11

موسمی تغیر امریکی مالیاتی نظام کو کیسے متاثر کرے گا؟

[ad_1]

بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت (گلوبل وارمنگ) کے نتیجے میں ہونے والے موسمی تغیرات کے اثرات دنیا بھر میں مشاہدے میں آرہے ہیں۔ کہیں غیرمتوقع طور پر شدید بارشیں ہورہی ہیں، سیلاب آرہے ہیں تو کہیں خشک سالی ڈیرے ڈال رہی ہے۔ دو سال قبل پاکستان میں بدترین سیلاب نے تباہی مچائی تو رواں سال متحدہ عرب امارات کی ریاستوں میں شدید بارش نے سب کو حیران کردیا ہے۔

عالمی موسم میں آنے والے بدلاؤ اور اس کے اثرات پر برسوں سے عالمی سطح پر بحث جاری ہے اور ان اثرات سے نمٹنے یا ان کی شدت کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات پر زور دیا جارہا ہے، تاہم عالمی معاہدوں کے باوجود عالمی درجۂ حرارت میں کمی کے لیے تاحال کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے جاسکے، کیوںکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک سمجھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی غرض سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانی ہوگی جس کا ان کی صنعتی ترقی پر منفی اثر پڑے گا، کیوںکہ سب سے زیادہ یہ ماحول دشمن گیس فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں خارج ہوتی ہے۔

عالمی طاقتوں کی بے حسی کا نتیجہ جہاں قدرتی آفات کی صورت میں پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں وہیں خود یہ ممالک بھی محفوظ نہیں اور ان ممالک کو بھی قدرتی آفات کا سامنا ہے جن میں امریکا بھی شامل ہے۔

امریکا میں گلوبل وارمنگ یا عالمی گرماؤ کے مختلف شعبوں پر اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے تحقیقی جائزے لیے جارہے ہیں۔ گذشتہ برس امریکا کے مالیاتی نظام پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو نے 6 سب سے بڑے سرمایہ کاری بینکوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ شدید سمندری طوفان، آتش زدگی اور سیلاب اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے استعمال کو ترک کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان بینکوں میں جے پی مورگن چیس، بینک آف امریکا، ویلز فرگو، گولڈمین ساشے، مورگن اسٹینلے اور سٹی گروپ شامل ہیں۔

امریکا کے مرکزی بینک نے یہ جائزہ رپورٹ اب جاری کردی ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جارہا تھا۔ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمال مشرقی امریکا میں ایک بڑا سمندری طوفان وال اسٹریٹ بینکوں کو قرضوں کی واپسی میں رکاوٹ بن سکتا ہے کیونکہ سمندری طوفان اور اس کے مابعد اثرات کی وجہ سے ان بینکوں کے قرض گیر، قرض واپس کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

اس جائزہ رپورٹ کی بنیاد انہی بینکوں سے حاصل کردہ اعدادوشمار پر ہے جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ روایتی ایندھن سے متبادل ماحول دوست ایندھن پر منتقلی کے مالیاتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جن میں کھاتے داروں کا دیوالیہ ہوجانا بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر 2050 میں شمال مشرقی امریکا میں شدید سمندری طوفان آتا ہے تو اس سے خطے میں پانچ بینکوں کے مشترکہ طور پر نصف سے زائد ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو رہائشی تعمیرات کے مقاصد کے لیے دیے گئے قرضے متاثر ہوں گے۔

رپورٹ میں قدرتی آفات سے بینکوں کا کاروبار متاثر ہونے کی پیش گوئی تو کی گئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ہر بینک نے کیا تیاری کر رکھی ہے اور نہ ہی خطرے کی شدت کا اندازہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے یہ رپورٹ مستقبل میں قدرتی آفات اور ماحول دوست توانائی پر منتقلی کے اثرات کو جانچنے کی پیچیدگیوں کی جھلک پیش کرتی ہے، اور یہ کہ دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کے لیے یہ دونوں (قدرتی آفات اور ماحول دوست توانائی پر منتقلی) کیا معنی رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس جائزے کے بیشتر حصوں میں بینکوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جائیداد کی انشورنس کی کوریج کے اعدادوشمار خاصا فرق آرہا تھا۔

فیڈرل ریزرو نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس (جائزے) کا مقصد بڑے بینکاری اداروں کے موسمی تغیرات سے جڑے خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار کے بارے میں جاننا اور ان خطرات کی نشاندہی، نگرانی اور ان سے نمٹنے میں بینکوں اور ریگولیٹرز کی اعانت کرنا ہے۔

ماضی میں گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے سلسلے میں اقوام عالم سے اقدامات کا مطالبہ کرنے والے ادارے و افراد، بعدازآں بائیڈن انتظامیہ نے بھی مالیاتی نگرانوں پر زور دیا کہ وہ امریکا ککے مالیاتی نظام کے لیے گلوبل وارمنگ کے خطرات پر غور کریں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے 2021 میں ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس میں انتظامیہ سے کہا گیا تھا کہ موسمی تغیرات کے مالیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے بعد چوٹی کے مالیاتی نگرانوں کی تنظیم نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس کے تمام اراکین بشمول فیڈرل ریزرو، سے کہا گیا کہ وہ موسمی تغیرات کے مالیاتی نظام پر اثرات کا جائزہ لیے۔

فیڈرل ریزرو کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان میں ری پبلکن پارٹی کے نمائندوں نے کہا کہ مالیاتی نگرانوں کو موسمی تغیرات سے متعلق مسائل سے الجھنے کا اختیار نہیں ہے۔ مخالفین نے فیڈرل ریزرو پر مالیاتی نگرانی کا استعمال کرتے ہوئے تیل و گیس کی صنعت کو دیوالیہ کرنے کرنے کی کوشش کا بھی الزام عائد کیا۔

اس کی نفی کرتے ہوئے فیڈرل ریزرو کے حکام نے کہا ہے کہ اس جائزہ رپورٹ کی بنیاد پر بینکوں کے لیے کوئی نئے قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی مرکزی بینک انہیں کسی مخصوص صنعت کے ساتھ کاروبار کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی ہدایت دے گا، بلکہ اس رپورٹ کا مقصد صرف یہ جاننا ہے کہ مستقبل میں موسمی تغیر ملکی مالیاتی نظام کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔

پروجیکٹ ریٹرو

جب امریکا نے روس کے ایٹمی حملے سے بچنے کے لیے زمین کی گردش روک دینے کا منصوبہ بنایا!

1960 میں جب کہ امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی، امریکا نے اپنی سرزمین کو روسی نیوکلیائی ہتھیاروں سے محفوظ رکھنے کے لیے زمین کی گردش کو روک دینے کا حیران کُن منصوبہ بنایا تھا۔

اس انتہائی خفیہ منصوبے کو ’پروجیکٹ ریٹرو‘ کا نام دیا گیا تھا جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ اگر سوویت یونین نے ایٹمی میزائل چلائے تو امریکا ایک ہزار بڑے اٹلس راکٹ فائر کردے گا جو ایٹمی ہتھیاروں اور خلائی جہازوں کو لے جانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ جب ایک ہزار راکٹ بہ یک وقت چلائے جائیں گے تو ان کے چلنے سے زمین پر زبردست قسم کی دھکیل کی قوت (تھرسٹ) پیدا ہوگی، جس کے اثر سے زمین کی گردش عارضی طور پر رک جائے گی۔ زمین کی گردش تھم جانے کی صورت میں امریکی اڈوں کی جانب بڑھتے ہوئے ر وسی میزائل نشانے پر نہیں لگ پائیں گے اور آگے نکل جائیں گے۔

پروجیکٹ ریٹرو میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ جب امریکا کے میزائل ڈٹیکشن سسٹم قطب شمالی پر روسی میزائلوں کو ڈکوٹا، ویومنگ، مونٹانا اور میسوری کے میزائل بیس کی جانب بڑھتے ہوئے ’دیکھ‘ لیں گے تو پھر یہ اٹلس راکٹ فائر کردیے جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں زمین کی گردش تھم جائے گی اور روسی میزائل اپنے اہداف سے آگے نکل جائیں گے۔

اس انوکھے امریکی منصوبے کا ذکر ایٹمی جنگ کی منصوبہ بندی کے ماہر ڈینیئل ایلسبرگ نے اپنی کتاب The Doomsday Machine  میں کیا ہے۔

ڈینیئل ایلسبرگ نے 1971 میں ویت نام جنگ سے متعلق پینٹاگون کی انتہائی خفیہ دستاویزات کو طشت از بام کرنے پر شہرت پائی تھی۔ ان کے اس قدم سے امریکا میں قومی سیاسی تنازع پیدا ہوگیا تھا۔ خفیہ دستاویزات کو منظرعام لے آنے کی پاداش میں ڈینیئل پر غداری اور سازش کے الزامات عائد کیے گئے جن سے عدالت نے دو سال بعد انہیں بری قرار دے دیا تھا۔

ڈینیئل ایلسبرگ، جو گذشتہ برس جون میں انتقال کرگئے، نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب یہ منصوبہ ان کے سامنے آیا تو پہلے پہل وہ اسے مذاق سمجھے، تاہم جب انہوں نے دیکھا کہ اس مجوزہ منصوبے پر اعلیٰ عسکری حکام کے دستخط موجود تھے تو انہیں احساس ہوا کہ زمین کی گردش روک دینے کی یہ تجویز مذاق نہیں تھی۔

ڈینیئل ایلسبرگ کے مطابق منصوبہ یہ تھا کہ جب سوویت میزائل اپنے اہداف سے چُوک جائیں گے، اور زمین کی گردش عارضی وقفے کے بعد بحال ہوجائے گی تو پھر ہماری (امریکا کی) بری افواج سوویت یونین کے شہروں اور نسبتاً آسان عسکری اہداف کو نشانہ بنائیں، تاہم ڈینئل کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں متعدد خامیاں تھیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اس منصوبے کی خامیوں کا اندازہ کرنے کے لیے آپ کا ارضیاتی طبیعات کا ماہر ہونا بھی ضروری نہیں۔ ارضیاتی گردش کے تھم جانے کا مطلب ہے کہ زمین کی سطح پر موجود چٹانیں، ہوا اور پانی سمیت ہر شے اپنے زاویائی مومینٹم کی وجہ سے انتہائی تیزرفتاری سے حرکت میں آجاتی اور تقریباً ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہوتی۔

اس کے نتیجے میں ساحلی شہر سونامی کی نذر ہوجاتے جب کہ خشکی پر بنی ہوئی تمام عمارتیں منہدم ہوجاتیں اور سطح ارض پر چہار سو تباہی پھیل جاتی، پھر امریکی بری افواج کو سوویت یونین پر حملے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ نہ تو سوویت یونین باقی رہتا اور نہ ہی امریکا اور نہ ہی روئے زمین پر کوئی فرد زندہ بچتا۔

دوسری جانب ڈینیئل نے اس منصوبے کے سلسلے میں ایک ماہرطبیعیات کی رائے لی تو اس کا کہنا تھا کہ یہ خیال ہی احمقانہ ہے کہ بہ یک وقت ایک ہزار راکٹ چلانے سے زمین کی گردش رک جائے گی، اور اگر آپ کسی طرح ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بہت ممکن ہے کہ زمین کا گولہ شق ہوکر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے اور روئے زمین پر قیامت برپا ہوجائے۔

پبلک فون چارجنگ اسٹیشن خطرناک۔۔۔۔؟

ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر عوامی مقامات پر پیسے دے کر موبائل فون چارج کروانے سے گریز کریں

اگر آپ نے ریل گاڑی پر کراچی سے لاہور کا سفر کیا ہو تو حیدرآباد، نواب شاہ، روہڑی، خانیوال اور دیگر اسٹیشنوں پر موبائل چارجنگ کی سہولت فراہم کرنے والے پتھارے یا اسٹال ضرور دیکھے ہوں گے۔ ان اسٹالوں پر درجنوں چارجر لگے ہوتے ہیں جن سے چارجنگ کیبلز منسلک ہوتی ہیں اور آپ پیسے دے کر یہاں اپنا موبائل فون چارج کرسکتے ہیں۔

اسی نوع کے اسٹال آپ کو بڑی شاہراہوں پر بنے ہوئے ہوٹلوں پر بھی دکھائی دیں گے جہاں لمبے روٹ کی مسافر بسیں اور گاڑیاں آکر ٹھہرتی ہیں، تاہم آپ کو ان اسٹالوں سے اپنا موبائل فون چارج کروانے سے گریز کرنا چاہیے اور ہمیشہ اپنا ذاتی چارجر یا پاور بینک ساتھ رکھنا چاہیے کیوںکہ اسٹال پر لگے ہوئے چارجر اور کیبل کے ذریعے آپ کے فون کا ڈیٹا چوری ہوسکتا ہے۔

امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن ( ایف بی آئی ) نے حال ہی میں شہریوں کے لیے تنبیہہ جاری کی ہے کہ وہ شاپنگ مالز، ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات پر پبلک فون چارجنگ اسٹیشنوں سے موبائل فون چارج کرانے سے گریز کریں کیوںکہ اس طرح ان کا فون کسی میل ویئر کا نشانہ بن سکتا ہے اور ان کا ڈیٹا چوری ہوسکتا ہے۔

سائبر سیکیورٹی کے ماہرین بھی طویل عرصے سے خبردار کرتے آرہے ہیں کہ (چارجر کی ) جس تار کے ذریعے آپ فون چارج کرتے ہیں وہی تار یا کیبل ڈیٹا کی منتقلی اور وصولی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ اپنا آئی فون چارجنگ کیبل کے ذریعے لیپ ٹاپ سے منسلک کرتے ہیں تو بہ آسانی فون سے ڈیٹا کمپیوٹر میں منتقل کرسکتے ہیں۔

اس طرح کسی غیرمحفوظ چارجر کے ذریعے فون چارج کرنے سے ڈیٹا کی چوری کا خطرہ بھی درپیش ہوسکتا ہے۔

ایف بی آئی کے مطابق چارجنگ اسٹیشن پر لگے ہوئے چارجر سے منسلک کیبلز کے ذریعے ڈیٹا کی چوری کے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں بظاہر یہ عام سی نظر آنے والی کیبلز موبائل فون چارج کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں موجود تمام ڈیٹا بھی سیو کررہی تھیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں