[ad_1]
ویب ڈیسک: یادش بخیرروزنامہ ایکسپریس،سنڈے میگزین میں خاکسار کے پچیس مضامین پر مبنی ایک سلسلہ بعنوان’سخن شناسی‘ 2017ء میں شایع ہواتھا۔ اس سلسلے کااوّلین مضمون اتوارچارجون کو شایع ہواتھا: ”الف سے آم شریف‘‘۔آج موضوع سے متعلق ایک اہم انکشاف نذرِ قارئین کرام کرنا چاہتاہوں تو میرے لیے اُسی مضمون کے مندرجات (مع ترامیم واضافہ) نقل کرنا گویا ناگزیر اَمر محسوس ہوتا ہے۔
آج آپ کی ذہانت کی آزمائش ہے۔ بتائیے، غالبؔ، ذوقؔ، داغؔ، اکبر ؔ الہٰ آبادی، اقبالؔ اور سہیل احمد صدیقی میں شاعری کے علاوہ کیا قدر مشترک ہے؟ جی ….. جواب ہے، آم۔ اس طرح کا سوال محض ازراہ ِ تفنن کیا گیا، یہ نہ سمجھیں کہ خاکسار نے خدانخواستہ اساتذہ کی ہم سری کی سعی کی ہے۔
(اس مضمون کی اشاعت کے بعد، اس فہرست میں خاکسار کے شاعر دوست عزیزم نوید سروش (مقیم میرپورخاص المعروف ’آموں کا شہر‘)، ہومیوڈاکٹر فرید اللہ صدیقی (بزرگ ناول نگار،افسانہ نگار، صداکار، اداکار)، شاعر جناب راشد حسین عادل صدیقی(رُکن بزم زباں فہمی;ممتاز شاعر حسن حمیدی مرحوم کے داماد) اور شاعر وصحافی حافظ سلمان رسول (مقیم لاہور) کا اضافہ ہوا)۔
یہ موسم،آم شریف کا موسم ہے۔اسے شریف(یعنی شرف و عزت کا حامل) کا لقب مابدولت نے بہت سال پہلے، گھریلو بات چیت میں عنایت کیا تھا۔ اب ہماری ایک چہیتی ہمشیرہ جب کبھی ہمارے مُنھ سے یہ ترکیب سنتی ہے تو فوراً ہنس کر استفسار کرتی ہے: ’کیوں باقی پھل بدمعاش ہیں کیا؟‘۔اب اگر کوئی کہے کہ صاحب! اس کی شرافت و عظمت ثابت کیجے تو کیا یہ کافی نہیں کہ آم ایسا پھل ہے جو ہر شکل میں مفید ہے، خواہ اس کی گھٹلی ہو، گُودا ہو، چھلکا ہو، پتّا ہو، بور (پھل سے پہلے کے پھول)،ہو یا کچی شکل میں آم۔یا۔کیری…..، اَم چُور(آم کا چُورا، کھٹائی) کی شکل میں استعمال کریں،(محاورے میں سوکھے سہمے، لاغر یا کًبڑے شخص نیز بوڑھے کو اَم چُورکہاجاتا تھا)۔ کیری کا پَنّا بنائیں (گرمی کے اثرات ختم کرنے کو)، کیری کی چٹنی بنائیں،گُڑمبہ بنائیں،آم کا گودا کھائیں، اَم رس (یعنی Mango shake) بنا کر پئیں …. اس کے علاوہ بھی آم کئی طر ح، خاص طورپر،دواؤں میں استعمال ہوتا ہے۔
اس کے کیمیاوی خواص[Chemical benefits] یا طبی خواص[Medicinal benefits] تو انٹرنیٹ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔آم سے متعلق اتنے سارے الفاظ کے ساتھ ساتھ ایک نسبتاً غیرمعروف لفظ بھی ملاحظہ فرمائیں، اَمرَیاں یعنی آم کے درختوں کا جھُنڈ۔آم کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اُس کی آمد سے ذرا پہلے اور اُس کے ساتھ ساتھ یا فوراً بعد متواتر پھل بازار میں آجاتے ہیں تو پھر ہوا نا شریف اور بادشاہ۔
عموماً لغات میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ آم ہندی زبان کا لفظ ہے۔ راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ کی مؤلفہ ہندی اردولغت (اضافہ و مقدمہ از قلم قدرت نقوی، شائع کردہ: انجمن ترقی اردو۔کراچی: ۷۹۹۱ء) کی رُو سے آم تو ایک بیماری کا نام ہے اور آم بدہضمی کو کہتے ہیں، جبکہ پھل آم کے لیے لفظ ہے: آمب۔ اس کے معانی یوں درج ہیں: آم، امبہ، نغزک۔ پنجابی سمیت پنجاب کی مختلف زبانوں میں نیز سندھی میں یہ لفظ تھوڑے بہت تغیر سے ملتا ہے اور برصغیر پا ک وہند کی کئی زبانو ں اوربولیوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ غالباً سب سے مشہور متبدل (تبدیل شدہ) لفظ ہے: امب۔ اسی سے امبیاں (کیریاں)بھی رواج میں سنائی دیتا ہے۔
اب جبکہ فی البدیہہ لکھتے لکھتے لغت اٹھاہی لی ہے تو لگے ہاتھو ں اپنی پسندیدہ لغت، فرہنگ آصفیہ سے خوشہ چینی بھی کرلیں۔یہاں لکھا ہے کہ یہ اسم مذکر ہے۔ سنسکِرِت کے لفظ آمِر سے نکلا ہے،پالی (قدیم بدھ مت کی مذہبی زبان) میں انبو ہوگیا، پراکِرِت میں اَنبم[Ambam]، نیز فارسی والوں نے اسے اَنبہ کرلیا ہے، پھر ایک شکل اَنب بھی لکھی ہے، یعنی وہی مقامی زبانوں کا امب اور پھر نغزک۔
اردو میں آم کی نسبت سے کئی کہاوتیں (اور محاورے) رائج ہیں یا کم ازکم متروک ہوکر بھی لغات کا حصہ ہیں، جیسے:
ا)۔ آم کے آم، گھٹلیوں کے دام (یعنی آم سے دُہرا فائدہ ہوا۔ آم کی فروخت سے نفع اور گُٹھلیاں الگ بیچنے سے اُن کے بھی دام مل گئے)۔ ب)۔آم کھانے سے کام یا پیڑ گننے سے۔(یعنی اپنے کام سے کام رکھو)۔ ج)۔آم بوؤگے تو آم کاٹوگے، اِملی بوؤ گے تو املی کاٹو گے۔
(نوراللغات)۔یوں توآم کے پیڑ جھُولا ڈالنے کے لیے بہت مشہور رہے ہیں، مگر جناب اِن پر جنات بھی بڑے شوق سے بسیرا کرتے ہیں۔یہ کوئی چالو بات نہیں، روحانیت کے ماہرین کی تصدیق سے، اور، میرے اپنے مشاہدے سے ثابت ہے۔کئی سال قبل، پی ای سی ایچ ایس میں ہماری ایک خالہ نے ایک بنگلہ کرائے پر لیا۔ وہاں آم کا ایک درخت تقریباً سارا سال پھل سے لدا ہوادکھائی دیتا تھا، مگر پھل توڑنے سے منع کیا جاتا تھا، کیوں کہ جنات کے اثر سے ہوتا یہ تھا کہ آم توڑو تو زمین پر گرتے ہی جامن میں تبدیل ہوجاتے تھے۔(یہاں یہ بھی یادرکھیں کہ آم زیادہ کھانے سے بدہضمی ہوجائے تو جامن اور جامن کی زیادتی سے ایسا ہو تو آم کھانے کا مشورہ اَطِباء نے دیا ہے)۔ایک دورتھا کہ شہر کے ہر علاقے میں کم از کم ایک دو یا چار درخت آم کے ہوا کرتے تھے، آج پوری پوری بستی میں خال خال کوئی درخت نظر آتا ہے۔
میرے ناقص علم کے مطابق، غالباً،غالبؔ اوّلین اردو شاعر ہیں جنھوں نے آم کی شان میں ایک مثنوی لکھی ہے۔ اسی عظیم پھل کے متعلق اُن کا شعر ہے:
مجھ سے پوچھو، تمھیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر (گنّا) کیا ہے
ایک اور شاعر آبادؔ لکھنوی کا شعر بھی ملتا ہے:
شیریں نہ کس طرح صفت لب میں شعر ہوں
ٹوٹے ہوئے یہ آم ہیں، سب ایک ڈال کے
ویسے آبادؔ لکھنوی کا یہ مشہورشعر اُن کی پہچا ن ہے:
سننے والوں نے سنی مجھ سے حدیث آرزو
دیکھنے والے مِرا طرز بیا ں دیکھا کئے
(”اردو کے مشہور اشعار۔ ایک جائزہ“ از سہیل احمد صدیقی۔ کینوپس پبلی کیشنز، کراچی: ۱۰۰۲ء)
ماضی قریب میں ہمارے بزرگ شاعر جناب ساغرؔ خیامی کا کلام بلاغت نظام اسی لذیذ پھل کی شان میں کئی بار نظر سے گزرا۔
یوں تو برصغیر پاک وہند کے متعدد شہروں کے مختلف آموں کی دھوم ہے، مگر ایک شہر امروہہ کے متعلق قیاس ہے کہ یہ نام آم اور روہو مچھلی کے ملاپ سے بنا ہے کہ کسی دورمیں ان دونوں چیزوں کی یہاں بُہتات تھی، مگر اس پر اہل امروہہ کا اتفاق نہیں۔
امریکا کی ریاست فلوریڈا کے متعلق پڑھا تھا کہ وہاں آم کے کچھ درخت ہیں، جن سے آم گرتے رہتے ہیں، مگر انتہائی کڑوے، بدذائقہ ہوتے ہیں، لہٰذا بلدیہ کا عملہ روز صبح سویرے جھاڑو پھیرکر لے جاتا ہے….ہائے ہائے کیا عذاب الٰہی ہے، آم کھانے کو ترستے ہیں، وہاں کے لوگ! ویسے امریکا میں ہمسایہ ریاست میکسیکو کے آم کی ریل پیل ہے۔
آم کی کُل کتنی اقسام پائی جاتی ہیں، بندہ اس سے لاعلم ہے، مگر یہ پتا ہے کہ آموں کے شہر، میرپورخاص میں جب ’آموں کا سالانہ میلہ‘ لگتا ہے تو کم وبیش ڈھائی سو اقسام کے آم نمائش کے لیے پیش کئے جاتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ سال قبل، خاکسار کے گھر کے پاس، لبِ سڑک، ایک باریش صاحب، بلا تکلف، (جیسا کہ ہونا چاہیے)، آم خوری فرمارہے تھے۔ بہت بے تکلفی سے اس ضمن میں گفتگو فرماتے ہوئے انکشاف کیا کہ میرا تعلق ’آموں کے شہر‘ سے ہے اور وہ جو میلے والے آم آپ کو ٹی وی پر نظرآتے ہیں،ہمارے شہر میں ہمیں نصیب نہیں ہوتے۔پچھلے برس میرپورخاص کے اسی آم۔میلے میں ’انمول‘ نامی ایک قسم کی نمائش کی گئی جو قدرتی طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید پایا گیا ہے۔کیا شان ہے اس پروردگار کی!
اسی پر بس نہیں، گزشتہ سال ایک ٹیلی وژن چینل پر نشر ہونے والی روداد سے علم ہوا کہ لندن میں ہونے والی ”آم نمائش“ میں پاکستان سے کوئی ساڑھے چھَے سو (650)اقسام کے آم رکھے گئے ہیں۔ بندہ تو ششدر رہ گیا کہ یا اللہ! یہ نعمت اس قدر مُتَنَوِع ہے اور ہمیں تو فقط سات آٹھ قسم کے آم ہی میسر ہیں۔وہ جو ہمیں اسلامی تعلیمات میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں ہر پھل کی سات سات قسمیں ہوں گی، اس کی زندہ مثال یہی آم شریف کی ذات شریف ہے۔
صاحبان بات چل نکلی ہے،اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ملیح آباد،ہندوستان کے ایک بزرگ حاجی کلیم اللہ خان المعروف’مینگومہاراجا‘ نے آموں کے متعلق مسلسل تحقیق کرکے تین سو سے زائد اقسام کے آم اپنے چودہ ایکڑ پرمحیط باغ میں لگائے ہیں۔ انھیں ہندوستانی حکومت نے ’پدم شری‘ اعزاز سے نوازا ہے۔ اُن کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے آم کی ایک ایسی قسم کاشت کی ہے جو سارا سال پھل دیتی ہے;گویا ’سدا آم‘۔ابھی جب مزید تحقیق کی تومعلوم ہواکہ پاکستان میں بھی سید محمد شاہ گیلانی اور اُن کے بھائی جعفرشاہ گیلانی صاحب ’بارہ ماسی‘ آم اُگاتے اور دوستوں کوکھِلاتے ہیں۔
تونسہ شریف سے چونسے کو کوئی نسبت ہو نہ ہو، نام صوتی اعتبار سے مماثل ہے اور بہت سے آم پسند اسی قسم کو آموں کا سردار سمجھتے ہیں۔خاکسارنے اسے ’چونسہ شریف‘ کا لقب دیا ہے۔لگے ہاتھوں یہ ذکر بھی ہوجائے کہ کالے چونسے کی بڑی ناقدری ہوتی ہے کہ اُس میں بال جیسا ریشہ ہوتا ہے، اس لیے اُسے کم کھایا جاتا ہے۔حالانکہ وہ بے چارہ تو موسم کے آخر تک چلتا رہتا ہے۔ رحیم یار خان کا کالا چونسہ بہت مشہور ہے۔اس کے برعکس دوسرے چونسے کو ’سفید چونسہ‘ کہتے ہیں او ر اس کی نقل بھی کم ازکم دو ہیں جو پچھلے کچھ سال سے بہت بِکتی ہیں اور بہت سخت، ٹھوس اور کم میٹھی ہوتی ہیں۔ہمارے علاقے کے ایک میوہ فروش کا دعویٰ ہے کہ کراچی میں بِکنے والا ملتانی چونسہ آم تو ملتان سے آتا ہی نہیں، یہ دھوکا ہے۔کہیں اور کا آم اُس کے نام پر بکتا ہے۔
اب ذکرکرتے ہیں ’انوررَٹول‘ کا جسے ابھی ابھی اسی راقم نے ’انور رٹول شریف‘ کا لقب عطا کیا ہے۔میری طرح میرٹھ کی صدیقی برادری سے تعلق رکھنے والے ممتاز ہندوستانی محقق ڈاکٹر راحت ابرارصدیقی صاحب نے گزشتہ دنوں فیس بک پر خاکسارسے گفتگومیں انکشاف کیا کہ انور رٹول کا وطن، مبارک باغ، رٹول، ضلع باغپت، اُترپردیش ہے۔ اس کا یہ نام اُن کے داداجناب انوارالحق سے منسوب ہے۔(بول چال میں بگڑ کر یہ نام اَنور ہواتو انور رَٹول بھی اسی طرح نام پڑا)۔ہندوستان سے یہ آم ملتان(پاکستان) لاکر کاشت کرنے کا سہرا محترم انوارالحق کے فرزند جناب اَبرارالحق کے سر ہے۔جنرل ضیاء الحق مرحوم نے یہی آم سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کو پاکستان سے بطور تحفہ بھجوایاتھا۔اچھا تو آپ میں سے کون کون ’آم پسند‘ یہ بتاسکتا ہے کہ اصلی انوررٹول کی پہچان کیا ہے اور اس کے نام پر کون سا آم بِک رہا ہے؟
جناب! اصلی انوررٹول خواہ چھوٹا ہو یا درمیانہ (بڑا توخال خال ہی بازار میں دکھائی دیتا ہے)، اُس کی خوشبو اس قد رتیز ہوتی ہے کہ دور سے سُنگھائی دیتی ہے اور ہاتھ لگاؤ تو انگلیوں میں کچھ دیر کے لیے بس جاتی ہے، نیز ذائقہ شہد جیسا میٹھا ہوتاہے۔ کوئی دوسال قبل کھارادرسے بطور خاص ایک پیٹی خریدی۔بخدا تین دن تک ٹیکسی سے اُس کی خوشبو نہ گئی۔ ہاں مگر اتنی خالص قسم ذرا کم ہی ملتی ہے، بلکہ شاید زندگی میں واحد موقع تھا جب اس قدر خالص انوررٹول نصیب ہوا۔اس کی نقل ہیں، دیسی اور مٹکا آم جو ’بارہ نمبر‘ اور’چوبیس نمبر‘ بھی کہلاتے ہیں۔ کسی ایمان دار ٹھیلے والے سے دریافت کریں تو تصدیق ہوجائے گی۔ان کی قدر اور بازاری قیمت میں دگنے کا فرق ہے۔
’پھلوں کے بادشاہ‘آم کی ایک قسم کا نام ’لال بادشاہ‘ اور ’سُندَرہے۔ وہ واقعی بہت سُندَر ہے۔ایک نظر میں لگتا ہے کہ آڑو اور سیب کے درمیان کی کوئی شئے ہے۔ ہائے افسوس!اُس آم شریف سے فیض یاب ہونے سے محروم رہ گئے۔
آم کی دیگر اقسام میں ثمر بہشت کا ذکر اَب کتابوں تک ہی محدود ہے۔ یہ آم ہندوستان سے ہمارے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے دادا، یہاں، سندھ میں لائے اور اپنے گاؤ ں سندھڑی (سانگھڑ)کے نام پر اس کا نام رکھا۔ (اس نام کا درست تلفظ ہے: جونڑے جو)۔
ایک اور تحقیق کے مطابق یہ آم مدراس سے منگوایاگیا تھا اور شاید اسی وجہ سے بعض لوگ ثمربہشت کی الگ شناخت پر اصرارکرتے ہیں۔
ہندوستان کے آموں کی متعدداقسام مثلاًالفانسو، بادامی، کیسر، ملغوبہ،رَس پوری، ہِم ساگرنیز دیگر 283 اقسام (بشمول امام پسند،امراپلی، پیری، عالم پوربنیشن) سے یہاں بمشکل کوئی واقف ہوگا۔
اس آم کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمارا نام روشن ہوا، مگر افسوس! بازار میں اس کی سب سے گھٹیا قسم دستیا ب ہوتی ہے۔یہی حال ہے مشہور زمانہ ’لنگڑا‘ کابھی ہے جس کے متعلق علامہ اقبال کا ایک شعر ملتا ہے۔ایک مرتبہ اکبرؔ الٰہ آبادی نے انھیں الٰہ آباد سے لنگڑا آم کی ایک پیٹی بھیجی۔ جب علامہ نے پیٹی وصول کی تو بطور رسید شعر کہا:
اثریہ تیرے انفاسِ مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہٰ آباد سے لنگڑا چلا، لاہور تک پہنچا
گلاب کو ’پھلوں کا بادشاہ‘کہا جاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے۔(مَلِکہ کا لقب دیا گیا ہے، گلِ داؤدی کو)۔مگر جناب ’گلاب خاص‘ کسی گلا ب کا نہیں، بلکہ آم کی ایک قسم کا نام ہے۔جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ’گلاب خاص‘ شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈائنا کو اِرسال کیا تھا۔ بعض قارئین کو جنرل صاحب کے حادثے میں آم کا کرداربھی یاد آرہا ہوگا۔
کسی زمانے میں شراب کو ’لال پری‘ کہا جاتا تھا، مگر ’توتا پری‘ نام ہے، آم کی ایک قسم کا۔(زباں فہمی کے سلسلے میں ایک کالم میں طوطا کی بجائے توتا درست ہونے پر خامہ فرسائی کرچکا ہوں)۔غیر منقسم ہندوستان کی ایک ریاست کا نام مالدہ تھا، یہ آم کی ایک قسم کا بھی نام ہے۔بات کی بات ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک پھل والے نے انکشاف کیا اور ہمیں بیچا بھی، مالدہ آم اُس کے بقول سب سے آخر میں،بنّوں (خیبر پختون خوا)سے آتا ہے، دسمبر تک دستیا ب ہوتا ہے۔ مگر ہمیں جو بیچا، کھانے کے لائق نہ تھا۔پھر گزشتہ دسمبر میں، اور اُس کے بھی بعد، ایک اور قسم دیکھی مگر خریدی نہیں،’چینی آم‘….اس پر کیا تبصرہ کروں؟؟
اس کے علاوہ آم شریف کی دیگر اقسام میں دسہری(دوسہری)، سرولی، فجری، کالا چونسہ، غلام محمد، فجری کلاں،کلکٹر، بیگن پھلی، الماس اور نیلم معروف ہیں یا رہ چکے ہیں۔ آخری پانچ آم تو بہت بڑے اور ذائقے میں بالکل مختلف ہوتے ہیں، حتیٰ کہ راقم کو یہ کہہ کر اپنے گھر والوں کوکھلانا پڑتا ہے کہ پپیتا سمجھ کر ہی کھالو۔ یہ اور بات کہ اب ہم، بیماری کے سواء، پپیتے کے پاس بھی نہیں پھٹکتے او رگزشتہ چند سالوں میں اُس کی قدروقیمت اسی بناء پر بہت بڑھ چکی ہے کہ اُس کا کئی طرح دوائی استعمال عام ہو رہا ہے۔
[ad_2]
Source link