15

احساس ذمے داری – ایکسپریس اردو

[ad_1]

ڈینس امریکی نیوی کا ایک سابق اہل کار تھا۔ اسے اچانک ہی شیرنی بننے کا شوق پیدا ہوا۔ جیساکہ یورپ میں ہوتا ہی ہے کہ اچھا بھلا انسان کبھی کتا تو کبھی کتیا بننے کی کوشش کرتا ہے اور ویسا ہی روپ دھار لیتا ہے بالکل اسی طرح ڈینس کو شیرنی بننے کا جنون ایسا چڑھا کہ اس نے ساری حدیں پار کر لیں۔

اس کے لیے اسے اپنے چودہ آپریشن کروانے پڑے اس نے اپنے چہرے پر ٹیٹوز بنوائے اور شیرنی کی طرح اپنی آنکھیں سبز رنگ کے لینس سے سجا لیں، اپنی بھنویں منڈوا کر ہیئت بدل ڈالی اور تو اور ناک کے بھی آپریشن کروا لیے اور دو لاکھ ڈالرز خرچ کر کے اپنی اچھی بھلی انسانی صورت بگاڑ لی۔

اتنا کچھ کروانے کے بعد بھی وہ شیرنی بننے کا خواب پورا نہ کر سکا ورنہ نوکیلے زہریلے دانتوں کے ساتھ اسے اپنے گھر کو بھی آہنی پنجرے میں تبدیل کروانا پڑ جاتا۔ ڈینس نے اتنا کچھ کروا تو لیا لیکن اس کا شوق ادھورا رہا اور شاید اسے عقل آگئی اور اس نے واپسی چاہی لیکن مایوسی اور ڈپریشن نے راستے روک لیے اور 2012 میں اس نے خودکشی کر لی۔

ڈینس کا یہ واقعہ بڑا عجیب اور ہم جیسے عام انسانوں کے لیے سوچ کے در وا کرتا ہے کہ انسان خواہشات کی تکمیل میں اندھا ہوکر اپنے ہی لیے گڑھے کھودتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ ہم اپنے ملک کے حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو مایوسی اور کوفت کی سی صورت نظر آتی ہے۔ ایک دوسرے کے گریبان کو پکڑنے کی تگ و دو میں لگے ہیں، چھینٹے بازیوں کا ماحول گرم ہے۔ الزامات کے ٹوکرے ادھر سے اُدھر پھینکے جا رہے ہیں اور میرا ملک۔۔۔۔

ہم جو ہیں ہم وہ رہنا نہیں چاہتے، ہم اپنے سے اونچے اور اونچے بننے میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں، ایک کے بعد ایک راستے میں حائل رکاوٹوں کو اِدھر سے اُدھر کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ رکاوٹیں کبھی چھوٹے گریڈ کے آفیسرز ہوتے ہیں تو کبھی ایمان دار اہل کار، کبھی جاں نثار پہرے دار ہوتے ہیں تو کبھی۔۔۔۔ خیر جانے بھی دیں۔

ہم صرف اپنے عہدے کو برقرار رکھنے اور اوپر جانے کے چکر میں نجانے کتنے دل، کتنے ارمان اور کتنے خواب خاک کر دیتے ہیں اور چلتے چلے جاتے ہیں اور جب ہمارا چلنے کا سفر رک جاتا ہے تب ہمیں دنیا کی بے ثباتی کا پتا چلتا ہے کہ دراصل یہ وہ تو وہی جھاگ کے رنگین بلبلے تھے جن سے ہم ساری زندگی الجھتے رہے۔

ہم بہت خوش تھے کہ ہم گورنر ہاؤس جائیں گے اور وہاں مشاعرہ اٹینڈ کریں گے، وہ مشاعرہ دراصل ہماری ایک سینئر ساتھی کے اعزاز میں رکھا گیا تھا جو خود بھی بہت اچھی شاعرہ ہیں، ان کا تعلق برطانیہ سے ہے لیکن انھوں نے زمانہ طالب علمی میں ریڈیو پاکستان کراچی کے مشہور پروگرام ’’ بزم طلبا‘‘ میں بھی بڑے معرکے سر کیے تھے۔ یہ دراصل کراچی کے تمام تعلیمی اداروں سے منتخب طالب علموں کے لیے ایک ریڈیو پروگرام ہوا کرتا تھا۔

شاید آج کل فنڈز کی کمی کے باعث نہیں ہو رہا، اس پلیٹ فارم سے ملک بھر کے بڑے نامی گرامی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے حضرات، انجینئرز، صحافی، ڈاکٹرز، محقق، نقاد، ٹی وی اینکرز، پروڈیوسرز و ڈائریکٹرز، اساتذہ اور سیاسی میدان سے متعلق ایسے ایسے نام ابھرے ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔پھر۔۔۔۔

پھر یہ کہ ہم وہاں گئے لیکن وہاں کا ماحول دیکھ کر سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے، ہمارے معزز ساتھی جو کافی پہلے سے وہاں پہنچے ہوئے تھے پہلے بیٹھنے کے مسائل میں الجھے اور کافی بدمزگی ہوئی اس حوالے سے۔۔۔۔ پھر شعرا بھی سمجھ نہیں آئے کہ داد دینے کو دل ہی نہیں چاہ رہا تھا، وہ شعری ذوق، وہ توازن، وہ چاشنی۔۔۔۔ بہرحال یہ بھی سمجھ نہیں آیا۔

اور کیا کچھ سمجھ نہیں آیا؟

ہمیں ایک سینئر ساتھی نے بتایا جو باقاعدہ سرکاری ایوارڈ یافتہ ہیں کہ اسی طرح کی صورت حال اکثر سرکاری اعلیٰ اداروں میں ہوتی ہے کیونکہ ہم تو مہمان ہوتے ہیں اور منتظمین میزبان کو جس کا جو دل چاہتا ہے ویسا برتاؤ کرتا ہے، چاہے وہ گورنر ہاؤس ہو یا ایوان صدر۔

آپ اس صورت حال سے مطمئن ہیں؟

مطمئن تو نہیں ہیں، بہتری آنی چاہیے، یقیناً گورنر ہاؤس ہو یا اور ایوان صدر ،یہ سب ذمے دار مقام ہیں، وہاں سارے مہمان مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن عموماً جو بدنظمی نظر آتی ہے وہ تکلیف دہ ہوتی ہے، کھانے کے لیے محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ پہلے سے بہت کچھ طے شدہ ہوتا ہے، یہ مہمانوں کے لیے شرمندگی اور خفت کی بات بنتی ہے، بہت سے لوگ بغیر کھائے پئے چلے جاتے ہیں لیکن انتظامیہ سے متعلق حضرات اپنی مرضی سے ٹیبل لگوا رہے ہوتے ہیں۔

یہ سب دیکھ کر وہ سیاسی جلسے یاد آ جاتے ہیں جہاں کھانے کے لیے ہڑبونگ کے مناظر سوشل میڈیا پر دکھائی دیتے ہیں۔ کھانے کہاں غائب ہو جاتا ہے، سمجھ نہیں آتا۔آپ کو شکایت کس سے ہے، گورنر صاحب سے، صدر پاکستان سے یا منتظمین سے، یا کسی خاص جماعت سے؟

میرا خیال ہے کہ مجموعی طور پر بحیثیت قوم ہم برے سے برا بننے کی کوشش میں لگے ہیں اور جو ہمیں اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے ہم اسے ہی برا سمجھتے ہیں، یقیناً اس تقریب کے لیے ہم گورنر صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری ساتھی کے اعزاز میں یہ مشاعرہ رکھا، ان کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا، وہ لوگوں کے کام کروا رہے ہیں مسائل حل کر رہے ہیں لیکن وہ تمام ذمے داران جو کہیں بھی کام کر رہے ہیں دراصل وہ اپنے اداروں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ انھیں ضرور سوچنا چاہیے کہ آپ کسی کو عزت دیں گے تو آپ کو عزت ملے گی۔

ڈینس میاں نے شیرنی بننے کی کوشش کی لیکن اتنے سارے پیسے خرچ کرنے کے باوجود وہ بظاہر انسان سے جانور نہ بن سکے اور جب انھوں نے بظاہر انسان بننے کی دوبارہ کوشش کی تو انھیں سوائے مایوسی کے کچھ نہ ملا۔رب العزت نے ہمیں بے بہا نعمتوں کے ساتھ چلتا پھرتا مفید انسان بنایا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سب انسان بننے کی کوشش کریں، ایک اچھا انسان۔۔۔۔ نہ کہ خواہشات کے گھیرے میں الجھا ایک ایسا انسان جو ڈینس کی طرح جانور بننے کی کوشش کرتے کرتے تھک کر کسی گڑھے میں جا کر ہمیشہ کے لیے سوگیا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں