[ad_1]
پاکستان کی ترقی کے بیانیہ کا جائزہ لیں تو اس میں کمزور طبقات یا محروم طبقات سمیت چھوٹے علاقوں یا دیہی علاقوں کی ترقی کا عمل ایک بڑی سیاسی طبقاتی تقسیم کا شکار نظر آتا ہے۔
ایک محدود طبقہ یا پہلے سے مراعات یافتہ طبقہ کی ترقی سے جڑا بیانیہ معاشرے میں جہاں عدم استحکام کی سیاست کو پیدا کرتا ہے وہیں ریاستی و حکومتی نظام کے بارے میں پہلے سے موجود سیاسی ، سماجی اور معاشی خلیج کو نمایاں کرتا ہے ۔لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ترقی کا بیانیہ غیر منصفانہ ہے اور وسائل کی تقسیم یہاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی ترقی کا ایجنڈا یا ان کی ترجیحات ریاستی و حکومتی قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکیں۔ بظاہر ایک عمومی تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ترقی کا ماڈل بڑے شہروں تک محدود ہے مگر بڑے شہروں کے مسائل چھوٹے شہروں سے بھی زیادہ خوفناک منظر پیش کرتے ہیں۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک معروف سماجی تنظیم ’’ لودھراں پائلٹ پروجیکٹ ‘‘ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی شعبہ سیاسیات اور سدرن ڈولیپمنٹ کنسورشیم کے باہمی اشتراک سے ایک اہم کانفرنس ’’جنوبی پنجاب کے لوگوں کا ایجنڈااور ترقیاتی ترجیحات‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔
کانفرنس اس لحاظ سے اہم تھی کہ اس میں تمام فریقین یعنی حکومت، علمی و فکری ادارے، سماجی تنظیمیں، میڈیا، عوامی نمایندے، ترقیاتی امور کے ماہرین، تحقیق کے شعبہ میں کام کرنے والے اسکالرزکی نہ صرف شرکت بلکہ مختلف امور سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی گفتگو بھی تھی۔
گفتگو کی بنیاد محض جذباتیت پر مبنی خیالات یا سیاسی نعروںیا محض بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ نہیں بلکہ تحقیق کی بنیاد پر جنوبی پنجاب سے جڑے مسائل کی نشاندہی اور حل پر رکھی گئی تھی، سوالوں جواب کی نشست نے عملی طور پر ایک مکالمہ کے ماحو ل کو پیدا کیا۔
ڈاکٹر عبدالصبور جو جنوبی پنجا ب کی ترقی کا ایک بہتر ماڈل کے ساتھ سرگرم ہیں او رکئی دہائیوں سے عالمی و ملکی ترقیاتی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں ۔ مقامی ترقی او رمقامی مسائل پر ان کی گہری نظر ہیں او رمقامی دیہی و شہری علاقوں کے لوگوں کے ساتھ یا حکومتی اداروں کے ساتھ عوامی ایڈوکیسی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
وائس چانسلر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی شاہ ، شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر مقرب اکبر، کنٹری ڈرایکٹر ڈبلیو ایچ ایچ عائشہ جمشید، انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے سربراہ رفیق جعفر، مالیاتی امور کے ماہر عامر اعجاز ، اقصی احمد کی کاوشوں سے اس اہم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جنوبی پنجاب کی ترقی سے جڑے بنیادی نوعیت کے سوالات کو بنیاد بنا کر عوامی ترجیحات و تحقیق کی بنیاد پر جو فکری، علمی، سیاسی اور ادارہ جاتی تضادات یا فکری مغالطے تھے کو نمایاں کیا گیا۔
حکومتی اداروں کی ترجیحات او رپہلے سے جاری منصوبوں پر سوال جواب کی نشستوں میں کافی تنقید کی گئی او رایسے لگا کہ حکومت یا مقامی حکومتی اداروں اور عوام کی سوچ اور فکر میں ایک نمایاں فرق بھی ہے اور ردعمل کا پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔ کانفرنس کے جس بھی سیشن میں حکومتی اقدامات یا ان کی ترجیحات پر عوامی ووٹنگ کروائی جاتی تو لوگوں کا نقطہ نظر حکومت سے مختلف ہوتا تھا ۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالصبور، رفیق جعفر اور عامر اعجاز نے جو بھی نقشہ جنوبی پنجاب کا کھینچا وہ یقینی طور پر قابل توجہ ہے۔
مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی اور ایک مضبوط اور موثر خود مختار مقامی سطح کے مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کی پالیسی ، عدم تسلسل یا ان کو کمزور کرنے کی سوچ نے جنوبی پنجا ب میں کمزور طبقات کی ترقی سے جڑے ماڈل کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ راقم نے بھی ایک سیشن میں ان پہلووں پر نظر ڈالی کہ اختیارات کی عدم مرکزیت کو بنیاد بنانے کی جس پالیسی سے مسلسل انحراف کیا جارہا ہے اس نے 18ویں ترمیم کے باوجود ملک میں مرکزیت پر مبنی نظام کو ہی طاقت دی ہوئی ہے۔
اس نقطہ پر بھی زور دیا گیا کہ صوبائی خود مختاری کا عمل مقامی خود مختاری کے بغیر ممکن نہیں۔ مسئلہ محض نئے صوبے نہیں بلکہ صوبوں کی جانب سے مقامی سطح پر خود مختار ی کا ہے جس میں سیاسی ،انتظامی او رمالی خود مختاری ہے ۔
ریاستی و حکومتی پالیسی سازی کے عمل یا ان سے جڑے مراحل کو اس کانفرنس میں چیلنج کیا گیا۔ایک مسئلہ بجٹ کا محدود ہونا اور دوسرا مسئلہ کم بجٹ کے باوجود اسی بجٹ میں کٹوتی کی سیاست یا بجٹ کا خرچ نہ ہونا بھی ہے۔ بیوروکریسی کی سولو فلائٹ نے بھی مقامی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے او ر ایسے لگتا ہے کہ ہم سیاسی تنہائی میں جنوبی پنجاب کی ترقی کو ممکن بنانا چاہتے ہیں ۔ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کو مکمل فعال اور بااختیار کیا جائے اور یہاں ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے بجائے مکمل چیف سیکریٹری کی تقرری کو یقینی بنایا جائے۔
جنوبی پنجاب کے لیے جو ترقیاتی سطح پر 35فیصد بجٹ رکھا جاتا ہے اس کو مکمل خرچ کرنے کا واضح روڈ میپ ہونا چاہیے ۔ اسی طرح مقامی ترقی سے جڑے مسائل کی نگرانی یا شفافیت سمیت جوابدہی و احتساب کے عمل کو ہر صورت ترقی کی ترجیحات کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ ضلعی سطح پر سالانہ ترقیاتی پلان کو ترجیحی بنیاد پر فوقیت دی جائے اور یہ منصوبہ عوامی نمایندوں اور بیوروکریسی سمیت سول سوسائٹی کے اشتراک سے آگے بڑھایا جائے۔
سول سوسائٹی سے وابستہ اداروں نے سماجی تنظیموں کے لیے سازگار حالات کو پیدا کرنے اور پالیسیوں میں کڑی نگرانی کو بنیاد پر سماجی تنظیموں کی حوصلہ شکنی سے جڑی پالیسیوں پر عدم اعتماد کیا او رکہا کہ پالیسیوں میں نرمی سمیت سول سوسائٹی کی مجموعی حیثیت کو تسلیم کیا جائے ۔
اسی طرح کانفرنس میں اس نقطہ پر بھی بہت زیادہ بات کی گئی کہ انتظامی ڈھانچوں کی ترقی یا انفرااسٹرکچرزکی ترقی اہم ہے مگر جب تک صوبہ میں انسانی ترقی کو بنیاد بنا کر عوامی شراکت یا عوام کی فیصلہ سازی میں شمولیت کو بنیاد بنا کر روڈ میپ تشکیل نہیں دیا جائے گا اس ترقیاتی نظام کی کسی بھی سطح پر کوئی ساکھ قائم نہیں ہوسکے گی۔زراعت اور تعلیم سمیت صحت کے بجٹ کو بڑھایا جائے اور کسانوں کو سبسڈی دینی ہوگی ۔اسی طرح صاف پانی ، ماحولیات پر توجہ دے کر ترقی کے بیانیہ کو بنیاد بنانا ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ جامعات کی سطح پر سول سوسائٹی کے اشتراک سے اس طرز کی کانفرنس کا انعقاد اور قومی ترقی کے عمل کو ایک بڑی سیاسی اور معاشی بحث کے ساتھ جوڑنے میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کی خصوصی دلچسپی اس نقطہ کو تقویت دیتی ہے کہ پہلے سے موجود غیر منصفانہ ترقی کے ماڈل کا متبادل ماڈل جامعات میں ہونے والی علمی اور فکری مباحث کی بنیاد پر ممکن ہوگا،لیکن اس طرز کی کانفرنسوں کو تواتر کے ساتھ کرنا ہوگا۔
[ad_2]
Source link