[ad_1]
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
ایسے بے شمار اشعارکے خالق مولانا ظفر علی خان جو ضلع گوجرانوالہ کے ایک موضع کوٹ مہرتھ میں 1874 ء کو مولوی سراج الدین احمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا کا نام کرم الٰہی تھا جنہوں نے آپ کا نام ظفر علی خان رکھا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ آپ کے دادا نے ایک نیا گائوں ’’ کرم آباد‘‘ اپنے نام پر بسایا جس کے بعد وہ اپنے سارے خاندان کے ہمراہ وہاں مقیم ہوئے۔
مولانا ظفر علی خان کے والد نے جن کا شمار اپنے دورکی علمی، ادبی و صحافتی شخصیات میں ہوتا ہے۔ اپنے ہی آبائی گائوں کرم آباد سے ’’ زمیندار‘‘ اخبار شائع کیا، جو آغاز میں ہفت روزہ نکالا گیا۔ اس اخبار کا مقصد زمینداروں، مزدوروں،کسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ آپ کے والد کی وفات 6 دسمبر1903 ء کو ہوئی جس کے بعد ’’زمیندار‘‘ اخبار کی ادارتی ذمہ داری مولانا ظفر علی خان کو سونپ دی گئی۔ اسی دوران 1910 ء میں ایک اور پرچہ شائع ہوا جس کا نام ’’ پنجاب ریویو‘‘ تھا۔ 15 اکتوبر 1911 ء سے اسے ہفت روزہ سے روزنامہ بنا دیا گیا۔
مولانا ظفر علی خان کا شمار مسلم لیگ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ آپ جدوجہد آزادی کے نامور سیاستدان، ممتاز صحافی ، شاعر اور مقرر تھے۔ انہیں ان کی بے باکی اور حق گوئی کے باعث کئی بار بندشوں کا سامنا کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ یہ بات 1920 ء کی ہے جب ان کی قید ختم ہوئی تو ’’ زمیندار‘‘ اخبار کو پھر سے شائع کیا گیا۔
اس کی اشاعت کے لیے مولانا نے شب و روز انتھک محنت کی اور ’’ زمیندار‘‘ کا نام ایسا روشن کیا کہ لاہور سے شائع ہونے والے اخبارات مثلا پیسہ اخبار، انتخاب لاجواب، وطن و دیگر اخبارات میں سے کسی کا چراغ نہ جل سکا۔ یوں یہ سب اخبار آہستہ آہستہ بند ہوتے چلے گئے اور ’’ زمیندار‘‘ اخبار کا چرچا ہر طرف ہونے لگا۔’’ زمیندار‘‘ کی پیشانی پر جو اشعار چھپتے تھے اُن میں سے ایک مولانا حالی کا تحریرکردہ شعر تھا۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
’’ زمیندار‘‘ کا پیمبر نمبر نکلا تو علی گڑھ کے ایک دوست کی تجویز پر ستارہ و ہلال کے نشاں کے نیچے علامہ اقبال کے ایک مشہور شعرکا اضافہ کیا گیا۔
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
اس کے بعد ’’ زمیندار‘‘ اخبار پر حکومت کی طرف سے ظلم و ستم ڈھائے جانے لگے تو پھر ان اشعار کی جگہ مندرجہ ذیل شعر چھپنے لگا۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
’’زمیندار‘‘ اخبار کی اشاعت اور مولانا کے حسن اسلوب کے بارے میں چراغ حسن حسرت کہتے ہیں کہ ’’ اصل میں مولانا کو اخبارکی زبان اور کتابت کی صحت کا بڑا خیال رہتا تھا۔ کاتبوں کی جان الگ آفت میں، ایڈیٹر الگ مصیبت میں مبتلا، جب تک مولانا دفتر میں ہیں غل غپاڑا مچا ہوا ہے۔ جونہی کاپی پر نظر پڑی شور مچ گیا ’’ ارے یہ کیا کیا؟ ‘‘ یہ عبارت تو بالکل مہمل ہے۔
اس مراسلہ کی تصحیح نہیں ہوئی، یونہی کاتب کو دے دیا گیا ہے، خبروں کی عبارت چست نہیں،کتابت کی غلطیاں تو دیکھو، ایک ایک کالم میں پچاس پچاس غلطیاں اورکتابت کیسی ہوئی ہے،کوئی دائرہ بھی صحیح نہیں، غضب خدا کا قرآن کی آیت غلط لکھ دی، اتنا خیال نہ آیا کہ کلامِ الہٰی ہے ، ستیاناس کردیا اخبارکا، ان کاپیوں کو جلا دو۔ از سر نو اخبار مرتب کرو کیا کہا ؟ اب اخبار مرتب نہیں ہوسکتا اعلان کر دو کہ کل اخبار نہیں نکلے گا، کیونکہ میں یوں اخبار نہیں نکالنا چاہتا۔‘‘
اُس دورکی نسبت اگر آج ہم دیکھیں تو اخبارکی اشاعت میں کافی آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں، لیکن لکھنے، پڑھنے کا عمل آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کل تک تھا۔ مولانا ظفر علی خان ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ آپ کو اُردو نظم و نثر پر عبور حاصل تھا۔
مولانا ظفر علی خان جیسی بہادر، نڈر شخصیت جنہوں نے اپنی بے باکی اور جرات اظہارکی بدولت مسلمانانِ برصغیر کی نمائندگی کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا، ان کی شخصیت و فن پر لاتعداد کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، ’’ بحیثیت صحافی مولانا ظفر علی خان‘‘ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی جسے کراچی کے معروف اشاعتی ادارے مکتبہ اسلوب نے شائع کیا۔ اس نایاب کتاب کو سوائے نادر کتب خانوں کے علاوہ کئی اور نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔
’’ مولانا ظفر علی خان احوال و آثار‘‘ اس کتاب کے بھی مصنف ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی ہے، اس کتاب کو مجلسِ ترقی ادب سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ صحافت میں انہوں نے مولانا غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، مرتضی احمد خان، میکش، اظہر امرتسری، شورش کاشمیری جیسے ناموں کو متعارف کروایا اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔
مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ سیاست میں گزرا، وہ نہ صرف بہت بڑے شاعر، زبردست مقرر اور بلا کے انشاء پرداز اور صحافی تھے۔ ان کی نظموں میں مذہبی و سیاسی عنصر غالب ہے۔ ہنگامی نظمیں خوب کہتے تھے۔ ان کی شعری کے مجموعے کئی شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ معرکہ مذہب و سائنس، غلبہ روم، منظوم ڈراما جنگ روس و جاپان، معاشیات، خیابان فارس، لطائف الادب آپ کی مشہور تصنیفات ہیں۔
1949 ء میں آپ کی صحت گرنے لگی کافی کمزور ہونے کے باعث کمر جھک گئی اور ہاتھوں میں لمبی سی چھڑی پکڑکر چلنے لگے۔ آپ نے اپنی آخری مختصر تقریر پنجاب یونیورسٹی میں کی۔ آخر 27 نومبر1956ء کو دن کے 11 بجے صحافت و خطابت بذلہ سنجی اور شاعری کے آسماں کا یہ درخشندہ آفتاب ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا۔
مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کی ایک تقریب میں کئی سال قبل مولانا کی برسی کے موقع پر کہا تھا کہ ’’ مولانا نے نثر اور نظم دونوں کے ذریعے صحافت کی خدمت کی، وہ ایک سچے عاشقِ رسولؐ تھے، انہوں نے بڑی مجاہدانہ زندگی گزاری۔‘‘ مولانا ظفر علی خان جیسی صاف گو شخصیت اور فن کو سمجھنے کی آج کے صحافیوں اور سیاسی رہنمائوں کو اشد ضرورت ہیں۔ آخر میں ثاقب لکھنوی کا یہ شعر شدت سے یاد آ رہا ہے۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
[ad_2]
Source link