[ad_1]
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ دنوں چلائی جانے والی عوامی تحریک نے مظلوم عوام کو دادرسی کا راستہ سکھا دیا اور قومی سیاسی جماعتوں کو بھی ایک سبق مل گیا۔ چند ماہ قبل گلگت بلتستان کے عوام نے جدوجہد کے راستے کے ذریعہ معاشی حقوق حاصل کیے تھے مگر کشمیر میں چلائی جانے والی تحریک کے قائدین چھوٹے تاجر،ترقی پسند سوچ کے حامل کارکن اور مقامی وکلاء اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل تھے۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح آزاد کشمیر میں بھی عوام بڑھتے ہوئے بجلی کے بلوں اور بنیادی اشیاء مثلاً آٹا، چینی، دالوں اور گوشت وغیرہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے سے سخت پریشان تھے، یوں گزشتہ سال عام لوگوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ پہلے بھارتی کشمیر سے متصل راولا کوٹ میں ایکشن کمیٹی قائم ہوئی۔ ایکشن کمیٹی نے سب سے پہلے مطالبہ کیا کہ واپڈا کے کھمبے لوگوں کی زمینوں پر لگے ہوئے ہیں اس بناء پر واپڈا اس کا کرایہ ادا کرے۔مطالبہ منظور نہ ہونے پر لوگوں نے اپنی زمینوں سے بجلی کے کھمبے اکھاڑ دیے تھے، پھر ہر ضلع میں ایکشن کمیٹی قائم ہوئی۔
پاکستانی کشمیر کے 10اضلاع کے تین تین افراد مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں نامزد کیے گئے، یوں مرکزی ایکشن کمیٹی 30افراد پر قائم ہوئی۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک سال سے مسلسل کوشش کی کہ مظفر آباد اور اسلام آباد کی حکومتیں ایکشن کمیٹی کے 10نکات کی ضرورت کو محسوس کریں اور عوام کو کم قیمتوں پر آٹا اور دیگر اشیاء فراہم کی جائیں اور بجلی کے نرخ کم کیے جائیں۔ ان رہنماؤں کا بیانیہ تھا کہ بجلی کشمیر کی وادی کے پانی سے دریائے جہلم پر لگے بجلی گھر سے پیدا ہوتی ہے اور بجلی کشمیر کے بجائے پاکستان کے نیشنل گرڈ سے منسلک کردی جاتی ہے، یوں کشمیری عوام اپنی زمین پر پیدا ہونے والی بجلی سے محروم ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں آٹا بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سطحِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے بھارتی کرنسی میں 120 روپے کلو اور خط غربت سے بلند افراد کے لیے 520 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ آزاد کشمیر میں 24.9 فیصد افراد خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 2021ء میں خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کم ہوکر 4.8 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
کشمیریوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ بھارت کی انتہاپسند جماعت بی جے پی نے کشمیر کی بھارتی یونین کے آئین میں دی گئی خصوصی آئینی حیثیت 307 کو ختم کیا اور مسلسل وہاں سے پولیس و فوج کی کارروائیوں کی خبریں آتی ہیں مگر پھر بھی وہاں آٹے کی قیمتیں انتہائی کم ہیں اور پاکستانی کشمیر میں آٹے کی قیمت 150 روپے کلو ہے، یوں عوام کو اپنے وطن میں کوئی ریلیف میسر نہیں۔ غریب عوام کو مظفر آباد میں قائم ہونے والی مسلم لیگ کی حکومت کو بار بار باور کرانا پڑا کہ وہاؒں حکومت کے وزراء سرکاری خزانہ کا بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بڑی کابینہ کے ساتھ درجنوں وزراء اور مشیر صرف تنخواہیں و مراعات لیتے ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر حکومت کے اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے،یوں انفرااسٹرکچر کا سارا بجٹ ان افسروں اور دیگر اہلکاروں پر خرچ ہوتا ہے۔
کیونکہ عوامی ایکشن کمیٹی میں کوئی معروف رہنما شامل نہیں تھا، مظفر آباد کی حکومت میں شامل مسلم لیگ ن کا کوئی رہنما یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کا کوئی بڑا رہنما ا س ایکشن کمیٹی کے ساتھ نہیں تھا لہٰذا اس بناء پر خفیہ اطلاعات حکمرانوں کو فراہم کی جانے والی ایجنسیوںکے اہلکاروں نے عوامی ایکشن کمیٹی کے پسِ پشت عوامی قوت کی طاقت کو محسوس نہیں کیا، یوں راولا کوٹ سے شروع ہونے والے احتجاج کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور پولیس کے ذریعے احتجاجی عوام کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی۔
جب عوام کی اکثریت نے تیزی سے مظفر آباد کی طرف مارچ کیا تو حکومت نے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی جو صوبے کے چیف سیکریٹری اور ایک بیوروکریٹ پر مشتمل تھی۔ یہ افسران کسی قسم کی یقین دہانی کا اختیار نہیں رکھتے تھے، یوں حکومت کی غیر سنجیدگی کی بناء پر مذاکرات بے نتیجہ برآمد ہوئے۔ مظفر آباد کی طرف بڑھتے ہوئے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گولیاں برسائی گئیں، یوں تین نوجوان اس فائرنگ میں شہید ہوئے اور ایک سب انسپکٹر کی جان بھی گئی۔ جب حالات مکمل طور پر قابو سے باہر ہوئے تو پھر حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی سے سنجیدگی سے مذاکرات کیے اور وفاقی حکومت نے 23 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ جاری کی اور یوں ایک معاہدہ ہوا۔
اس معاہدہ کے تحت 40 کلو گرام آٹا کی قیمت 3 ہزار روپے کردی گئی۔ بجلی کے نرخ میں 3روپے فی یونٹ کمی کی گئی۔ یہ ریلیف 16 روپے فی یونٹ خرچ کرنے والے افراد تک کو مل جائے گا۔ مہنگائی کی موجودہ صورتحال میں کشمیر کے عوام کے لیے خاصا بڑا ریلیف ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کی خصوصی صورتحال کے باعث عوام کے مطالبات تسلیم کیے ہیں۔ مگر طاقت کے استعمال سے پہلے عوام کے یہ مطالبات مان لیے جاتے تو انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔ نہ سرکاری املاک کو نقصان ہوتا اور جگ ہنسائی نہ ہوتی مگر کشمیر کے عوام کی اس جدوجہد نے مزاحمتی تحریکوں میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ عوام کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے پر برسرِ اقتدار حکومتیں توجہ نہیں دیں گی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما ان مسائل کے حل کے لیے جدوجہد نہیں کریں گے تو پھر خود رو قیادت پیدا ہوگی اور سیاسی جماعتیں بے اثر ہوجائیں گی۔
اس وقت بجلی، گیس اور پٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے چاروں صوبوں کے عوام پریشان ہیں۔ پنجاب میں کسان گندم فروخت نہ ہونے پر پریشان ہیں۔ خیبر پختون خوا میں مسلسل لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ بلوچستان مسلسل انتشار کا شکار ہے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل چمن کے علاقہ میں امیگریشن کی نئی پالیسی کے خلاف 6 ماہ سے احتجاج ہورہا ہے۔ ہزاروں افراد افغانستان سے ہر قسم کی تجارت پر پابندیوں کے خاتمے اور روایتی طور پر سرحد کے دونوں اطراف آنے جانے کے لیے احتجاج کررہے ہیں ۔
گوادر کے ماہی گیر گزشتہ کئی برسوں سے آزادی سے بحیرہ عرب میں ماہی گیری کے حق کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے خلاف احتجاجی تحریک جاری ہے۔ سندھ میں لوڈ شیڈنگ، گیس کی کمی اور بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ، کراچی میں بجلی اور پانی کی قلت ، اسٹریٹ کرائم اور صنعتی اداروں کے مزدوروں کی برطرفیوں کے خلاف احتجاج ہوتا رہتا ہے۔
قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت چاروں صوبوں میں بنیادی مسائل پر جدوجہد کو اہمیت نہیں دے رہی، یوں عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔آزاد کشمیر کے عوام کی کامیاب جدوجہد سے چاروں صوبوں کے عوام کو مسلسل جدوجہد کرنے کا راستہ ملا ہے، اگر برسر اقتدار حکومتوں اور معقول سیاسی قیادت نے توجہ نہ دی تو پھر کسی وقت کشمیر کے عوام کی یہ جدوجہد مظلوم طبقات کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوسکتی ہے۔
[ad_2]
Source link