10

کچھ آپ ہی سمجھائیں! – ایکسپریس اردو

[ad_1]

’’اگر آپ نے چھٹی کرنا تھی بیٹا تو کم از کم مجھے کال تو کردیتیں۔ ‘‘ میں نے اپنی کام والی سے کہا جو کہ بغیر بتائے دو دن کی چھٹی کر کے تیسرے دن آئی تھی۔

’’میرے پاس بیلنس نہیں تھا جی۔ ‘‘ اس نے سب سے مقبول عام جواب دیا۔

’’سو روپے کا بیلنس ڈالنا کوئی بہت بڑی بات ہے جو آپ بغیر بیلنس کے فون رکھ کر دو دو چھٹیاں بھی کر لیتی ہیں۔‘‘

’’بخار ہو گیا تھا باجی، دوا کے لیے بھی پیسے نہ تھے، فون میں سو روپے کا بیلنس ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے ہمارے لیے کیونکہ ہمارے گھر میں دو وقت کی پتلی دال بن جاتی ہے جس سے ہمارے بچوں کا پیٹ بھر سکے، فون کا پیٹ بھرنا ہمارے لیے اہم نہیں ہے۔‘‘ اس کے جواب نے مجھے لاجواب کر دیا تھا۔ وہ میرے ہاں صفائی کاکام کرتی ہے اور مجھ سے چار گھنٹے روزانہ کام کے چودہ ہزار لیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’بیٹا جس وقت تازہ سبزی آتی ہے اس وقت کال کر کے اگر بتا سکیں تو ہم آ کر اس وقت لے لیا کریں ۔ ‘‘ سبزی والے سے کہا۔

’’باجی، آپ ہمارا نمبر اپنے پاس لکھ کر رکھ لو اور نو بجے کال کر کے چیک کر لیا کرو ، میں فون کر نہیں سکتا، صرف سن سکتا ہوں۔‘‘

’’فون کر کیوں نہیں سکتے؟‘‘

’’کیونکہ ہمارے پاس فون میں بیلنس نہیں ہے، غریب آدمی ہے، فون میں سو روپے کا بیلنس بھی ڈالو تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں چلا گیا ہے، پورے مہینے میں ہم دو سو روپے کا لوڈ کرواتا ہے وہ بھی کسی ایمر جنسی کے لیے استعمال کرتا ہے ۔‘‘

’’ٹھیک ہے، مجھے اپنا نمبر دے دیں ، میں ہی کال کر کے چیک کر لوں گی۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مالی سبزیوں کی بابت پوچھ رہا تھا کہ کون کون سی سبزیاں لگانا ہیں، اسے بتایا تو اس نے کہا کہ رقم دے دیں کہ میں بیج اور پنیریاں لے آؤں۔ میںنے اس سے کہا کہ جب سبزیوں کی پنیریاں لے تو ساتھ چند پھولوں کی بھی لے آئے۔’’کون کون سے پھولو ں کی پنیری لینی ہے باجی؟‘‘

’’آپ یوں کرنا کہ وہاں سے مجھے کال کر کے دکھا دینا یا تصویریں کھینچ کر واٹس ایپ پر بھجوا دینا۔ ‘‘

’’میرا واٹس ایپ صرف گھروں میںکام کرتا ہے، جہاں جہاں کام کرتا ہوں وہاں وہاں پر میںنے پاس ورڈ لے کر خود کو واٹس ایپ پر رابطے میں رکھا ہوا ہے۔ فون میں میرے پاس بیلنس نہیں ہوتا، اپنی اتنی اوقات کہاں ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں ایک دیہاڑی دار مزدور کی مزدوری بارہ سو روپے روزانہ ہے، اتنی مشقت کے باوجود اسے بارہ سو یومیہ ملتے ہیں، اس میں سے بھی کئی دن مزدوری نہیں ملتی اور مہینے میں چار دن یوں بھی کام نہیںہوتا۔ سمجھیں کہ وہ ایک مہینے میں چوبیس دن بھی کام کر لے تو وہ ساڑھے چھبیس ہزار کماتا ہے اور اس میں سے ہی وہ اپنی رہائش اور کھانا پینا کرتا ہے اور اسی میں سے گھر بھی چلاتا ہے۔ اس کے پاس اچھا یا برا ایک ٹیلی فون ہوتا ہے جس سے وہ اپنے گھر والوں سے رابطہ بھی رکھتا ہے اور فارغ وقت میں فیس بک یا ٹک ٹاک دیکھ کر اپنا دل بہلاتا ہے۔

اسی طرح ہماری عوام کی بیشتر تعداد خط غربت سے نیچے رہ کر اپنی زندگیوں کی گاڑیاں گھسیٹ رہی ہے اور ایک ایک پائی ان کے لیے اہم ہوتی ہے، خود اپنا پیٹ کاٹ لیتے ہیں مگر گھر والوں کو زیادہ سے زیادہ خرچہ بھجوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریڑھی بان، ٹھیلے والے، چوکیدار، ڈاکیے، ڈرائیور اور کنڈکٹر، مستری، مزدور اور ہر طرح کے ہنر مند۔ ان سب کی آمدن اتنی ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا اور گھر والوں کا پیٹ بھر لیں ، بسا اوقات ایسا بھی نہیں ہوتا، کئی کئی دن فاقے بھی ہوجاتے ہیں۔

اس طبقے کے لوگوں کے لیے فون ایک ضرورت بھی ہے اور تفریح کا ذریعہ بھی۔ چند دن پہلے اخبار میں خبر تھی کہ نان فائلرز کی سموں کو بلاک کردیا جائے گا، اس کے بعد پھر خبر آئی کہ نان فائلرز کے فون لوڈ میں سے نوے فیصد ٹیکس کاٹ لیا جائے گا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس حکم کو معطل کر دیا۔آپ ہی سمجھائیں جناب کہ اس طرح کے سنہری مشورے کون دیتا ہے حکومت کو؟ یہ ہیں وہ نان فائلر جو اپنے فون میںسو دو سو روپے کا بیلنس ڈلواتے اور اس سے پورے پورے مہینے کے پیکیج لگا لیتے ہیں۔

آپ ان کے لوڈ میں سے نوے فیصد کٹوتی کرنا چاہتے ہیں، یہ نان فائلرزاس لیے ہیںکیونکہ ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں جس پر وہ ٹیکس ادا کرکے ٹیکس نیٹ میں آئیں۔ حکومتوں کا بھی سارا زور فقط غریب آدمی پر نکلتاہے، بڑی بڑی مچھلیاں جو یوں بھی چھوٹی مچھلیوں کو بطور خوراک استعمال کرتی ہیں، وہ پھر بھی فائدے میں رہتی ہیں۔ ان کا ادا کردہ ٹیکس اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ آپ کا اور میرا۔ ان کے کاروبار بھی واضح اور ظاہر ہیں اور ان کا طرز زندگی بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہوتا، ایک غریب آدمی کی سال بھر کی کمائی سے زائد رقم کا وہ ایک وقت کا دستر خوان سجا لیتے ہیں اور بڑی بڑی رقوم چارٹرڈ اکاؤنٹٹ کو دیتے ہیں جو کہ انھیں ٹیکس بچانے کے طریقے سکھاتا ہے بلکہ وہی ان کے ٹیکس فائل کرتا ہے ۔

غریب آدمی کو بلوں کی مد میں ہی نچوڑ کر رکھ دیا گیا ہے، ایک طرف پٹرول کی قیمت گھٹانے کا کہا جاتا ہے اور ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں اضافے کا مژدہ سنا دیا جاتا ہے۔ ہماری بلنگ میں جو سلیب کا نظام رکھا گیا ہے وہ بجلی کی اصل قیمت کو کئی گنا سے ضرب دے دیتا ہے۔ ایک سلیب کا دو ہزار کا بل، سلیب کی حد سے نکلتے ہی سات ہزار اور اس سے اوپرکی سلیب میں اٹھارہ سے بیس ہزار کو چھونے لگتا ہے۔

بجلی کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں تو ان کی وصولی پچھلے کئی مہینوں سے شروع کی جاتی ہے جو کہ اس وقت کے حساب سے ادا ہو چکے ہوتے ہیں، وہ نئے بلوں میں بقایا جات کے تحت آجاتے ہیں۔ غریب کے گھر میںایک بتی اور ایک پنکھا بھی چلے تو اس کا بل اس کی سکت سے باہر ہو جاتا ہے ، ایک صرف بجلی ہی نہیں سوئی گیس یا گیس کا سلنڈر، پانی کا بل اور بچوں کی تعلیم اور دوا دارو کا خرچہ۔ اس طرف کوئی توجہ کیوں نہیں دیتا، ملک کے تمام شعبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سال بھر کا بجٹ بنانیوالے وزیر خزانہ کو کبھی ہوم ورک میں ایک غریب کے گھر کا ماڈل بجٹ بنانے کا کام بھی دیں، اس سے اوپر کا طبقہ، جسے کبھی سفید پوش کہا جاتا تھا، اب وہ غربت کے اوپر کے درجے کی کلاس بن گئے ہیں۔

ان کا بجٹ بنا کر دکھا دیں، اگر ایسا نہیں تو کم از کم ہمیں یہ سمجھا دیں کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کا مقصد کیا ہے؟ ہم سب اس مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں، سب کی چادریں چھوٹی پڑ گئی ہیں کہ سر ڈھکو تو پاؤں باہر اور پاؤں ڈھکو تو سرباہر۔ کبھی وقت ہوا کرتا تھا کہ کسی نہ کسی جگہ سے کتر بیونت کر کے خاتون خانہ تھوڑی بہت بچت کر لیا کرتی تھیں آڑے وقت کے لیے۔ اب حقیقتا لوگوں کو بھاری بل آجاتے ہیں، کسی بچے کے تعلیم کے اخراجات پورے نہ ہو رہے ہوں، کوئی ایسی بیماری آجائے کہ علاج کی سکت نہ ہو تو انھیں بیویوں کے زیورات بیچ کر ادا کرنا پڑتے ہیں۔

یہ زیورات بھی غریب آدمی کا کہاں تک ساتھ دے سکتے ہیں، رفتہ رفتہ گھر کا سامان بکنا شروع ہوتا ہے اور انت ہوتا ہے جہاں جا کر مجبور آدمی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے کیونکہ جینا آسان نہیں رہتا۔ اتنے لوگوں کی خودکشیوں کا بوجھ جن کے سروں پر ہو، انھیں رات کو نیند کیسے آ جاتی ہے… ذرا سمجھائیں تو سہی!!



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں