[ad_1]
(بیتے دنوں کی یادیں)
راولپنڈی میں جوئے کے بدنام اڈے ختم کرنے پر اس وقت کی پنجاب حکومت کے چہیتے ایم این اے شیخ رشید نے مجھے تبدیل کرادیا تو راولپنڈی میں احتجاج شروع ہوگیا جس پر پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف نے مجھے لاہور بلایا، وہ میری ان کے ساتھ پہلی ون ٹو ون ملاقات تھی۔
میرا موقف سننے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’’آئی جی صاحب نے بتایا ہے کہ آپ بڑے کرائم فائیٹر ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ لاہور کا کرائم ختم کریں لہٰذا میں آپ کو لاہور تعینات کررہا ہوں۔‘‘ انھوں نے اپنے سیکریٹری کو بلایا اور میری رضامندی پوچھے بغیر سیکریٹری کو احکامات بتادیے۔ دوسرے روز مجھے ایس پی سٹی لاہور تعینات کرنے کے احکامات جاری ہوگئے۔
ان دنوں پی آئی اے کا کرایہ بہت کم ہوتا تھا اور میرا سامان بھی ایک بیگ پر مشتمل تھا، لہٰذا میں نے راولپنڈی سے لاہور جانے کے لیے جہاز کا سفر اختیار کیا۔ لاہور ایئرپورٹ پر اترا تو پولیس کا ایک ڈرائیور میرے نام کا کتبہ لے کر کھڑا تھا۔ میں اس کے ساتھ جاکر ایک عمر رسیدہ سی کار میں بیٹھ گیا اور وہ مجھے لے کر باغِ جناح کے بالمقابل شاہراہ تجارت پر واقع پولیس کلب لے گیا جہاں ایک کمرہ مجھے الاٹ کر دیا گیا تھا۔
وہی کمرہ اگلے دو سال تک میری سرکاری رہائش گاہ رہا۔ میرے علاوہ کچھ اور پولیس افسر بھی پولیس کلب میں رہتے تھے۔ مجھ سے پہلے جو پولیس افسر (جو کانسٹیبل سے ایس پی بنا تھا) ایس پی سٹی تھا، اس کے اپنے اسٹاف کے بقول اسے مہینے کے چالیس پچاس لاکھ روپے (جب ڈالر بیس روپے کا ہوتا تھا) بند لفافوں میں آتے تھے، اس ماہانہ آمدن کے علاوہ وہ اہم کیسوں میں علیحدہ پیسے لیتا تھا، لہٰذا حرام کی اس کثیر آمدن سے محرومی کا صدمہ اس کے لیے ناقابل برداشت تھا، بہرحال سینئر افسروں نے اسے سختی سے کہا تو وہ چارج چھوڑ نے پر آمادہ ہوا۔ میں جب ایس پی سٹی کے دفتر پہنچا تو وہ وہیں براجمان تھا اور غالباً اپنے کلائنٹس کے ساتھ کچھ بقایاجات کی وصولی کے لیے مذاکرات کررہا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ قدرے پریشان ہوا مگر پھر دفتر پر حسرت بھری نظریں ڈالتے ہوئے رخصت ہوگیا اور میں نے اپنی ذمے داری سنبھال لی۔
ایس پی سٹی کا دفتر سینٹرل ماڈل اسکول کے سامنے تھا، آج بھی وہیں ہے، نیچے تھانہ لوئر مال ہے اور اوپر کا فلور ایس پی سٹی اور اس کے اسٹاف کے لیے مختص ہے۔ میں نے جاتے ہی اپنی روایت کے مطابق شہریوں کے ساتھ رابطے کی مہم شروع کردی اور ہرتھانے کی سطح پر کھلی کچہریاں لگائیں۔
کئی اخبارات اور رسائل نے میرا اکثر جگہوں پر بولا گیا یہ فقرہ کئی بار نقل کیا کہ ’’اگر ہمارے عمل میں آپ کو بدنیّتی یا منافقت نظر آئے تو ہمارا گریبان پکڑلیں اور اگر نیک نیّتی اور اخلاص نظر آئے تو تعاون کے لیے ہمارا ہاتھ پکڑلیں‘‘۔ لاہور سٹی کے علاقے میں بھی راولپنڈی کی طرح منشیات فروشی کے خلاف سخت آپریشن کرکے اس ناسور کی کمر توڑ دی گئی، بڑے بدنام اور بااثر منشیات فروش گرفتار ہوئے۔
ہمارا ان کے لیے واضح پیغام تھا کہ ’’یا یہ دھندہ چھوڑ دو یا علاقہ چھوڑ دو‘‘ بہت سے منشیات فروش شہر چھوڑ کرچلے گئے۔ ایک روز جب میں اپنے دفتر میں سائلوں سے مل رہا تھا تو پنجاب کے وزیر تعلیم بیرسٹر عثمان ابراھیم صاحب (جو میرے قریبی دوست عابد سعید کے ماموں ہیں اور جو بعد میں وفاقی وزیر بھی رہے) کا فون آیا ۔ کہنے لگے میں آپ سے ملنے آپ کے دفتر آرہا ہوں ۔ میں نے کہا ’’میں آپ کے آفس آجاتا ہوں‘‘ کہنے لگے نہیں میں چل پڑا ہوں، بہت ضروری بات ہے ۔
چند منٹ کے بعد وہ تشریف لے آئے اور بیٹھتے ہی تشویشناک لہجے میں بولے ’’ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا امتحانی نظام تباہ ہوچکا ہے، امتحانات سے متعلقہ ہر بورڈاور ہر دفتر میں گوڈے گوڈے کرپشن ہے، امتحانوں میں نقل اور بوٹی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اس کے ریٹ مقرر ہیں، لاہور میں بدمعاش اورغنڈے مسلّح جتھوں کے ساتھ آتے ہیں اور امتحانی عملے کو یرغمال بناکر اپنے سامنے طلباء کو نقل کراتے ہیں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔لگتا ہے ہر شخص بے بس ہے‘‘۔ میں نے لقمہ دیا کہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب باہر کے ممالک ہماری ڈگریاں بھی تسلیم نہیں کرتے۔ کہنے لگے ’’بالکل درست کہا آپ نے، اسی لیے میاں شہباز شریف صاحب نے مجھے یہ ٹاسک دیا ہے کہ میں امتحانات پر طلباء اور عوام کا اعتماد بحال کراؤں، مگر اس کے لیے مجھے آپ کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ بوٹی مافیا کو پولیس ہی ختم کرسکتی ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’نقل زدہ امتحانات سے نہ صرف ہمارے لاکھوں طلباء و طالبات کا مستقبل تاریک ہورہا ہے بلکہ ملک کی ساکھ اور امیج بھی بری طرح مجروح ہوا ہے، ہم انشاء اللہ اس کام کو ایک قومی مشن سمجھ کر نبھائیں گے‘‘۔ ایک گھنٹے کی میٹنگ کے بعد وزیر صاحب چلے گئے اور میں نے امتحانات میں زبردستی نقل کروانے والے بدمعاشوں اور بوٹی مافیا کی سرکوبی کے لیے حکمت عملی تیار کرنا شروع کردی ۔
ہم نے امتحانی سینٹروں کی فہرستیں منگوالیں اور وہاں بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے اور بوٹی مافیا کی سرکوبی کے لیے پولیس کی ٹیمیں ترتیب دے دیں اور انھیں بڑا سخت اور موثر آپریشن کرنے کی ہدایات دیں۔ چند روز بعد امتحانات شروع ہوئے تو بوٹی مافیا کے سر غنے بھی متحّرک ہوگئے، ان لوگوں کے لیے امتحانات اسی طرح آمدن کا ذریعہ ہوتے تھے جس طرح پکی ہوئی فصل زمینداروں کے لیے آمدن کا باعث ہوتی ہے۔
ایک مشہورا سٹوڈنٹ لیڈر نے (جو بعد میں قتل ہوگیا تھا) کسی سے پلاٹ خریدا، کچھ رقم ادا کردی مگر زیادہ رقم ابھی باقی تھی، جب پلاٹ کے مالک نے بقایا رقم کا تقاضا کیا تو اسٹوڈنٹ لیڈر صاحب نے جواب دیا ’’فکر نہ کریں اِنٹر کے امتحان آنے والے ہیں، بقیہ ادائیگی امتحان شروع ہوتے ہی کردوںگا‘‘۔ بوٹی مافیا نے مشہور بدمعاشوں کی طرح امتحانی سینٹر بانٹے ہوئے تھے، ہر ایک سرغنہ اپنے علاقے کو اپنی راجدھانی سمجھتا تھا اور اسی میں کارروائی کرتا اور دوسروں کی راجدھانی میں جا کر کارروائی کرنے یا مداخلت کرنے سے گریز کرتا تھا ۔
بہرحال بوٹی مافیا کے کارندنے کلاشنکوفوں اور پستولوں سے مسلّح ہوکر اپنی اپنی ” jurisdiction ” میں پہنچ گئے، جونہی انھوں نے کارروائی شروع کی تو پولیس کے کمانڈوز نے بڑا swift اور effective آپریشن کرکے انھیں اسلحے سمیت دھرلیا اور پھر سب کے سامنے سڑک پر لٹا کر خوب مرمت کی، یہ اس لیے کیا گیا تاکہ ان کی بدمعاشی کا ھَوّا توڑا جائے اور امتحانی عملے کا ڈر اور خوف دور ہو اور وہ بے خوف ہوکر اپنے فرائض سرانجام دے سکے۔
نوجوان پولیس افسروں نے بوٹی مافیا کی بدمعاشی ختم کرنے اور دوسروں کو عبرت دلانے کے لیے اں کے ساتھ اپنے اپنے نظریات و تجربات کے مطابق سلوک کیا، کچھ نے انھیں مرغا بنا کر امتحانی عملے اور طلباء سے معافیاں منگوائیں اور توبہ کرائی اور کچھ نے نائی بلاکر ان بدمعاشوں کی ٹنڈیں کروا دیں جس پر اخبارات نے اسے ’’ٹنڈ آپریشن‘‘ کا نام دیا۔ بہرحال ایک ہفتے میں بوٹی مافیا کی کمر توڑدی گئی اور امتحانی سینٹروں میں بیرونی مداخلت بند ہوگئی۔
امتحان شروع ہونے کے دس بارہ دن بعد اتوار کی چھٹی کے روز جب میں نے صبح اٹھ کراخبار پر نظر ڈالی تو ایک قومی اخبار کے صفحہء اوّل پر ایک تصویر دیکھتے ہی میرا خون کھول اُٹھا،اخبار پر لگی تصویر کا کیپشن تھا ’’تھانہ لوئر مال کی حوالات میںامتحانات میں نقل کرانے والے امتحانی عملے کو پولیس نے مرغا بنایا ہوا ہے‘‘۔ میں نے فوری طور پر تھانہ لوئرمال فون کرکے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ تصویرلیکچرر صاحبان کی ہے جو امتحانی ہال کے اندر تعیّنات تھے، میں نے بڑی واضح ہدایات دے رکھی تھیں اور پولیس کوامتحانی ہال کے اندر جانے کی ہرگز اجازت نہیں تھی ۔ میں فوری طور پر لوئر مال اپنے دفتر پہنچا، میرا اسٹاف بھی پہنچ گیا۔
میں نے انھیں ہدایات دیںکہ لیکچرر صاحبان کو فوری طور پر حوالات سے نکالیں اور میرے دفتر لے کر آئیں۔ لیکچرر صاحبان آئے تو میں نے انھیں بڑی عزت سے بٹھایا ، چائے پلائی، ان کی توہین پر معافی مانگی اور ان سے پوچھا کہ ’’آپ کو کس نے گرفتار کیا ہے کیونکہ پولیس کو تو واضح ہدایات ہیں کہ وہ امتحانی کمروں کے اندر نہیں جائے گی اور صرف بیرونی مداخلت کو روکے گی۔
آپ تو امتحانی کمروں کے اندر ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، آپ کے ساتھ یہ زیادتی کس نے کی ہے‘‘؟ لیکچررزنے بتایاکہ ’’ہمیں مجسٹریٹ نے امتحانی ہال کے اندر سے گرفتار کیا ہے، جب کہ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا‘‘ میں نے متعلقہ پولیس والوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر ساتھ لے گئے تھے۔ بہرحال میں نے لوئر مال تھانے کے اسٹاف کو فوری طور پر معطل کیا اور لیکچرر صاحبان کو ضمانت پر رہا کرواکے ان کے گھروں کو بھجوادیا ۔ دوسری طرف ایسی توہین آمیز تصویر دیکھ کر ٹیچرز کی پوری کمیونیٹی مشتعل ہوگئی اور انھوں نے امتحانوں اور کلاسوں کا بائیکاٹ کردیا۔
(جاری ہے)
[ad_2]
Source link