[ad_1]
آج فیض صاحب کی بات کرتے ہیں۔ وہ فرما گئے ہیں ؎
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
فیض صاحب کی اس نظم پر تنقید بھی بہت ہوئی ہے۔ ادبی حلقوں میں سلیم احمد مرحوم کے بارے میں یہ رائے تقریباً متفقہ ہے کہ ادبی تنقید میں وہ پہلے نقاد ہیں جو درسی کتب سے اوپر اٹھ کر انسان اور اس کے گرد و پیش کے حقیقی مسائل بلکہ دکھوں کا احاطہ کرتی ہے۔ وہ جو رائے بھی قائم کرتے ہیں، خوب سوچ سمجھ کر قائم کرتے ہیں اور ان کا استدلال مضبوط ہوتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ میں نے فیض صاحب کی اس نظم کے بارے میں سلیم احمد مرحوم کی رائے کو اہمیت دی اور ہمیشہ یہ سمجھا کہ فیض صاحب مرحوم نے محبوب کے ساتھ زیادتی کی ہے۔
فیض صاحب نے محبوب کے ساتھ کیا زیادتی کی؟ سلیم احمد کا مؤقف ہے کہ محبوب آپ کی غیر مشروط محبت کا حق دار ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ آج اسے محبت دیں لیکن کل آپ کی رائے بدل جائے تو آپ اپنی محبت سے دست کش ہو جائیں۔ سلیم احمد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ کی محبت مشروط ہے یا آپ اپنے محبوب کو پہلی سی محبت سے دینے کے روادار نہیں ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ آپ فی الاصل محبوب کو محبوب نہیں سمجھتے دکان دار سمجھتے ہیں اور آپ بھی محب نہیں گاہک ہیں ۔
اس لافانی نظم کی یہ توضیح خدشہ ہے کہ کہیں ہمیں گرم پانیوں میں نہ لے جائے لیکن بہتر یہی ہے کہ مزید تفصیل میں الجھنے کے بہ جائے کچھ توجہ اپنے گرد و پیش پر کی جائے۔ جن لوگوں کو ہم زیادہ اہم نہیں سمجھتے یا غیر سنجیدہ سمجھتے ہیں، کبھی کبھی وہی لوگ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ شطرنج کی بساط ان کے بغیر بے معنی ہے۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کا ہے۔
اس نوجوان سیاست داں نے اپنے انکشافات اور دھماکے دار باتوں سے ایسی دھاک بٹھائی کہ جو بات نہیں کرتے، اپنے کام سے لو لگائے رکھتے ہیں، وہ بھی زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے۔ اس بات پر یہ نوجوان کچھ مزید بپھر گیا ہے۔ بس، یہیں سے خطرہ محسوس کیا جانے لگا اور لوگ سوچنے لگے کہ یہ واقعہ کہیں کسی نئی آزمائش کا دیباچہ تو نہیں؟
کون نوجوان اور کون سی آزمائش؟ اس اجمال میں تجرید کا عنصر کچھ بڑھ گیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ قصے کہانی سے نکل کر کھل کر بات کی جائے تو کھلی بات یہ ہے کہ یہ ذکر فیصل واوڈا، ان کے دھماکا خیز بیانات اور ان پر سامنے آنے والے ردعمل کا ہے۔ سینیٹر صاحب یکایک کیوں غضب ناک ہو گئے اور ان کے بیانات پر ردعمل کیوں آیا؟ یہ ماجرا بھی فیض صاحب کے محبوب جیسا ہے۔ نظم کی رومانوی فضا سے نکل کر بات کریں تو محبوب کی عزت پر حرف آتا ہے اور حقیقت پر جائیں تو گزشتہ نصف صدی میں سوائے سلیم احمد کے بات کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آئی گویا یہ معاملہ بھی اس شے جیسا ہے جسے کھایا جا سکتا ہے نہ اگلا جا سکتا ہے۔
فیصل واؤڈا ہوں یا مصطفی کمال، ہر دو نے جس انداز میں گفتگو کی ہے، عدالت عظمی نے اسے توہین عدالت قرار دیا ہے۔ اچھا ہی کیا ہے، اختلاف کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو، معاملہ قانون اور اخلاق کی حدود سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ یہ البتہ درست ہے کہ درپیش مسئلے کو سمجھنے اور اس کے حل کے لیے سنجیدہ غور و فکر اور ضروری ہو تو تبادلہ ٔخیال ضرور ہونا چاہیے۔
جہاں تک سنجیدہ غور و فکر کا معاملہ ہے، اس زحمت سے گزر کر کچھ عقدہ کھلتا ہے۔ یہ جو ہمارے یہاں کچھ لوگ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہمارا نظام ازکار رفتہ ہو چکا، کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہتے۔ ہمارے ساتھ یہی حادثہ ہوا ہے۔ قانون سازی، فیصلہ سازی اور تنازعات نمٹانے اور اس سلسلے میں منصفانہ فیصلوں کے باب میں ہم بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کی مثالیں بہت نازک ہو سکتی ہیں لیکن سمجھنے کے لیے بیوروکریسی کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کا تجربہ موزوں ہو سکتا ہے۔ بتایا گیا کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا جا رہا ہے اور بابوؤں کے سوٹ کا کلف اتارا جا رہا ہے۔
بات درست تھی لیکن متبادل نظام بنائے بغیر گزشتہ تقریبا چھ سات سو برس قدیم نظام یک لخت ختم کر دیا گیا۔ (جی ہاں، ہمارا کمشنری نظام مغل سلطنت سے بھی پہلے کا ہے اور کام یاب ہے۔ بھارت اور بنگلا دیش میں یہ اسی لیے ابھی تک مؤثر ہے) نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہماری انتظامیہ نہ دو چار سو کے مجمع پر قابو پانے کے قابل رہی ہے اور نہ آلو پیاز کی قیمت پر نگرانی اس کے بس میں ہے۔ یہ تباہی پرویز مشرف دور میں لائے گئے ضلعی نظام کی نام نہاد اصلاحات کا تحفہ ہے۔ بالکل اسی طرح نظام حکومت کے ضمن میں گزشتہ چھ سات دہائیوں کے دوران میں جو الٹے سیدھے تجربات ہوئے، ان کی وجہ سے ریاست غیرمؤثر ہو گئی۔
2008 سے 2013 تک کے عرصے کی جمہوری حکومتیں اسی احساس کے ساتھ بنیں اور انھوں نے ان زخموں پر مرہم رکھ کر مداوے کے لیے کام کیا۔ 18 ویں آئینی ترمیم سے لے کر بعد میں کیے جانے والی تمام تر کد و کاوش اسی فکر کے تحت ہوئی۔ یہ ترقی پسندانہ جمہوری سوچ تھی۔ اسی سوچ اور اس کے تحت اختیار کی گئی حکمت عملی تھی جس کے خوف نے پی ٹی آئی کو وجود بخشا۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ جماعت ترقی پسندانہ جمہوری شعور کے مد مقابل اسٹیٹس کو کی قوت کے طور پر سامنے آئی۔
اس عنصر کے ظہور میں آنے کے بعد نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا پس منظر یہی تھا۔ اب جو کچھ محسوس کیا جا رہا ہے، کیا اس کا پس منظر بھی اس سے ملتا جلتا ہے؟ عدالتی کارروائی شروع ہو چکی ہے جیسے جیسے سماعت کا سلسلہ آگے بڑھے گا، معاملہ کھلتا جائے گا اور بہت سارے سوالوں کا جواب مل جائے گا جب تک ان سوالوں کے جواب سامنے آتے ہیں، کلام فیض سے استفادہ کیجیے۔ ان سطور کی ابتدا میں فیض صاحب کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ کا ذکر ہوا تھا۔ اس نظم کا ایک اور مصرعہ ہے ع
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ نہ وہ ملا نہ تقدیر نگوں ہوئی۔ جانے اس عاشق زار کی تمنا کا نخل کب ہرا ہو گا؟ یہ مصرعہ پڑھنے کے بعد میرا ذہن الجھ گیا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ سلیم احمد درست ہیں لیکن تقدیر والا مصرعہ کہتا ہے کہ نہیں فیض صاحب ہی درست ہیں۔ اللہ ہی جانے یہ کیا معمہ ہے؟
سائبان
ایک زمانہ تھا ، پاکستان میں ادبی مجلوں کا طوطی بولتا تھا۔ فن اور اوراق تو ہمارے سامنے کی بات ہے، اسی طرح نقوش۔ یہ پرچے ہم سے پہلی نسل کے بزرگوں نے جاری کیے پھر جیسے ہی یہ بزرگ گزرے، پرچے بھی گزر گئے۔یوں کہہ لیجیے کہ ادبی پرچوں کا زمانہ بھی گیا لیکن اب بھی کچھ دیوانے ادب کا دیا جلائے بیٹھے ہیں۔ان میں ایک حسین مجروح بھی ہیں جنھوں نے ’سائبان‘ کے نام سے ایک معیاری پرچہ نکال رکھا ہے۔ پرچہ نکالنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن فی زمانہ ادبی پرچوں کو اشتہار کون دیتا ہے۔ یہی حال سائبان کا بھی ہے لیکن یہ جناب حسین مجروح کا حوصلہ ہے کہ وہ اپنا کام کیے جاتے ہیں۔
سائبان کے تازہ شمارے کا اداریہ ’ مابعد صداقت، ایک نئی درفطنی‘ بتاتا ہے کہ حسین مجروح کا ادب محض شوق کا معاملہ نہیں بلکہ وہ ادب کو اپنے عہد اور اپنے وطن کے دکھوں کا ترجمان بنانے کے خواہش مند ہیں، اسی لیے دکھی ہیں کہ ہر شے اور ہر انسانی سرگرمی کا مرکز مادی افادیت کیوں ہے؟ وہ دوسرا سوال اٹھاتے ہیں کہ انسانی ضمیر تخلیقی دانش اس جہل کے سامنے آسانی کے ساتھ سپر انداز ہو جائے گی؟ یہ ایک سچے اور انسانیت کے ساتھ محبت کرنے والے دانش ور کا سوال ہے۔غنیمت ہے کہ ادب کے منظر نامے پر ایسے قیمتی لوگ موجود ہیں۔ اللہ اس پرچے کو زندگی دے اور یہ پھلتا پھولتا رہے۔
[ad_2]
Source link