[ad_1]
لاہور کے صحافی سخت گرمی کے موسم میں پنجاب اسمبلی کے سامنے سراپا احتجاج ہیں۔ صحافیوں کو پنجاب کی حکومت کے ہتک عزت قانون Punjab Defamation Act 2024 کے مندرجات پر سخت تشویش ہے۔
میڈیا کی تمام تنظیموں نے ہتک عزت کے اس قانون کو مسترد کیا ہے۔ کوئٹہ میں کوئٹہ پریس کلب کو سیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں ایک تنظیم کے سیمینار کے انعقاد پر اعتراض کیا گیا تھا، یوں تاریخ میں پہلی دفعہ کوئٹہ پریس کلب کو بند کیا گیا۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے یہ بیانیہ اختیارکیا ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز وائرل ہونے سے ایک انتشار اور بدامنی کی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے، یوں ملک میں رائج ہتک عزت کے قانون کی ازسر ِنو ترتیب ضروری ہے مگر بیوروکریسی نے جو مسودہ تیار کیا اس مسودے پر عملدرآمد ہوا تو پرنٹ الیکٹرونک میڈیا کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ اس قانون کے بغور مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کا مسودہ تیار کرنے والے قانونی ماہرین نے ایسے الفاظ شامل کردیے ہیں کہ مجاز حکام اس کی من مانی تشریح کر کے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کو مسخ کریں گے۔
اس مسودہ و قانون کی شق B کی ذیلی شق (h) میں تحریر کیا گیا ہے کہ ’’ہتک عزت کا مطلب ہے کسی جھوٹے بیان کی اشاعت، نشر یا گردش، اس کی نمایندگی زبانی، تحریری یا بصری شکل میں یا عام شکل یا اظہار یا الیکٹرونک یا دیگر جدید میڈیم ذرایع آلات یا سوشل میڈیا کے ذریعے یا کوئی بھی آن لائن یا سوشل میڈیا، ویب سائٹ، پبلی کیشن یا پلیٹ فارم جو کسی شخص کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے یا اس کا اثر ہوسکتا ہے یا اسے دوسروں کے اندازے میں کم کرنے کا رجحان رکھتا ہے یا اس کا مذاق اڑاتا ہے یا ایسے اور ایسے غیر منصفانہ تنقید، ناپسندیدگی، حقارت کا نشانہ بناتا ہے یا نفرت اور اس طرح کی بدنامی میں اس ایکٹ کے سیکشن 14 میں موجود بعض جنسوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے تبصرے، بیانات اور نمایندگی شامل ہے، جو اس پیراگراف میں خوبصورتی کے ساتھ مذاق اڑائے یا ایسی غیر منصفانہ تنقید، ناپسندیدگی، حقارت کا نشانہ بنائے یا نفرت اور اس طرح بدنامی کے الفاظ لکھ کر حقائق پر مبنی مواد کو بھی ہتک عزت کے قانون کے دائرہ میں شامل کر لیا۔
پاکستانی صحافتی تاریخ کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوروکریسی نے ہمیشہ میڈیا سے متعلق بننے والے قوانین میں اس طرح کے الفاظ شامل کرکے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مسودہ قانون کی شق 8 میں ہتک عزت کے مقدمات کی سماعت کے لیے ٹریبونل کے قیام کا ذکرکیا گیا ہے۔ اس مسودہ قانون کی شق (2) کی ذیلی شق X میں تحریر کیا گیا کہ اس ایکٹ کے سیکشن 8کے تحت پنجاب ڈیفیمیشن ٹریبونل قائم ہوگا۔ اسے لاہور ہائی کورٹ کے خصوصی طور پر نامزد کردہ سنگل بنچ کے لیے بھی ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔
قانون کی شق 8 میں ٹریبونل کا قیام حکومت سرکاری گزٹ کے ذریعے اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے جتنے بھی ٹریبونل ضروری سمجھے قائم کرسکتی ہے۔ ایسے ہی ایک ٹریبونل کے لیے ایک رکن مقرر کرسکتی ہے۔ اس قانون کی شق 8 کی ذیلی شق (2) کے تحت جہاں ممبرکا تقرر عدلیہ سے ہوتا ہے چیف جسٹس 3 اہل افراد کو نامزد کرے گا اور حکومت ان تین میں سے ایک کو ممبر مقرر کرے گی، اگر حکومت تینوں نامزدگیوں میں سے کسی کی اہلیت کے بارے میں مطمئن نہیں ہے تو وہ اس سفارش کو تحریری طور پر درج کرنے کی وجوہات کے ساتھ واپس کرے گی جس کے بعد چیف جسٹس تین نامزد افراد کی نئی سفارش بھیجے گا۔
اسی طرح شق 8 کی ذیلی شق (6) میں کہا گیا ہے کہ جہاں رکن کا تعلق قانونی برادری سے ہو حکومت 3 اہل افراد کو نامزد کرے گی اور چیف جسٹس ایسے 3 میں سے کسی ایک کو بطور ممبر منظور کرے گا، اگر چیف جسٹس تینوں نامزدگیوں میں سے کسی کی اہلیت کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں تو وہ اس سفارش کو تحریری طور پر مسترد کرنے کی وجوہات کے ساتھ واپس کردے گا جس کے بعد حکومت تین نامزد افراد کی سفارش چیف جسٹس کو بھیجی جائے گی۔ اس شق سے آزادانہ ٹریبونل بنانے کے چیف جسٹس کے اختیار کو خوبصورتی سے غضب کیا گیا۔
اس قانون کے تحت ٹریبونل کے جج کی تقرری میں حکومت کا کردار بڑھ گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ حکومت صرف اپنے منظورِ نظر افراد کو ایسے ٹریبونل میں بھیجے گی، یوں اس قانون کی ان شقوں سے بدنیتی کا اظہار ہوتا ہے۔ صحافی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کا تعین کرے گی اور اس قانون کے تحت ان ججوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے گی۔ ٹریبونل کے آزادانہ کردار پر سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ بات بھی درست ثابت ہو رہی ہے کہ حکومت متوازی عدالتی نظام قائم کرکے آئین کے آرٹیکل 19 کی تنسیخ کر رہی ہے۔
ملک کے اخبارات کے ایڈیٹروں کی تنظیم کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز (CPNE) نے ہتک عزت کے قانون کو سیاہ قانون قرار دیتے ہوئے سی پی این ای کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ یہ بل انتہائی جلدی میں تیارکیا گیا ہے۔ بل میں خود ساختہ ٹریبونل کو 30 لاکھ روپے سے 3کروڑ روپے جرمانہ کا عبوری حکم جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جس سے حکومت کو منحرفین کے اداروں کو دبانے کا موقع ملے گا۔ بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت بنائے جانے والے ٹریبونلزکی کارروائی کو رپورٹ بھی نہیں کیا جاسکے گا اور ٹریبونلز سماعت سے پہلے 30 لاکھ سے 3 کروڑ تک جرمانہ کرسکے گا۔ مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی اس بل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ہتک عزت کے قانون کی بھی ایک علیحدہ تاریخ ہے۔ برطانوی ہند حکومت نے 1860ء انڈین پینل کوڈ نافذ کیا۔ اس پینل کوڈ میں دفعہ 499 اور 500 ہتک عزت سے متعلق شق شامل کی گئیں۔ اس شق کے تحت ہتک عزت کے مقدمات کی سماعت ہائی کورٹ میں ہوتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان پینل کوڈ (PPC) نافذ ہوا۔ اس قانون میں دفعہ 499 اور 500 شامل رہیں۔ اس قانون کے تحت کوئی فرد کسی تحریری، زبانی یا بصری مواد سے محسوس کرے کہ اس کی توہین کی گئی ہے تو ہائی کورٹ میں داد رسی کے لیے رجوع کرسکتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں PPC کی شق 499 اور500 میں ایک اور ترمیم کی گئی تھی۔
اس ترمیم کے تحت کسی اتھارٹی، کسی سرکاری افسر کے خلاف حقائق پر مبنی مواد شایع ہوا ہو تو متعلقہ افسر یہ سمجھے کہ اس مواد کی اشاعت کا مقصد اس کی معاشرے میں توہین ہے تو وہ فوجداری مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔ اس قانون کو تمام اخباری تنظیموں نے سیاہ قانون قرار دیا اور صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے ہر پلیٹ فارم پر اس قانون کی منسوخی کے لیے آواز بلند کی۔ جب 1985میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ وجود میں آئیں تو جونیجو حکومت نے سینیٹ کے ذریعے ان شقوں کو منسوخ کردیا۔
90ء کی دہائی میں سپریم کورٹ نے شیخ رشید بنام نوائے وقت ہتک عزت کے حوالے سے ایک تاریخی فیصلہ دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہتک عزت کے قانون کو مالیاتی آسودگی کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک مقدمے میں یہ رولنگ دی کہ ہتک عزت مقدمات کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں ہوگی، یوں ان مقدمات میں طویل التواء کا مسئلہ لازمی ہوا، مگر عجیب بات یہ ہے کہ حکومت نے عدالتی نظام کو بہتر کرنے کے بجائے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔
پنجاب کے گورنر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس بل کو واپس کردیں گے، اگر گورنر پنجاب اس مؤقف پر قائم رہتے ہیں تو مسلم لیگ ن کی قیادت کو اسمبلی کی اکثریت کی آمریت کو استعمال کرنے کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
[ad_2]
Source link