[ad_1]
مجھے ٹرین کا سفر ہمیشہ سے پسند ہے، بڑا رومانٹک لگتا ہے۔نئے نئے شہروں سے ٹرین کا گزرنا، اسٹیشنوں پر ٹرین کا رکنا، مقامی دکانداروں کی آوازیں، چائے، کافی، آئس کریم، بریانی اور نہ جانے کون کون سی آوازیں سماعت سے ٹکراتی ہیں۔ کالج کے زمانے میں اساتذہ اور ساتھی طالبات کے ساتھ لاہور کے بڑے پھیرے لگے ہیں، ہم جس ٹرین سے جاتے تھے، پورا کمپارٹمنٹ ہمارا ہوتا تھا۔
ملتان میں گاڑی رکتی تو لڑکیاں ملتانی کام کے کپڑوں پہ لپکتی جاتیں، لیکن میں اپنی جگہ سے نہ ہلتی، مجھے ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ اگر میں اتری تو کہیں گاڑی چل نہ دے، اور میں چڑھنے سے رہ نہ جاؤں۔ اس خوف کی وجہ میں آج تک نہیں جان سکی، البتہ اس کی نفسیاتی توجیہ میں خود یہ کرتی ہوں کہ جو بچے بہت ناز و نعم میں پلتے ہیں اور وہ سب سے چھوٹے بھی ہوں، تو انھیں والدین کی توجہ بہت زیادہ ملتی ہے، اس لیے وہ اکیلے میں گھبرا جاتے ہیں۔
تقریباً دس سال پہلے ٹرین کا سفر کیا تھا، وہ بھی اس لیے کہ ایک نئی ٹرین چلی تھی جس کا نام تھا بزنس ایکسپریس، یہ پبلک پرائیویٹ اور پاکستان ریلوے کے اشتراک سے چلی تھی، کیا غضب کی ٹرین تھی، انتہائی صاف ستھری، کشادہ برتھیں، درمیان میں فاصلہ زیادہ، پانی کے ڈسپنسر لگے ہوئے، ٹی بیگ ساتھ ہوں تو آپ گرم کھولتا ہوا پانی لے کر گرما گرم چائے بنا لیں، بڑی زبردست ٹرین تھی، لیکن پتا نہیں کن اسباب کی بنا پر وہ بند کر دی گئی۔
پھر پاکستان ریلوے پر نزع کا عالم طاری ہو گیا، کبھی ٹرینیں پٹری سے اتر رہی ہیں، کبھی ٹکرا رہی ہیں، کبھی بھی، کوئی بھی ٹرین اپنے مقام پر وقت پر نہ پہنچتی۔ اس لیے سفر ہوائی جہاز کے ذریعے طے ہونے لگے، لیکن ہوائی جہاز میں مسافر ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے ہیں، بس خاندان کے افراد اگر ہمراہ ہوں تو بات کرتے ہیں، ورنہ اجنبی مسافروں سے ہیلو، ہائے بھی نہیں کرتے۔ بڑا مصنوعی سا ماحول ہوتا ہے۔ البتہ لمبے سفر میں تنہا مسافر پاس بیٹھے شخص سے دو چار باتیں بھی کر لیتے ہیں۔
اس کے برعکس ٹرین کا سفر زندگی کا سفر ہوتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ٹرین کے سفر میں نہ صرف قومی سوچ کا پتا چلتا ہے بلکہ قومی اور انفرادی مزاج سے بھی آپ آشنا ہو جاتے ہیں۔ بعض ہم سفر آپ کو بہت پرخلوص اور ہمدرد ملتے ہیں، بعض بہت سخت مزاج۔ لیکن آپ کے ساتھ آپ کے لوگ ہوں تو ٹرین کا سفر بڑا اچھا لگتا ہے۔
پچھلے کئی ماہ سے یوٹیوب پر گرین لائن ٹرین کی بہت تعریف سنی تھی۔ ہم تو انڈیا کی عام ٹرین میں بھی بیٹھے ہیں اور راجدھانی ٹرین کا سفر بھی کیا ہے جو واقعی اسم بامسمی ہے۔ ان کا مقابلہ تو ممکن ہی نہیں، پھر طویل عرصے کے بعد ایک پاکستانی ٹرین کی تعریف سنی، گرین لائن پر ریلوے نے کئی ویڈیوز اپ لوڈ کی ہوئی ہیں۔ ہم نے بھی وہ تمام ویڈیوز دیکھیں اور حد درجہ متاثر ہوگئے اور فیصلہ کیا کہ ایک سفر اسلام آباد تک کا اس ٹرین میں کیا جائے۔
سب نے منع کیا کہ اکیلی ٹرین کا سفر نہ کریں، لیکن جن لوگوں نے 2018 میں اس ٹرین سے سفر کیا تھا انھوں نے بڑی تعریف کی کہ وقت پر پہنچتی ہے اور اس کے اسٹاپ بھی زیادہ نہیں ہیں۔ کھانے کی بھی لوگوں نے تعریف کی اور جو ویڈیوز اپ لوڈ تھیں اس میں بھی ناشتہ اور کھانے کی جو ٹرے دکھائی گئی تھیں، ان میں صبح ناشتے میں ڈبل روٹی، جام، مکھن، ٹی بیگ کی چائے تھی، کھانے میں ایک پلیٹ میں بریانی جو باریک پلاسٹک سے ڈھکی ہوئی تھی، دو نان تھے، چکن کا سالن تھا اور ایک دال تھی، سب کچھ بہت وافر نظر آرہا تھا، ساتھ ہی کمپارٹمنٹ میں اے سی ہلکا کرنے کا سوئچ، موبائل چارج کرنے کا ساکٹ اور ہر سیٹ کے ساتھ ایک نائٹ بلب بھی تھا، جسے آپ حسب ضرورت جلا سکتے ہیں۔ یہ سب اے۔سی بزنس اور اے۔سی پارلر میں تھا۔ البتہ اے۔سی اسٹینڈرڈ میں کھانا چار خانوں والی ٹرے میں اور ناشتہ انڈے پراٹھے کا تھا، اکنامی کو میں نے ٹچ نہیں کیا اور عید کے بعد بکنگ کروا لی۔
وہ جو میں نے اوپر کہا کہ ٹرین میں قومی شعور اور مزاج کا ہی پتا نہیں چلتا بلکہ انفرادی رویوں سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔ ایک گڑبڑ یہ ہوئی کہ مجھے نیچے کی برتھ نہیں ملی بلکہ درمیان کی ملی۔ میں پریشان ہوگئی کہ اوپر کیسے چڑھوں گی کہ وہ جو میرا ایکسیڈنٹ تین سال پہلے ہوا تھا اس کے بعد کمر میں تکلیف مسلسل رہتی ہے۔
میں نے اے۔سی پارلر سے بکنگ اسی لیے کینسل کروائی تھی کہ وہاں سیٹیں بالکل ہوائی جہاز کی طرح ہوتی ہیں، رات کو پیچھے کر لو، پھر بھی ٹانگوں میں درد ہو جاتا ہے۔ اب یہاں بھی یہ مسئلہ؟ لیکن جو لوگ اس ٹرین سے سفر کر چکے ہیں انھوں نے تسلی دی کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ سینئر سٹیزن ہیں لوگ کوآپریٹ کرتے ہیں۔ آپ اپنی مجبوری بتا کر برتھ تبدیل کر لیجیے گا۔ بصورت دیگر آپ ٹکٹ چیکر سے کہہ کر بدلوا لیجیے گا۔ میں مطمئن ہوگئی، کمپارٹمنٹ میں پہنچی تو نیچے کی برتھ پر ایک تیس پینتیس سال کا نوجوان لیٹا موبائل سے کھیل رہا تھا۔
میرے بھائی نے اسے میری مجبوری بتا کر اس سے درخواست کی کہ وہ اوپر کی برتھ پہ چلا جائے۔ اس نے صاف منع کر دیا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ تب میں نے سوچا کہ جب چیکر آئے گا تو میں اس سے درخواست کروں گی کہ مجھے کہیں اور شفٹ کر دے۔ اتنی دیر میں گاڑی چل پڑی، مخالف برتھ پر ایک بزرگ سفید بالوں اور سفید داڑھی والے، سر پہ کروشیا کی ٹوپی جمائے بیٹھے تھے۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ ’’ کیا مسئلہ ہے، آپ کیوں پریشان ہیں؟ ‘‘ میں نے انھیں جب مسئلہ بتایا تو وہ بولے ’’ کوئی بات نہیں، ہم پندرہ لوگ پنڈی جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ لڑکے بھی ہیں اور لڑکیاں بھی، کوئی بھی آپ کی برتھ پہ سو جائے گا، آپ ہماری برتھ لے لیں۔‘‘
ان بزرگ کا تعلق ایک بزنس کمیونٹی سے تھا، میں مطمئن ہو گئی۔ ٹکٹ چیکر آیا اور ٹکٹ دیکھ کر چلا گیا، میں ٹرین سے باہر کے نظاروں میں کھو گئی، رات کے ساڑھے گیارہ بجے اچانک تین تندرست خواتین دروازہ کھول کر اندر آئیں اور خاصے تیز لہجے میں بولیں ’’ برتھ خالی کریں، یہ ہماری برتھ ہے۔‘‘ عام طور پر اس کمیونٹی کی خواتین بولتی بہت ہیں اور عمر شریف اکثر اپنے اسٹیج ڈراموں میں انھیں تفریحاً نشانہ بناتے تھے، مثلاً ان کا یہ جملہ ’’ ایک…دیکھ لو، زکوٰۃ معاف ہو جائے گی۔‘‘ بہرحال پہلے تو میں ان کی اچانک یلغار سے پریشان ہوگئی، پھر میں نے کہا کہ ان کے ساتھ جو بزرگ ہیں، انھوں نے یہ برتھ مجھے دی ہے، میری کمر میں تکلیف ہے۔
اس لیے اوپر نہیں چڑھ سکتی، آپ ان سے جا کر پوچھ لیں، اگر پھر بھی آپ کو اصرار ہے تو میں کمپارٹمنٹ کے باہر لگی سیٹ پر بیٹھ جاؤں گی۔ خدا کا شکر کہ وہ میری بات مان کر چلی گئیں۔ اب سنیے ہم لیٹ گئے، لیکن برابر کے کمپارٹمنٹ سے مسلسل زور زور سے بولنے اور بچوں کی چیخ و پکار کی آوازیں آتی رہیں۔
بزنس کمیونٹی کے لوگ عموماً رات کو بہت دیر سے سونے کے عادی ہوتے ہیں۔ سو ہم برداشت کرتے رہے کہ سفر تو نام ہی اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے کا ہے۔ مزید ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ دروازہ کھول کر تین مرد اندر آگئے، ایک نے آ کر نہایت سختی سے کہا ’’آپ ہماری برتھ خالی کریں۔‘‘ مجھے اس دم اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا، میں نے انھیں بھی یہی کہا کہ’’ اگر آپ کے بزرگ ہمیں برتھ نہ دیتے تو ہم ٹکٹ چیکر سے کہہ کر کہیں اور شفٹ ہو جاتے۔‘‘ اور میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ میری کمر میں چوٹ لگی ہوئی ہے۔ اس پر وہی صاحب بولے ’’یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے کہ آپ کو چوٹ لگی ہے۔
آپ برتھ خالی کریں‘‘ مجھے بھی غصہ آگیا، پھر بھی میں نے نرمی سے کہا کہ ’’ آپ اپنے بزرگ ساتھی کو بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ انھوں نے یہ برتھ مجھے کیوں آفر کی۔ اب اس وقت میں کس سے برتھ چینج کر سکتی ہوں‘‘ یہ سن کر پیچھے کھڑے ہوئے لوگوں نے انھیں اپنی زبان میں کچھ کہا، وہ تینوں واپس چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد آ کر میری برتھ پہ کسی بچے کو سلا دیا، اس کے بعد صبح جب وہ بزرگ آئے تو میں نے ان سے ان کے لوگوں کے خراب رویے کی شکایت کی تو وہ بولے کہ ’’میڈم! میں معذرت چاہتا ہوں، بعد میں انھیں میں نے بتا دیا تھا کہ آپ کو میں نے روکا ہے۔‘‘ اس کے بعد پھر سارا دن مجھے کسی نے پریشان نہیں کیا اور میں پوری برتھ پر آرام سے آئی۔ ( جاری ہے)
[ad_2]
Source link