ گرمن، بوئنگ اور جنرل ڈانامکس۔ان کمپنیوں میں دنیا بھر کے سرمایہ کار پیسہ لگاتے ہیں۔ ان میں اٹلی کی ایک عیسائی مذہبی تنظیم، اسکول سسٹرز آف نوٹرے ڈیم (School Sisters of Notre Dame Cooperative fund) بھی شامل ہے ۔

لیفٹسٹ امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ حالیہ2 مئی کو آر ٹی ایکس کارپوریشن کی سالانہ میٹنگ ہوئی۔اس میں درج بالا مذہبی تنظیم نے یہ قرارداد پیش کی کہ کمپنی کو اپنا اسلحہ ان ممالک کو فروخت نہیں کرنا چاہیے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ قرارداد غزہ میں جاری اسرائیلی قتل عام سے متاثر ہو کر پیش کی گئی تھی۔اس کو مگر اجلاس میں صرف ساڑھے پانچ فیصد ووٹ ملے اور یوں وہ مسترد ہو گئی۔ لاک ہیڈ مارٹن کے سالانہ اجلاس میں بھی بیشتر شئیرز ہولڈرز نے اس سے ملتی جلتی قرارداد مسترد کر دی تھی۔

واحد منافع

یہ واقعات دنیا والوں کے سامنے یہ سچائی لاتے ہیں کہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے بیشتر شئیرز ہولڈرز کو جمہوریت، انسانی حقوق اور اخلاقیات سے کوئی غرض نہیں، ان کی واحد دلچسپی یہ ہے کہ کمپنی کے منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوتا رہے، چاہے اس اضافے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، جمہوریت کا قتل اور اخلاقیات کی پامالی وابستہ ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے نامی گرامی سرمایہ کار ظاہر میں جمہوریت، انسانی حقوق اور اخلاقیات کا دم بھرتے ہیں۔

مثال کے طور پہ مثال کے طور پر اسٹیٹ اسٹریٹ(State Street Corporation) لاک ہیڈ مارٹن میں 16 بلین ڈالر سے زیادہ شیٔرز کے ساتھ سب سے بڑی سرمایہ کار ہے۔ اس کی پالیسی کے مطابق ’’کمپنی انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی حمایت کرتی ہے، جیسے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں اپنائے گئے اصول”۔

اسٹیٹ اسٹریٹ کا کہنا ہے کہ اس کی پالیسیاں “ہماری مصنوعات اور خدمات کے غیر قانونی استعمال کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہیں، بشمول وہ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتی ہیں۔”کیپٹل گروپ (Capital Group)بھی جس کے پاس آر ٹی ایکس کے کم از کم 13 بلین ڈالر کے حصص ہیں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیہ کی توثیق کرتا ہے۔وہ ان افراد و ممالک کے لیے “اعلی سطح کی جانچ” کا دعویٰ کرتا ہے جو اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

اسرائیل کی وحشیانہ مہم

تاہم جن دفاعی کمپنیوں میں یہ فنانسرز سرمایہ کاری کرتے ہیں، انھوں نے غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ مہم کو فعال کرنے میں مدد کی ہے اور جسے بین الاقوامی عدالت انصاف نے تجویز کیا ہے کہ وہ (اہل فلسطین کی ) نسل کشی ہو سکتی ہے۔ آر ٹی ایکس اسرائیلی فوج کو ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور کلسٹر بم فراہم کرتا ہے۔ نیز F-15 اور F-16 لڑاکا طیاروں کے انجن تیار کرتا ہے جو غزہ پر بمباری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

لاک ہیڈ مارٹن اسرائیل کو ہیل فائر میزائل اور F-16 اور F-35 لڑاکا طیارے فراہم کرتا ہے جو غزہ پر بمباری کے لیے استعمال ہوئے۔ لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ میزائلوں کی تصدیق کی گئی تھی کہ وہ گزشتہ سال 9 نومبر کو غزہ شہر کے شفا ہسپتال کے قریب صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کی سالانہ میٹنگ میں، جو 2 مئی کو ہی منعقد ہوئی، سی ای او جیمز ٹیکلیٹ نے کہا کہ کمپنی اس سال اسرائیل کو بیس F-16 اور کم از کم پچھتر F-35 فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ،ہیومن رائٹس واچ اور آکسفیم نے نوٹ کیا ہے “اسرائیلی حکام نے 7 اکتوبر کو حماس کی قیادت میں اسرائیل میں ہونے والے حملوں کے بعد بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہل غزہ پہ اندھا دھند اور غیر متناسب حملے کیے ہیں، بشمول اجتماعی سزائیں دینا اور شہریوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنا۔‘‘ یہ سب پوری دنیا کے عوام کے علم میں ہے، اس کے باوجود اسٹیٹ اسٹریٹ اور کیپٹل گروپ جیسی کمپنیاں اسلحہ ساز کمپنیوں میں سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کیسا وقت آن پہنچا ہے کہ مادی خواہشات کے سامنے اخلاقیات ، قوانین اور مذہبی تعلیمات ، سبھی مٹی میں ملتی دکھائی دیتی ہیں!



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں