[ad_1]
کراچی: مختار صدیقی شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہوئے، ویسے نثر بھی تنقیدی لکھا کرتے تھے۔ اُن کا ایک شعر زباں زَدِ خاص وعام ہے اور ہر عہد کے لیے ضرب المثل بھی:
نُکتہ وَروں نے ہم کوسُجھایا، خاص بنو اور عام رہو
محفل محفل صحبت رکھو، دنیا میں گُم نام رہو
اس شعر کا مصداق کوئی اور ہونہ ہو، اپنی پیاری زبان اردو ضرور ہے جو اَپنی خصوصیات کے سبب، خاص ہوکر بھی عام نظر آتی ہے۔ کیوں دَنگ رہ گئے نا آپ؟ جناب! اس زبان میں الف سے اِطالوی[Italian]، انگریزی اورآسامی(نیز الف سے شروع ہونے والی متعدد زبانوں سے مشترک الفاظ)، بے سے بنگلہ،بلوچی،براہوئی (نیز بروشسکی اور بلتی جیسی متعدد ’ب‘ والی زبانوں سے مشترک الفاظ)، پے سے پُرتگیز (پرتگالی غلط ہے)پہاڑی اور پوٹھوہاری، پشتو اور پنجابی، تے سے تُرکی،تَمِل اور تیلگو، جیم سے جرمن (فارسی نام: المانوی)، چے سے چینی (Mandarin)حے سے حبشی (یعنی قدیم ترینEthiopian زبان،Ge’ezجس کے الفاظ قرآنی عربی میں بھی شامل ہیں اور جو سامی زبانوں بشمول سُریانی[Syriac]،عبرانی اور عربی کی بہن ہے)*، دال سے دراوَڑ (مختلف زبانوں کی ماخذ)، ڈال سے ڈچ (ولندیزی)اور ڈوگری، رے سے رُوسی، سین سے سنسکِرِت، سندھی اور سرائیکی(نیز سواحلی سمیت متعدد ’س‘ والی زبانوں سے مشترک الفاظ)، عین سے عربی و عبرانی، فے سے فارسی وفرینچ (فرانسیسی غلط ہے;فرانس سے فرانسوی یا فرانسی کہنا چاہیے)، کاف سے کشمیری، گاف سے گجراتی اور گوجری، لام سے لاطینی، میم سے مرہٹی، مارواڑی، ملیالَم اور منگول، نون سے نارویئن (نارویجیئن کہنا غلط ہے کیونکہ حرف Gکا تلفظ یہاں ’ی‘ کے مترادف ہے)، ہے سے ہندی، ہندکو اور ہِسپانوی(Spanish)اور دنیا کی کئی غیرمعروف زبانوں سے مستعار الفاظ کا ذخیرہ موجودہے،ایسی تمام زبانوں کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہوگی،جبکہ اردو میں مستعمل بے شمار الفاظ دنیا کی متعددایسی زبانوں اور بولیوں میں موجودہیں جن کے نام بھی ہمارے لیے نامانوس ہیں۔
* [Ge’ez, or Classical Ethiopic, is one of the ancient world’s major literary languages, with two millennia of history in the Horn of Africa and Arabia. The language appears in many ancient inscriptions and in Jewish and Christian writings, even shaping the language of the Qur’an and early Muslim religious texts.20-Sept-2021: https://classics.princeton.edu/department/news/princeton-teaches-geez-first-time]
اردومیں آئینہ فارسی سے آیا (اَن گنت دیگر الفاظ کے علاوہ)، اسلام عربی سے (اَن گنت دیگر الفاظ کے علاوہ)، بنگلہ (جھونپڑی یا مکان) اور ہاٹ (بازار، دکان) بنگلہ (نیز ہندی) سے،انناس، بالٹی، بٹن، پپیتا،پادری، کمرا (آخر میں ’ہ‘ کا استعمال غلط ہے) اور نیلام پُرتگِیز سے (سنسکرت اور پہلوی کے پاتر سے فارسی میں پدر، لاطینی میں پاتر، یونانی میں پاتیر، ہسپانوی میں پادر، فرینچ میں پیغ، جرمن کا فائر اور آخرش،انگریزی کا فادربنا)،ترکی سے بیگ (اصل بیغ) اور بیگم (اصل بے غُم)، تلاش، خاتون، قینچی (اور ایسے کئی الفاظ جن کے آخرمیں ’چی‘ یعنی والا آتاہے جیسے بندوقچی،توپچی وغیرہ) اردومیں آئے۔
اسی طرح ہم نے نئے الفاظ ازقسمے افیمچی (افیون +چی) اور ہیروئنچی (ہیروئن نشہ +چی) بنائے، سنسکرت اور ہندی سے بے شمار الفاظ اپنائے، فرینچ سے بسکٹ (اصل تلفظ بِس کوئےِت)، پتلون (اصل پون تالوں)، جیسے متعددالفاظ،کشمیری سے منٹو، سندھی (یا قدیم پنجابی) سے پنگا، پوپٹ (نیز ہندی وگجراتی)، چریا (پاگل) لیے، مرہٹی سے جُگاڑ،گجراتی سے جُونا (پُرانا)، جِینا (دبلا پتلا،لمبا: جسے غلطی سے جناح یعنی عربی لفظ بمعنی بازوبنادیاگیا)، موٹا بمعنی بڑا (جیسے چھوٹا موٹا کام)، پنجابی سے بھمبیری(ٹڈی)اور چِٹّا (جیسے گورا چِٹّا))سمیت بے شمار الفاظ،انگریزی سے متعددالفاظ جیسے ہاسپٹل یعنی اسپتال، ٹائم، ٹریفک، مِسکاٹ، فَروَٹ (فارورڈ)، جام (جیسے ٹریفک جام) اور کھانے والا جام (مربّہ چٹنی والاجام)، کاپی، کالج، اسکول، یونیورسٹی، چَیٹ، ڈیلیٹ، اپلوڈ، ڈاؤنلوڈ وغیرہ بھی مستعار لیے۔
یہی نہیں،بلکہ اُردو سے دنیا کی کئی زبانوں نے براہ راست استفادہ کیا۔فارسی لفظ پائجامہ اردومیں کثرتِ استعمال کے بعد پاجامہ او رپیجامہ بنا تو فرینچ میں جا کر پی ژاما ہوگیا،انگریزی میں اُدھار لیاگیا تو پاجاماز (فرینچ میں آخری Sساکن)اور برطانوی وامریکی انگریزی میں ڈھیلے ڈھالے ٹراؤزر کو پاجاماز ہی کہاجاتا ہے، مگر ہمارے یہاں لوگ خصوصاً خواتین ’ٹراؤزر‘ کہنا پسندکرتی ہیں۔اردومیں رائج عربی لفظ قمیص (قمیض) فرینچ میں جاکر شیمیز ہوگیا اور واپس اردومیں آیا تو ہلکی زنانہ قمیض یا زیرجامہ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ہندی لفظ چالان،اردو کی بدولت انگریزی میں رائج ہوگیا،ہمارے خطے میں ابھی تک اسے انگریزی سمجھاجاتا ہے۔ہندی کاڈاکا اور ڈکیتی، انگریزی میں ڈے کوئیٹی،نیز ڈاکو۔یا۔ڈکیت سے انگریزی میں ڈے کوئیٹ بن گیا۔
اردو کا چوکیدار اور بازار ہردوطرح کی انگریزی میں جُوں کا تُوں مستعمل ہے، مگر پاکستانی اور ہندوستانی انگریز ’واچ مین‘ کہنا پسندکرتے ہیں۔لفظ ’خاکی‘ فرینچ میں بھی خاکی ہے، مگر وہاں اسے ’کاکی‘ کہاجاتاہے۔لطیفہ نذرِ قارئین کرتاہوں۔خاکسار فرینچ زبان کا کورس کررہاتھا۔جب ایک سبق میں یہ لفظ’کاکی‘ آیا اور اس کی وضاحت کی گئی کہ یہ اپنا خاکی ہی ہے توکلاس میں موجود،(لڑکی کو ’کاکی‘ کہنے والے) پنجابی حضرات ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ویسے انگریزی میں بھی خاکی کو خاکی ہی کہتے ہیں، ا لبتہ ہمارے دیسی انگریز ” مَڈی براؤن“ یا ”ےَلو براؤ ن“کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔بات کی بات ہے کہ قدیم اردو اور پنجابی میں کاک سے مراد،کیک سے مماثل روٹی تھی جس کی نسبت سے خواجہ قطب ا لدین بختیارکاکی (رحمۃ اللہ علیہ) مشہور ہوئے۔
لسانی لطائف اور عجائب کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ہمارے یہاں بزرگ،لڑکی کہہ کر بیٹی مراد لیتے ہیں تو فرینچ میں بھی ان دونوں کے لیے ایک ہی لفظ ’فِی‘ بولاجاتا ہے۔عربی میں ’فی‘ کہیں تو اس کا مطلب ہے، ’میں‘ جیسے فی امان اللہ (اللہ کی امان میں)، مگر اردومیں ’فی‘ عدد کے معنیٰ دیتا ہے جیسے فطرے کی رقم فی کس اتنی وغیرہ۔اردومیں پوتی کا مطلب ہے بیٹے کی بیٹی، مگر فرینچ میں پوتی کا مطلب ہے چھوٹا۔اردومیں دادا کہتے ہیں باپ کے باپ کو، بنگلہ میں بھائی کو دادا کہتے ہیں (مختصراً دا)، مگر مرہٹی میں بدمعاش اپنے کسی بڑے کو اِسی نام سے مخاطب کرتے ہیں، خیر سے بمبئی سے یہ دادا اور ’بھائی‘ بمعنی بدمعاش کراچی بھی آگیا۔ماموں جیسے مقدس رشتے کو ہندوستانی فلم ”مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ دیکھنے والوں نے ’بے وقوف کے معنوں میں برتنا شروع کردیا ہے۔
یادرکھیں کہ اردومیں آنے والا ہرزبان کا لفظ،اردو ہی کا ہوجاتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے کسی بھی قوم کا کوئی شخص، دائرہ اسلام میں داخل ہوکر ایک اُمت یعنی امت مُسلمہ کا فرد بن جاتا ہے۔یوں ہرکسی کو گلے لگالینا بھی اردوہی کا وَتِیرا ہے (وطیرہ غلط ہے)۔زبانوں کا اشتراک،آپس میں ربط اور بقدرِ ضرورت ذخیرہ الفاظ سے مددلینا ہردورکا تقاضا رہا، مگر کسی زبان کو دوسری پر یوں مسلط کرناکہ پہلی کی ماہیئت ہی بدل جائے، سراسر ظلم،جہالت اور نادانی ہے جو اِن دنوں ہمارے یہاں رائج ہے۔
اردومیں طویل بحر،درمیانی بحر اور مختصر بحر کی شاعری کی طرح نثر، نیز بول چال کی زبان میں جامعیت واختصار ممکن ہے۔یہ وہ نُکتہ ہے جو اَچھے اچھے پڑھے لکھے بھی نظراَنداز کردیتے ہیں۔معترضین کہتے ہیں کہ اردومیں مختصر گفتگو کے طریقے موجودنہیں، اچھا؟ یہ مثال دیکھیے:
پہلا آدمی: کیا حال ہے؟
دوسرا آدمی: ٹھیک ٹھاک!
پہلا آدمی: او ر سب خیریت؟ (یا صرف خیریت؟)
دوسراآدمی: شکرہے اللہ کا (یا الحمدللہ)
تیسرا آدمی: کیسے مزاج ہیں؟ (یا مزاج شریف؟ مزا ج گرامی)
چوتھا آدمی: آپ کی دعا ہے۔یا۔آپ کی دعا چاہیے۔یا۔دعاچاہیے۔یا۔دعا!۔یا الحمدللہ۔
پانچوا ں آدمی: (فُلاں) گیا؟
چھٹا آدمی: (جی ہاں /ہاں) گیا!
ساتواں آدمی: آؤں؟
آٹھواں آدمی: آجاؤ!
کہیے کیا خیال ہے، ”ہائے بائے کلچر“ میں اتنی مختصر بامعنی گفتگو ممکن ہے؟
اردو بول چال سیکھنا اکثر غیرملکیوں کے لیے سہل ہے۔اس کا ثبوت چینی،جاپانی،کورین اور فرینچ جیسی مشکل زبانیں بولنے والوں کی اُردودانی،نیز نثر و نظم نگاری ہے۔ہرچند کہ اس سلسلہ مضامین میں مختلف مواقع پر ایسے محبان ِ اردوکا ذکر ہوچکا ہے، مگر موضوع کی ہمہ گیری واضح کرنے کو ضروری ہے کہ یہ باتیں قدرے وضاحت سے دُہرائی جائیں۔
’زباں فہمی‘ کے مستقل قارئین کرام جانتے ہیں کہ چین میں سب سے بزرگ، صاحبِ کتاب(مجموعہ کلام ’گُل بانگِ وفا)، اُردو شاعر جناب اِنتخاب عالم (چانگ شی شوانگZhang Shixuan) سے میرے دیرینہ ادبی مراسم ہیں۔اُن کا قلمی تعاون اور مسلسل رابطہ میرے دوسرے کثیر لسانی ادبی جریدے’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider]کے لیے باع ثِ تقویت رہا۔موصوف کلّیات ِ فیض ؔ (نسخہ ہائے وفا)کا چینی میں ترجمہ کرچکے ہیں۔اُن کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
خیالِ ذات کی فرصت کہاں کہ ہم عالمؔ
کسی کا ذکر سحر تا بہ شام کرتے ہیں
(بعض جگہ تخلص عالمؔ بھی استعمال کرتے ہیں)
جاپان میں اردو ادب کی خدمت کرنے والے جاپانیوں کے اسماء بھی ہمارے یہاں جانے پہچانے ہیں۔پروفیسر محمد رئیس علوی مرحوم کی کتاب ”جاپانی اردو بول چال“ کے شریک مرتب،آنجہانی تاکیشی سوزوکی[Takeshi Suzuki] (1932تا14جنوری 2005) نے جامعہ کراچی سے حکومت پاکستان کے سرکاری وظیفے پر اُردو کی تعلیم حاصل کرکے جاپان میں تدریسی و ادبی خدمات انجام دیں۔اُنھیں وطن عزیز کا اعلیٰ شہری اعزاز ’ستارہ امتیاز‘ عطا کیا گیا۔
سوزوکی صاحب کی یاد میں رئیس علوی مرحوم نے خاکسار کے کثیر لسانی ادبی جریدے ہائیکو انٹرنیشنل کے لیے مضمون تحریر کیا تھا۔ سوزوکی صاحب کے شاگر د اور اُنہی کی طر ح اردو کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر، پروفیسرہِیروجی کتاؤکا] [Hiroji Kataokaسے کراچی میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا، انھیں بھی حکومت ِ پاکستان نے ’ستارہ امتیاز‘ مرحمت کیا۔اسی طرح ایک اور فاضل محقق جناب یوتاکا اسادا[Yutaka Asada]سے ملاقات کا موقع بھی کراچی ہی میں ملا۔ان کے علاوہ جاپانی سفارت کاروں کی اچھی خاصی تعداد اردو میں گفتگو اور شاعری کرتی رہی ہے۔
اس وقت بھی کراچی کے کونسلیٹ سے منسلک ایک جواں سال پی ایچ ڈی سفارت کار، اردومیں ہائیکو کہتے ہیں۔خاکسارکو ایسے تمام حضرات سے متواترملاقات اور اپنے ادبی جرائد پیش کرنے کا موقع ملا۔
کوریا میں اردو کم ہے، مگر اس بابت بھی ہمیں ہی توجہ کرنی ہوگی۔ماضی میں ایک کورین ادیب نے ماہنامہ قومی زبان میں کورین اور اردو کے مابین تعلق کے موضوع پر اظہار خیال کیا تھا۔مشرق ِ بعید کے دیگرممالک میں اردو کی خدمت کرنے والے بھی اسی وجہ سے گمنام ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے اہل قلم اپنی تشہیر اور مفادات کے حصول سے فارغ نہیں ہوتے تو دوسری طرف کیا نگاہ کریں۔
یورپ کی مختلف زبانیں بولنے والے ہوں یا عرب یا افریقی،سبھی اردو بہ آسانی سیکھ لیتے ہیں۔خاکسار کا ایک خاص ربط، مصر میں مقیم محبان
ِ اردو سے ہے جن میں شامل ڈاکٹر اِیمان شُکری صاحبہ اور ڈاکٹر رِحاب مصطفی صاحبہ نے میری شاعری کا عربی میں ترجمہ کیا۔ان سے بہت پہلے آنسہ مریم سلیمان نے ایم اے اردوکا مقالہ (بزبان عربی) میری نظم ’کشمیر بزور ِتقریر‘ کے تناظر میں لکھا، جبکہ ایک بزرگ استاد ڈاکٹر احمد القاضی صاحب نے مجھ سے اپنا اردو مقالہ تصحیح کرواکے پاکستان میں شایع کروایا، ایک مقالہ مزید اسی غرض سے کچھ عرصہ قبل ارسال کیا اور مصر میں پاکستان کی کسی نمایندہ کتاب کی سرکاری طور پر منظوری کے معاملے میں مجھ سے مشاورت کی۔
ایک مصری ادیبہ ڈاکٹر ہِند المحفوظ صاحبہ نے میرے رسالے ’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider]کے لیے میرزا اَدیب کے یک بابی ڈرامے کا عربی میں ترجمہ کیا اور مابعد مزید تراجم کیے۔مصر ہی میں مقیم عالمِ عرب کی واحد اور اوّلین صاحبِ کتاب اردو شاعرہ ڈاکٹر وَلا جمال العسیلی صاحبہ نے میرے ایما ء
پر روزنامہ ایکسپریس کے لیے مضامین تحریرکیے۔وَلا ء صاحبہ کاایک تازہ شعر دیکھیے:
اُس نے خیال کب کیا،میرے ملال کا
وہ کھیل کھیلتا رہا ہجر و وِصال کا
ان احباب کے علاو ہ بھی کئی مصری اردو نواز حضرات(بشمول خواتین) سے خاکسار کا ربط وضبط ہے۔
عالمِ عرب کے اوّلین مرد، صاحبِ کتاب اردوشاعر،گلوکارومُوسیقار ڈاکٹر زُبیر فاروق صاحب سے فیس بک کی حدتک آشنائی ہے۔اُن کی کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
دل میں ایک ہنگامہ اور زباں ہے خاموش
وہ ہے دل کی مجبوری، یہ زباں کی مجبوری
چین کے علاوہ امریکا، انگلستان، جرمنی، فرانس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، فلسطین، ازبکستان،آذربائیجان،ترکی اور افغانستان کے سفارت کاراور دیگر اعلیٰ سرکاری شخصیات میں اردو سیکھنے اور بولنے کا شوق بہت عام ہے۔بعض سفارت کاروں سے خاکسار کی آنلائن گفتگو بھی ہوچکی ہے۔
چندغیرملکی حضرات کا اردوکلام اور اردو (نیز دیگر مقامی زبانوں)میں تحقیقی کام اس قدر معیاری ہے کہ اہل زبان کو اُن سے سبق لینا چاہیے۔ایک امریکی شاعر جناب مارک پی گورس ہوش شکاگوی 1980ء کی دہائی میں پاکستان میں دھوم مچاچکے ہیں، جبکہ بعض دیگر کا نام ابھی ذہن میں نہیں۔یہ سب بیان اپنی جگہ اہم ہے،مگر اس سے بڑھ کر یہ نکتہ اہم ہے کہ خود ہم اپنی زبان کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔اب تو واقعی یہ صورت حال ہے کہ بقول مصحفیؔ کہیں کس مُنھ سے ہم اے مصحفی ؔ اردو ہماری ہے۔
جب بات اپنی، قلم اپنا، لوگ اپنے، اخبار اپنا ہو تو پھر بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ہم نے اپنی مادری وقومی زبان کو رابطے کی بھرپور صلاحیت کے باوجود، طرح طرح سے حقیر جانا۔ذرایع ابلا غ سے اردو گنتی ختم ہوچکی ہے۔عام لوگ ہی نہیں، شاعر، ادیب، صحافی، نشریات کار اور اختراع نگار یعنی کاپی رائٹر سبھی بول چال اور تحریرمیں انگریزی گنتی کے مداح نظرآتے ہیں۔
(ایک مرتبہ پھر وضاحت کرتاچلوں کہ میرے مضمون میں انگریزی گنتی لکھے جانے کی وجہ، اخبار کاتکنیکی مسئلہ ہے کہ جب یہی گنتی اِن پیچ سے یونیکوڈ میں منتقل ہوکر اَپلوڈ ہوتی ہے تو کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے۔
ایک بار پھر پوری اردو دنیا کے ماہرین کمپیوٹر کو دعوت دیتاہوں کہ یہ مسئلہ حل کریں)۔ لوگ خیر خیریت سے لے کر خدائے ذوالجلال کا شکر اَداکرنے تک ہر معاملے میں کچی پکی، صحیح غلط، امریکی وبرطانوی کھچڑی انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں جسے خاکسار نے ’فادری زبان‘ اور ’برگرِش‘ قرار دیا ہے۔اصطلاحات کی عدم دستیابی کا رونا رویا جاتا ہے، حالانکہ جس قدر کام اس حوالے سے، مدتو ں پہلے اردومیں ہوچکا، اس کی نظیر کوئی زبان پیش نہیں کرسکتی۔
[ad_2]
Source link