[ad_1]
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اچانک حادثاتی موت نے جہاں ایرانی قوم کو سخت صدمے سے دوچارکردیا ہے وہاں ان کی وفات نے کئی شکوک و شبہات اور سازشی نظریات کو بھی جنم دیا ہے۔
صدر رئیسی ایران کے صوبے مشرقی آذربائیجان میں ڈیم کا افتتاح کرنے گئے تھے۔ یہ ڈیم برسوں سے زیر تعمیر رہا تھا اور پھر تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کا افتتاح بھی وقت پر ہونے کے بجائے کئی سالوں سے ٹل رہا تھا۔ سوویت یونین سے آزاد ہونے والا ملک آذربائیجان بھی 1917 تک ایران کا حصہ تھا۔
سوویت یونین قائم ہوا تو ملک بھی اس یونین کا حصہ بن گیا، تاہم اس کا کچھ حصہ ایران کے پاس ہی رہا جسے ایران نے صوبہ مشرقی آذربائیجان کا نام دیا۔ یہ صوبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے جس پر گھنے جنگل پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں ڈیم کے افتتاح کے موقع پر صدر رئیسی نے ڈیم کی تعمیرکو خوش آیند قرار دیا اور اس موقعے پر بھی وہ فلسطینیوں کو نہیں بھولے۔ انھوں نے ان کی آزادی کے لیے دعا کی اور اسرائیلی سفاکی کی مذمت کی۔
ان کا قافلہ جو تین ہیلی کاپٹروں پر مشتمل تھا، واپسی کے لیے روانہ ہوا تو قافلے کے دو ہیلی کاپٹر خیریت سے منزل مقصود تک پہنچ گئے مگر صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹرکے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ جب تبریز سے سو کلو میل دور تھا سخت دھند اور بارش میں پھنس کر گھنے جنگل میں پہاڑیوں پر حادثے کا شکار ہو گیا۔
جس علاقے میں ڈیم کا افتتاح ہوا وہاں سے آذربائیجان کے ساتھ ساتھ آرمینیا کی سرحد بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ ایران نے آذربائیجان کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ اس ڈیم کے افتتاح میں ایران نے خیرسگالی کے طور پر آذربائیجان کے صدر کو مدعو کیا تھا اور وہ ایرانی دعوت پر اس تقریب میں شریک ہوئے تھے۔
کچھ تجزیہ کاروں کو لگتا ہے کہ یہ کسی دشمن کی سازش بھی ہوسکتی ہے۔ ایرانی حکومت کے عرب ملکوں کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ اگرچہ بہت مختصر تھا مگر اس میں اسرائیل کے مفادات کو بہت زک پہنچی ہے۔ اسی دور میں ایران کی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے برسوں پرانی ناراضگیاں اور بدگمانیاں دور ہوئیں اور نئے تعلقات کا دور شروع ہوا۔
اسی دور میں ایران کے روس اور چین سے بھی تعلقات میں سرگرمی آئی ہے۔ رئیسی کے زمانے میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ عرب ممالک نے ایران کے ساتھ اچھے مراسم بنا لیے ہیں۔ غزہ کی جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ عربوں کے مفادات اور فلسطینیوں کی آزادی کے لیے ایران سے دوستی خاصی فائدہ مند ہے۔
جس ہیلی کاپٹر بیل212 کے حادثے کے نتیجے میں رئیسی کی موت واقع ہوئی ہے وہ 45 برس پرانا تھا۔ اس میں اکثر خرابی پیدا ہوتی رہتی تھی مگر مقامی پرزوں سے ہی اس کی مرمت کی جاتی رہی کیونکہ امریکی حکومتوں نے ایران کو کسی بھی قسم کی دفاعی مصنوعات فروخت کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ ان ہیلی کاپٹرز کو امریکی کمپنی نے تیار کیا تھا اور شاہ ایران کے زمانے میں ایران نے انھیں امریکا سے خریدا تھا۔
کاش کہ ایرانی حکومت اب ان پرانے ہیلی کاپٹرز کے استعمال کو صرف مخصوص دفاعی کاموں تک ہی محدود کر دے تو بہتر ہوگا۔ بعض مغربی اخبار یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ صدر رئیسی کی شخصیت ایران میں بہت مقبول تھی اور انھیں اگلے رہبر اعلیٰ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای بھی ان کی شخصیت کو بہت پسند کرتے تھے چنانچہ خامنہ ای کے جانشین کے طور پر بھی انھیں دیکھا جا رہا تھا جب کہ خود خامنہ ای کے فرزند کے رہبر اعلیٰ بننے کی بات محض افواہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
سابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ابراہیم رئیسی کی موت کا ذمے دار امریکا کو قرار دیاہے کیونکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی ایوی ایشن انڈسٹری کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔صدر رئیسی کی موت کی اصل وجہ اور اس حادثے کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔
ان تمام سوالوں کے جواب رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے حادثے سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ضرور آشکار ہو جائیں گے۔فی الحال تو سب قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ایرانی حکومت نے بھی ابھی تک کسی پر کوئی الزام عائد ہے اور شک ظاہر کیا ہے۔
[ad_2]
Source link