[ad_1]
اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کر کے اسرائیل کو بڑا جھٹکا دیا تھا، اسرائیل ابھی اس فیصلے پر تلملا رہا تھا کہ دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو فلسطینی علاقے رفح میں فوری طور پر فوجی آپریشن روکنے کا حکم دے کر اسرائیل کے لیے عالمی سطح پر ہزیمت کا مزید سامان پیدا کر دیا ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق عالمی عدالت انصاف کے صدر نواف سلام نے جمعہ کو تیرہ دو کی اکثریت سے فیصلہ سنا دیا ہے۔ دی ہیگ میں عالمی عدالت نے غزہ میں جنگ بندی کی جنوبی افریقہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسرائیل کو نسل کشی کے عالمی معاہدے (جینوسائیڈ کنونشن) کے مطابق رفح میں فوجی آپریشن فوری طور پر روکنے کا حکم دیا۔ پندرہ رکنی ججز پر مشتمل عالمی عدالت کے ایک ایڈہاک جج کا تعلق اسرائیل سے بھی ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں اسرائیل کی حکومت کو رفح جیسی کسی دوسری کارروائی سے بھی باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اسرائیل کو جب 28مارچ کو غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا، اس کے بعد غزہ کی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔ عالمی عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ رفح کراسنگ کو کھلا رکھے۔
عدالت نے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی تک تفتیش موٹرکاروں کو رسائی دے۔ جنوبی افریقہ نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے، اس سے قبل ہی اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکا جائے۔ درخواست میں نقطہ اٹھایا گیا کہ دفاع کا حق بھی کسی ملک کو نسل کشی کا جواز فراہم نہیں کرتا۔
عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ نیتن یاہو کی حکومت کے لیے انتہائی مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ نیتن یاہو حکومت کی پالیسیز مسلسل ناکامی سے دوچار چلی آ رہی ہیں۔ عالمی برادری نے دی ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو مثبت قرار دیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی عدالت انصاف کے اسرائیل کے حوالے سے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کونسل، عالمی برادری عالمی عدالت کے فیصلے پر فوری عمل کرائے۔ یو این تحقیقاتی کمیشن کو غزہ اور رفح میں فوری رسائی دی جائے۔ عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد سے دنیا میں امن کی راہ ہموار ہو گی ۔
جمعہ کو وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا 13ججز اور پٹیشن دائر کرنے پر جنوبی افریقہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پاکستان نے اس پٹیشن کی حمایت کی تھی۔ آیندہ بھی تمام فلسطینیوں کا کیس لڑتے رہیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور جمہوریہ آئر لینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا ہے۔
وزیر اعظم نے آئرلینڈ کے وزیراعظم کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ وزیراعظم نے آئرلینڈ کے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ آئرلینڈ کا یہ فیصلہ دوسرے ممالک پر بھی ایسے فیصلے لینے کے لیے دباؤ کا باعث بنے گا۔
جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا ن کہا ہے انھیں تشویش ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں انسانی تکالیف کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ کینیڈا، بلجیم، فلسطینی اتھارٹی ، اقوام متحدہ میں فلسطین کے نمایندے اور اردن نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
حماس کے سینئر رہنما باسم نعیم نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تاہم اسے ناکافی قرار دیا اور کہا ہے ہم سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی عدالت کے اس مطالبے کو فوری طور پر عملی اقدامات کے طور پر نافذ کیا جائے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے نمایندے ریاض منصور نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ فیصلے پر عمل درآمد کرے۔ اسرائیل نے عدالت انصاف کو فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ۔
اسرائیلی وزیر خزانہ سموٹریچ نے کہا ہے کہ اس فیصلے پر کسی صورت عمل نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ روکنے کا مطلب اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹانا ہے۔
اسرائیل، غزہ کے حوالے سے شدید عالمی دباؤ کا شکار ہے اور اسے مسلسل عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام چلی آ رہی ہے ۔ گو اسپین، ناروے اور آئرلینڈ کے فیصلے پر اسرائیل کی حکومت نے سخت ردعمل دیا لیکن یہ ایک طرح سے شدید فرسٹریشن کا اظہار بھی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے تو آئرلینڈ، ناروے اور اسپین کو دھمکی تک دے ڈالی۔
اسرائیل نے خبردار کیا کہ اس فیصلے کے بعد اسرائیل خاموش نہیں رہے گااور اس کے مزید سنگین نتائج ہوںگے۔ اسی دوران دی ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کا بھی فیصلہ آ گیا ہے۔ اس وجہ سے بھی اسرائیل کی حکومت شدید فرسٹریشن کا شکار ہوئی ہے۔ اسرائیل کا انحصار امریکا، برطانیہ اور فرانس کی حمایت پر ہے۔ لیکن عالمی منظرنامے میں امریکا، برطانیہ اور فرانس دیگر ممالک پر دباؤلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ امریکا نے آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کے فیصلے بڑے نپے تلے الفاظ میں یہ کہا کہ صدر جو بائیڈن سمجھتے ہیں کہ یکطرفہ طور پر فلسطین کو ریاست تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔
وہائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ صدر جوبائیڈن کا ماننا ہے کہ فریقین کے درمیان مذاکرات سے فلسطینی ریاست تسلیم ہونی چاہیے کیونکہ صدر بائیڈن اپنے پورے کیریئر میں دو ریاستی حل کے مضبوط حامی رہے ہیں۔ امریکا کے اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر بائیڈن بھی بہت زیادہ آگے جا کر اسرائیل کی حمایت سے گھبرا رہے ہیں۔ صدر بائیڈن کے سامنے نئے الیکشن بھی ہیں اور انھیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے اسرائیل نواز جیسے سیاستدان کا سامنا بھی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن چونکہ صدارتی الیکشن میں ایک بار پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار بننے جا رہے ہیں، اس لیے وہ امریکا میں بااثر یہودی لابی کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے اور اپنے ملک کی عالمی ساکھ بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اسرائیل کی حکومت کسی ملک کی مجبوری یا اس کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح نہیں دے رہی۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد بھی اسرائیل نے رفح میں فوجی آپریشن بند نہیں کیا ہے بلکہ عالمی میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا حکم آنے کے بعد رفح پر حملے مزید تیز کردیے اور مزید 57فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے جب کہ رفح کے مرکزی علاقوں میں بھی جارحانہ کارروائیاں شروع کردی گئیں۔
اسرائیل نے فلسطین کو تسلیم کرنے پر اسپین کے قونصل خانے کو یروشلم میں کام سے روک دیا۔ غزہ میں 7 اکتوبر سے قتل عام ہو رہا ہے، اسرائیل نے اس دوران عالمی رائے عامہ کا کوئی احترام نہیں کیا۔ غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور مسلسل مارے جا رہے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ غزہ میں جو لوگ رہ رہے ہیں ان پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں، ریڈکراس اور عالمی عدالت انصاف کے حکم کے باوجود اسرائیل رفح کراسنگ کھولنے پر آمادہ نہیں۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام خبردار کر چکا ہے جب تک اسرائیل انسانی امدادی کارکنوں کے لیے صورتحال کو محفوظ نہیں بناتا غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے 320 ملین ڈالر کا نیا امریکی پروجیکٹ بھی ناکام ہو سکتا ہے۔
سربراہ عالمی ادارہ صحت ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ غزہ کے مکینوں کی زندگی بچانا مشکل نہیں عملا ناممکن بنادیا گیا ہے۔اسرائیل غزہ میں طبی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ہٹائے جہاں تقریبا 700 شدید بیمار مریض پھنسے ہیں۔ اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی بلکہ سفاکی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ غزہ اور اس کے اردگرد کے فلسطینی علاقوں کے کیا حالات ہوں گے۔
اسرائیل کی یہ ہٹ دھرمی اس کے اپنے بل بوتے یا اپنی طاقت کے زور پر نہیں ہے بلکہ امریکا، برطانیہ اور فرانس اس کی پشت پر ہیں۔ اسرائیل خود کو بھی دو ریاستی حل کا حامی بنا کر پیش کرتا ہے۔ کئی ممالک پہلے بھی فلسطینی اتھارٹی کے زیرکنٹرول علاقے کو ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ اب اگر آئر لینڈ، ناروے اور اسپین نے فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیا ہے تو اس پر واویلا کرنے کی کوئی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی۔
امریکا نے بھی جو ردعمل دیا ہے اس میں دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے لیکن ساتھ میں یہ کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر کے یہ فیصلہ کیا جائے۔ امریکا اور اس کے حامی ممالک کا یہی وہ کردار ہے جو اسرائیل کو ہٹ دھرمی کی قوت عطا کرتا ہے۔ بہرحال اب زیادہ دیر تک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا ممکن نہیں ہے۔
[ad_2]
Source link