[ad_1]
سائبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں اور مقامی پرندوں کی تعداد میں کئی سال سے غیرمعمولی کمی آرہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے پوری دنیا میں بالخصوص پاکستان میں ان پرندوں کے مسکن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
بیشتر speciesکی تعداد گھٹ چکی ہے، خطے میں ہونے والے جنگ وجدال نے بھی ہجرتی پرندوں کے سفر میں خلل ڈالا ہے۔ ملک بھر میں بالخصوص صوبہ سندھ میں بے تحاشا شکار اور جال لگا کر پرندوں کو پکڑنے کے عمل نے بھی معصوم پرندوں کی آبادی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
سنیئر ایکالوجسٹ اور IUCN کے کمیشن ممبر ایکو سسٹم مینجمنٹ رفیع الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہجرتی پرندوں کی آمد میں کمی کی بڑی وجوہات موسمیاتی تبدیلی ہے جس میں خطے میں جنگ و جدال کی صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں ہجرتی پرندوں کی آمد سائبیریا سے دو راستوں سے ہوتی ہے: انڈس فلائی وے جو دریائے سندھ کے متوازی ہے اور دوسرا ساحل کے ساتھ ساتھ، جہاں ہجرتی پرندے مختصر قیام کے بعد آگے بڑھتے ہیں۔ خطے میں عشروں سے جاری جنگ و جدال کی وجہ سے ان ہجرتی پرندوں کے راستے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ نے جھیلوں کے حالات کو دگرگوں کردیا ہے۔ یہ جھیلیں ان آبی پرندوں کے مسکن تھیں جہاں سے ان کو غذا اور بودوباش میسر آتی تھی۔ انھوں نے کہ کہا سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے پاس وسائل کی کمی ہے اور عملے کی مطلوبہ تربیت کی عدم دست یابی، پرندہ شماری کے اعدادوشمار کے مستند ہونے میں حائل ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی غیرموجودگی بھی مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیتی ہے۔ ابھی تک سندھ کی واٹر باڈیز، کیرتھر رینج اور سنگچریز کا تواتر سے سروے نہیں کیا جاسکا ہے اور نہ ہی کوئی updated دستاویزات تیار ہوئی ہیں۔
اگرچہ متعلقہ ادارے نے جامع قوانین بنادیے ہیں۔ تاہم اب ان قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ غیرقانونی شکار اور جال لگا کر پکڑنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور قانون کے مطابق سزا دینی ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں جنگلی حیاتیات اور ہجرتی پرندوں کا شکار کرنا بہادری کی علامت سمجھا جانے لگا اور سوشل میڈیا پر شکار کے ساتھ تصاویرآویزاں کرنا قابل فخر بن گیا ہے۔ اس سوچ اور روش کو ختم کرنے کے لیے آگاہی مہم بہت ضروری ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہجرتی پرندے ہوں یا مقامی پرندے یا پھر دیگر جنگلی حیاتیات ان کو بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
بائیولوجسٹ، ایکالوجسٹ اور Conservatioinst ڈاکٹر منصور قاضی نے بھی آبی پرندوں کی آبادی میں کمی کو گلوبل ایشو اور اس کا بڑا سبب موسمیاتی تبدیلی کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان پرندوں کے مسکن کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ نہ بہت زیادہ درجۂ حرارت اور نہ ہی بہت کم درجۂ حرارت بلکہ متوازن موسم میں ان پرندوں کی زندگیاں محفوظ رہتی ہیں۔
اس کے علاوہ انسانوں نے درختوں کو کاٹ کر پرندوں کے مسکنوں کو متاثر کیا ہے۔ انھوں نے اس کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مختلف اقسام کے مقامی درخت لگائے جائیں بالخصوص جھیلوں اور دریاؤں کے کنارے لگائیں، تاکہ ان پرندوں کو گھونسلے ، سائبان اور غذا میسر آئے۔ اس کے ساتھ ہی ان درخوں کے تنے پانی ذخیرہ کرنے کے کام آتے ہیں جو بعدازآں جھیلوں کا پانی محفوظ بناتے ہیں۔
تحفظ جنگلی حیات (Conservatioinst) کے لیے کام کرنے والے سلمان بلوچ نے ہجرتی اور مقامی پرندوں میں کمی کی مختلف وجوہات بتائیں۔ ان کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پرندوں کے قدرتی مسکن کو شدید نقصان پہنچا ہے، جس سے دنیا بھر میں مہمان پرندوں اور مقامی پرندوں کی آبادی میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔
اس ضمن میں کچھ پرندوں کی اقسام میں 40 فی صد تک کمی آئی ہے۔ پاکستان بالخصوص سندھ میں flora and funna کی تباہی میں جہاں قدرتی عوامل ہیں وہیں انسانی ہاتھ (man made) بھی کارفرما ہے، جو نہ صرف ہجرتی پرندوں بلکہ مقامی پرندوں کی آبادی میں غیرمعمولی کمی کا سبب بنا ہے۔
اس میں سب بڑا عنصر جنگلات کو کاٹ کر زرعی اراضی میں تبدیل کرنا اور رہائشی منصوبے ہیں۔ اس کے بعد جال لگا کر پرندوں کو پکڑنا اور شکار نے بھی ہجرتی پرندوں اور مقامی پرندوں کی آبادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سلمان بلوچ نے کہا کہ سندھ میں کھلے عام ہجرتی اور مقامی پرندوں کی خرید وفروخت ہوتی ہے۔
کراچی میں کئی سال سے صدر میں پرندہ مارکیٹ قائم ہے جہاں معدوم ہوتے ہوئے پرندوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں لوگ گھونسلوں میں جاکر پرندوں بالخصوص توتوں کے بچے اٹھا لیتے ہیں۔ توتو ں کے بچے خریدار منہ مانگی قیمت میں خریدتا ہے، تاکہ اسے بولنا سکھائے۔ انھوں نے کہا کہ ان پرندوں کی حفاظت کے لیے قانون پر عمل درآمد اور آگاہی بہت ضروری ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کی تحقیقات کے مطابق ہجرتی اور مقامی پرندوں میں کمی کا سلسلہ 30 سال سے جاری ہے اس کے باوجود حکومتِ سندھ نے قدرتی حسن سے مالامال سندھ دھرتی کو بچانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی ہے۔ اگرچہ سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے سخت قوانین تو بنادیے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس ضمن میں ایکسپریس ٹریبیون نے 1987ء سے اب تک ہونے والی پرندہ شماری کا ڈیٹا حاصل کیا ہے، سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے Water Fowl Census
آبی پرندوں کی شماریات کے تحت 1987ء میں متعلقہ محکمے نے 29جھیلوں اور آبی گزرگاہوں کا سروے کیا اور پرندہ شماری کی، جس کے مطابق ان پرندوں کی تعداد 3لاکھ 50ہزار60 تھی۔ سندھ میں صرف دو بار 1988ء اور 1989ء میں بین الاقوامی فنڈنگ کی مدد سے فضائی سروے کیا گیا، جس کے تحت بالترتیب 104اور 89 جھیلوں کا سروے کیا گیا اور پرندہ شماری کے مطابق تعداد10لاکھ 8 ہزار934 اور 8لاکھ 50ہزار 640 سامنے آئی۔
بعدازآں 35 سال گزر گئے لیکن ہوائی جہاز کے ذریعے پرندہ شماری نہیں کی جاسکی۔ پرندہ شماری کے لیے سب سے زیادہ جھیلوں اور آبی گزرگاہوں کا سروے 1992ء میں کیا گیا، اس سروے میں (1692232) سولہ لاکھ 92ہزار 232پرندے شماری کیے گئے۔ 1994ء میں 238 جھیلوں کا سروے کیا گیا، جس میں پرندوں کی تعداد (1178755) گیارہ لاکھ 78ہزار 755رہی۔ سب سے مختصر سروے 2016ء میں کیا گیا جس میں سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے عملے نے صرف 9 جھیلوں کا سروے کیا اور پرندوں کی تعداد 88345 اٹھاسی ہزار 345 معلوم ہوئی۔
سندھ کی جھیلوں میں آخری 8 سال پرندہ شماری کی تفصیلات اس طرح رہیں: 2017ء میں 12 جھیلوں کا سروے کرکے 153916 پرندے شمار کیے گئے، 2018 میں 15آبی گزرگاہوں کا سروے کرکے 204,445 پرندے شمار کیے گئے، 2019ء میں 16جھیلوں میں 98,158 پرندوں کی گنتی کی گئی، 2020ء میں 7لاکھ 42ہزار43پرندے 26جھیلوں پر آئے، 2021ء میں 22 آبی گزرگاہوں کا سروے کیا گیا، جہاں 612,397پرندے آئے، 2022 میں 30 جھیلوں کا سروے کیا گیا اور 664,537 پرندے شمار کیے گئے، 2023ء میں 27 جھیلوں کا سروے کیا گیا اور 613851 پرندوں کی گنتی کی گئی۔
2024ء میں 29 آبی گزرگاہوں کا سروے کیا گیا اور 639122 پرندوں کی گنتی کی گئی۔ واضح رہے کہ یہ پرندہ شماری سندھ وائلڈ لائف کے تحت ہر سال جنوری میں کی جاتی ہے۔ اس میں ہجرتی اور مقامی پرندے دونوں کی شماریات ہوتی ہے لیکن اہم ہدف ہجرتی پرندوں کا شمار ہوتا ہے۔
متعلقہ ادارے کے تحت پرندہ شماری عموماً جن جھیلوں میں کی جاتی ہے، ان میں قمبر شہداد کوٹ کی لنگھ جھیل، ڈریگھ جھیل، ہمل جھیل، ضلع گھوٹکی میں صوفی انور شاہ، جامشورو میں منچھر جھیل، ٹھٹھہ میں کینجھر جھیل، ہڈیارو جھیل، ہالیجی جھیل، اس کے علاوہ کراچی، بدین، ننگرپارکر، سانگھڑ، خیرپور، حیدرآباد اور دیگر اضلاع میں موجود میٹھے پانی کی جھیلوں اور ساحلی پٹی میں پرندہ شماری کی جاتی ہے۔
ہجرتی پرندوں کے فوٹوگرافر زوہیب احمد کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت اندرون سندھ کئی آبی گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔ ان مقامات کو زرعی اراضی اور ماہی پروری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے یا پھر سڑکیں اور رہائشی پروجیکٹس تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ سندھ میں کئی سال بارشیں نہ ہونے سے خشک سالی رہی جس کی وجہ سے کئی چھوٹی جھیلیں سوکھ گئیں۔ پھر 2010ء اور 2022ء میں طوفانی بارشوں کے باعث سیلاب آیا تو کئی چھوٹی جھیلیں وجود میں آگئیں اور سوکھی جھیلیں پھر سے آباد ہوگئیں۔ تاہم ایک بار جب مسکن ختم ہوجائے اور پھر دوبارہ عارضی طور آباد ہو تو ہجرتی پرندے فوری طور پر راغب نہیں ہوتے۔ البتہ پرندوں کی کچھ تعداد ضرور اترتی ہے۔ مسکن جہاں انہیں غذا، رہائش اور حفاظت کا احساس مستقل بنیادوں پر ہو یہ مہمان پرندے وہاں اپنا ڈیرہ جمانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہر صوبے کا وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اپنے محکمے کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے۔ اس ضمن میں سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ بھی پرندے شماری کے اعدادوشمار میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرکے دکھاتا ہے۔ متعلقہ آفیسر نے بتایا کہ سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کئی سالوں سے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ان ہجرتی پرندوں کو شمار کررہا ہے۔ ان کے پاس رات میں دیکھنے کی دوربینیں نہیں ہیں اور جدید نوعیت کے آلات اور تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت جنگلی حیاتیات کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے اور صوبائی محکمۂ جنگلی حیات اسٹاف، گاڑیوں اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے عمومی طور پر غیرفعال ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہر سال اندرون سندھ صرف 13مقامات پر شکار کی اجازت دی جاتی ہے اور بقیہ 34 wild life sanctuaries جہاں ہجرتی پرندوں کا مسکن ہے وہاں شکار کی ممانعت رہتی ہے۔ تاہم غیرقانونی طور پر سندھ بھر میں نہ صرف شکار ہوتا ہے بلکہ جال لگا کر پرندے پکڑے جاتے ہیں اور کھلے عام فروخت کیے جاتے ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے افسر رشید احمد خان نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ پرندہ شماری کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی پرندہ شماری بہترین اور درست طریقے سے کی جاتی ہے اور اس کے اعدادوشمار بالکل درست ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ محدود پیمانے پر شکار کھیلنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایک شارٹ گن پر ایک لائسنس جاری کیا جاتا ہے جس کے تحت ایک شکاری ہفتہ و اتوار کو شکار کھیل سکتا ہے۔ ایک لائسنس پر 15مرغابی، 10تیتر اور 50 بٹیر شکار کرنے کی اجازت ہے۔ انھوں نے کہا سندھ میں صرف تیتر، بٹیر اور مرغابی کے شکار کی اجازت ہے، دیگر پرندوں کے شکار کی اجازت نہیں۔ قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
ماہر شکاری فرخ شیخ کا کہنا ہے کہ وہ کئی سال سے شکار کھیل رہے ہیں اور اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ہجرتی پرندے سندھ میں آتے تھے اور اب اس تعداد میں کئی گنا کمی آچکی ہے۔ ماضی میں لوگ شوقیہ اور محدود پیمانے پر شکار کھیلتے تھے جس کے لیے حکومت اجازت نامہ جاری کرتی تھی، گذشتہ دس
سال سے اندرون سندھ شکار تجارت بن گیا ہے۔ ٹنڈومحمد خان، سجاول، کینجھر جھیل اور دیگر مقامات پر بااثر وڈیرے نجی طور پر اور تجارتی بنیادوں پر شکار کھلواتے ہیں۔ ایک کلومیٹر پر محیط ایک گیم ریزرو بنادیا جاتا ہے جس پر ایک مورچہ قائم کیا جاتا ہے۔ ایک مورچے میں پانچ سے آٹھ شکاریوں کی اجازت ہوتی ہے اور یہ مورچہ ڈیڑھ لاکھ میں فروخت ہوتا ہے۔ اس طرح کئی مورچے قائم کرکے ہجرتی پرندوں کا شکار کھیلا جاتا ہے۔
سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ وائلڈ لائف کو اسٹاف، فنڈز اور گاڑیوں کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہر جھیل کا وزٹ کرنا ممکن نہیں ہے، تقریباً 50 فیصد اسٹاف ریٹائرڈ ہوچکا ہے، اور نوکریوں پر پابندی کے باعث یہ پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔
[ad_2]
Source link