[ad_1]
گرمی کی شدت اپنے انتہائی عروج پر ہے۔ ہر طرف سے العطش العطش کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔ حال یہ ہے کہ عوام ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ گرمی کی تپش نے اچھے اچھوں کا بُرا حال کردیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سورج غصے سے بے قابو ہو رہا ہے۔
آفرین ہیں وہ صاحبِ ثروت لوگ جو پیاسوں پر ترس کھا کر سبیلوں کا اہتمام کر کے اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں اور ثواب پر ثواب سمیٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب وہ استحصالی طبقات ہیں جو جونکوں کی طرح عوام کا خون چوس چوس کر اپنے ایئرکنڈیشن کمروں میں پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں اور انھیں غریبوں کی بدحالی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انھیں کبھی موت آئی گی ہی نہیں اور انھیں اپنے کیے کا کوئی حساب دینا نہیں پڑے گا۔ ان کا فلسفہ اور مقصدِ حیات صرف یہی ہے۔
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
بے روزگاری کے پرآشوب دور میں محنت کش اپنے اور اپنے بال بچوں کے اجسام و ارواح کے درمیان رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اس حوصلہ شکن وقت میں جان توڑ موسمی حالات کا مقابلہ کررہے ہیں۔
ان بیچاروں کے لیے شربت تو کجا پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ گرمی کی شدت سے نڈھال ہوکر بے آسرا لوگ بے ہوش ہو ہو کر گر رہے ہیں اور خیراتی شفا خانوں کے علاوہ ان کا کوئی والی ہے اور نہ وارث۔ سلام ہے ان انسان دوست لوگوں کو جنھوں نے خلقِ خدا پر ترس کھا کر خیراتی ادارے قائم کررکھے ہیں ورنہ تو نہ جانے کیا حال ہوا ہوتا۔
کمر توڑ گرانی کے اس ہولناک اور وحشت ناک دور میں عوام الناس کو دواؤں کی ہوشربا قیمتوں کی وجہ سے سردرد کی گولی بھی میسر نہیں ہے اور ان بدنصیبوں کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ عدم مساوات کی یہ صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے اور اندیشہ ہے کہ خدا نخواستہ یہ لاوہ پھٹ نہ پڑے۔ان حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ اربابِ اختیار کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اس گھمبیر صورتحال کا مداوا کریں اور اسلام دوستی اور انسان دوستی کا ثبوت دیں:
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
اس تناظر میں شاعرِ بے بدل علامہ اقبالؔ کا یہ فکر انگیز شعر یاد آرہا ہے:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
افسوس اس بات کا ہے کہ مصورِ پاکستان کے اس شعر کو قطعی فراموش کردیا گیا ہے اور حکمراں طبقہ کا طرزِ عمل یہ ہے کہ وطن عزیز کی دولت مال غنیمت ہے کہ جسے جتنا چاہو لوٹو اور مزے اڑاؤ۔ گویا:
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
یہ رویہ کسی مخصوص حکمراں طبقہ کا نہیں بلکہ کم و بیش تمام حکمرانوں کا یہی وطیرہ رہا ہے گویا:
ایک حمام میں سب ننگے ہیں
معاملہ کچھ یوں ہے کہ اقبالؔ کے ہی بقول۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حُکمراں کی ساحری
افسوس کا مقام یہ ہے کہ چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن طریقہ واردات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اس ماحول میں اس کے سوا بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
غم کی اندھیری رات میں دل کو نہ بیقرار کر
صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر
مایوسی کفر ہے اور امید کا دامن ہاتھوں سے ہرگز چھوٹنا نہیں چاہیے کیونکہ ملک کے افق پر منڈلاتے ہوئے اندرونی اور بیرونی سیاہ بادلوں کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
ایک طرف گرمی کا یہ موسم ہے اور دوسری جانب مومنوں کا پُر بہار موسمِ حج ہے اور یکے بعد دیگرے قافلہ در قافلہ روانگی کا سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔ راہِ حق کے ان مسافروں کا جوش و خروش دیدنی ہے جو بیان سے باہر ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ ان میں وہ دیوانے بھی شامل ہیں جنھوں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر اس سفر کا بندوبست کیا ہے جب کہ دوسری جانب وہ بدنصیب بھی شامل ہیں جو بیشمار دھن دولت کے مالک ہونے کے باوجود اس روح پرور سفر سے محروم ہیں۔ قصہ مختصر:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
بات انتہائی صاف اور سادہ ہے۔ اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں۔
ہمیں اپنا وہ وقت یاد آرہا ہے جب ہماری نصف بہتر یعنی اہلیہ محترمہ نے فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کیا تھا اور اِس مقدس سفر پر جانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کی ہمراہی کا سہارا لیا تھا جو اپنی اہلیہ کے ساتھ جا رہے تھے۔ جب انھوں نے اس بات کا تذکرہ ہم سے کیا تو ہمارے چہرے پر ایک رنگ آیا اور دوسرا گیا۔
بیگم آخر بیگم ہوتی ہے اس لیے انھوں نے سب کچھ تاڑ لیا۔ وہ بھلا یہ کب برداشت کرسکتی تھیں کہ وہ اس روح پرور سفر پر ہمیں چھوڑ کر چلی جائیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انھوں نے ہمارے زادِ راہ کا بندوبست کیسے اورکیوں کرکیا اور یہ خوشخبری سنادی کہ ہم بھی ان کے ساتھ شریکِ حیات ہونے کے ناتے شریکِ سفر ہوں گے۔ قصہ کوتاہ اس طرح ہم بھی حاجیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔
[ad_2]
Source link