[ad_1]
فتح خان رابعہ پشتو کی ایک لوک رومانی کہانی ہے جس میں ہیروفتح خان کا ایک دوست کرم ہوتا ہے جو ذات کا میراثی یا پشتو’’ڈم‘‘ہے اس کا کام ہی یہی ہے کہ کوئی نہ کوئی مصیبت لاکر فتح خان کے سر منڈھتا رہتا ہے۔ چنانچہ شاعر نے کہا ہے
دا کرمے ڈم چہ ہرگز دبدو نہ آوڑی
چہ چرتہ بدوی دفتح سرلہ راوڑی
ترجمہ۔ یہ ڈوم کرمے برائی سے ہرگز باز نہیں آتا ہے اورجہاں کہیں کوئی بدی ملتی ہے لاکر فتح کے سر ڈال دیتا ہے ۔
ہم جب اپنے پاکستانی عوام عرف کالانعام کو دیکھتے ہیں تو ہو بہو کرمے ڈم کی طرح دکھائی دیتے ہیں جب بھی دیکھیے ، کوئی نہ کوئی مصیبت لاکر اپنی معصوم بھولی بھالی اورمخلص حکومت کے لیے کھڑی کرتے ہیں، کبھی ان کو بھوک لگتی ہے کبھی پیاس سے بے حال ہوتے کبھی کپڑا مکان مانگتے کبھی روزگار کبھی امن وامان کبھی صحت اورنہ جانے کیاکیا، کبھی مہنگائی کا رونا تو کبھی سستائی کا واویلا ، جسے بے چاری حکومت اوراس کے اعضا جان جو کھم میں ڈال کر پسینے ہو ہو کر اوردن رات جاگ جاگ کرحل کرنے میں منا بھائی کی طرح لگے رہتے ہیں ، سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کم بخت کتنا تھا، پیٹ ہے یا کنواں بلکہ اکثر تو اپنے برے اعمال کی وجہ سے ان پر زمینی اورآسمانی آفات بھی نازل ہوتی رہتی ہیں اورحسب معمول حکومت کے آگے بھوں بھوں کرنے لگتے ہیں ۔
ارے کم بختو اپنے اعمال درست کرو ، کھانے پینے میں اسراف مت کرو چائے کافی اورشربت جیسی عیاشی چھوڑ دو … لیکن نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جتنی بھی زمینی آسمانی انسانی اورسیاسی آفات ان پر نازل ہوتی ہیں سب کی سب ان کالانعاموں کے برے اعمال کانتیجہ ہیں جس کے لیے حکومت پھر ہرجگہ اپنی سو چھیدوں والی جھولی پھیلاتی پھرتی ہے۔ بے چارے لیڈر اورحکومت کے سارے ایماندار فٹ گزار اور خدمت کے لیے ہروقت تیار ، پریشان رہتے ہیں۔
صدر ،وزیراعظم، وزیر مشیر، معاون وغیرہ بیانات دیتے دیتے پسینے پسینے ہوجاتے ہیں اوراوپر سے ظلم کے اوپر ظلم یہ کہ بدنام بھی ان بے چاروں کوکرتے ہیں جنھوں نے ان کی خدمت کے لیے اپنی نیندیں حرام کررکھی ہیں ۔یہ کالانعام صرف بداعمال ہی نہیںضدی اورہٹ دھرم بھی ہیں اورکرمے ڈم بھی، ورنہ ان کے سارے مسائل مصنوعی ہیں، مہنگائی مصنوعی ہے، بے روزگاری مصنوعی ہے، غربت مصنوعی ہے ، شاید آپ نہیں جان رہے ہیں، اس لیے ابھی کے ابھی ثبوت پیش کیے دیتے ہیں ، ذرا مصنوعی کو انگریزی میں ترجمہ کیجیے ، انڈسٹری انڈسٹرئیلائز۔
اب جن چیزوں کا ہم نے نام لیا ہے مہنگائی بیروزگاری دکانداری غربت قلت افراتفری انڈسٹری ہی تو ہے بلکہ اوربھی بہت ایسا ہے جن کے نام ہم نہیں لے سکتے لیکن ہیں انڈسٹری ہی۔اوریہ کالانعام اگر چاہیں تو ایک ہی دن میں اپنے یہ سارے مسائل حل کرتے ہیں، اگر یہ کھانا کم کھائیں، چائے کافی اور مشروبات کم پئیں، اللے تللے کم کردیں تو یہ سارے مسائل چٹکیوں میں حل ہوجائیں گے۔
مہنگی ہے تو مت خریدو، سیدھی سی بات ہے ،مت پیو، مت مت مت بلکہ ان تین کی عبارت ہی بدل دو، مت کھاؤ، مت پیو مت پہنو۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ عوام عرف کالانعام اگر ماننے والے ہوتے تو اب تک سارے مسائل سے چھٹکارا پاچکے ہوتے۔ ذرا سوچیے کتنا زمانہ ہوا ہے کہ قوم کے لیڈر ورہنما دانا دانشور اورشبھ چیننک کیے ہوئے ہیں، ہرہر سطح پر ان کو سنوارتے ہیں۔
ذرا اخبارات اٹھا کر دیکھیے، چینلات ملاحظہ فرمائیے،لیڈروں کو دیکھیے، دانا دانشور کالم نگاروں کو پڑھیے اوراینکروں، تھنکروں کی سنیے ہر ہرجگہ، ہرہر وقت اورہرہرسطح پر ان کو ’’تلقین‘‘ کی جارہی ہے بلکہ مجموعی نظر ڈالیے جیسے ہرطرف سے ’’ناصح‘‘ اورتلقین کرنے والے ان کے گرد بیٹھے ہیں اور ان کو سمجھا رہے ہیں کہ کیاکرو اورکیا نہ کرو بلکہ ’’اسپیکروں‘‘کے ساتھ لاوڈ اسپیکروں کو بھی شمار کریں تو مشوروں اور تلقینوں کا سیلاب آیا ہوا ہے لیکن ان کم بختوں جو عوام کہلاتے ہیں اورکالانعام تخلص کرتے ہیں، کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ہے اور بدستور اپنے برے اعمال میں مصروف ہیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ’’بے بختوں‘‘ کاکیا جائے ، بیچاری حکومت لیڈروں، وزیروں، مشیروں، معاونوں، محکموں، اداروں کی یہ مجبوری ہے کہ ان بداعمالوں کو ’’پاسڈ اوے‘‘ بھی نہیں کرسکتے کہ اورکسی نہ کسی طرح سے ان کو زندہ رکھنے پر مجبورہیں کہ اگر یہ کم بخت ’’خرچ‘‘ ہوگئے تو پھر یہ سفید ہاتھی کون پالے گا
میں تو تیرے ہی دم سے زندہ ہوں
مرہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
بہرحال ہم نے مسئلے کی نشان دہی کردی ہے کہ تمام برائیوں کی جڑ یہ عوام کالانعام ہیں۔ دانا، دانشور،تلقین شاہ ونصیحت شاہ لوگ سمجھا سمجھا کر تھک چکے ہیں لیکن یہ ’’کرمے ڈم‘‘ اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آرہا ہے اورجہاں کہیں کوئی ’’غم‘‘ پاتا ہے لاکر ’’فتح‘‘ کے متھے ماردیتا ہے ۔وہ تو خداسلامت رکھے ہمارے لیڈروںرہنماؤں اوردانا دانشوروں کو کہ طیش میں نہیں آتے ورنہ کوئی دوسرا ہوتا تو یا تو ان کالانعاموں کی اینٹ سے اینٹ بجاچکا ہوتا اوریا خود ہی ان کے منہ پر طلاق طلاق طلاق مار کر کہیں چلے گئے ہوتے ۔
[ad_2]
Source link