[ad_1]
آزاد کشمیر میں سستی بجلی اور آٹے سمیت دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر کشیدگی، مظاہرین کے پتھراؤ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات ہڑتال کے باعث نوبت یہاں تک پہنچی کہ رینجرز کو طلب کر لیا گیا تھا۔
ان مظاہروں سے پیدا ہونے والی کشیدگی ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہاں ایسی نوبت ہی نہ آتی کہ حکومت پاکستان کو نوٹس لینا پڑتا۔ آزاد کشمیر کی اس صورت حال سے بھارت کو فائدہ اور ہمیں نقصان پہنچا اور بھارت کو دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقعہ ملا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟
آزاد کشمیر کی تو اپنی اسمبلی، اپنا صدر اور وزیر اعظم ہے جہاں عوام تنگ آ کر احتجاج کر رہے تھے جب کہ بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کو بھارت ہڑپ کرکے اپنا حصہ بنا چکا ہے جہاں وہ انتخابات بھی نہیں کرا رہا، جہاں اب کشمیریوں کی کوئی اسمبلی ہے نہ کوئی کشمیری منتخب عہدیدار مگر وہاں کے عوام تو آزاد کشمیر کے عوام کی طرح مہنگی بجلی اور آٹے کے خلاف گھروں سے نکل کر سڑکوں پر نہیں آئے کیونکہ بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے۔
آزاد کشمیر میں لاکھ بار پرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا جائے مگر وہاں ایسی صورت حال پیدا ہوئی یا پیدا کرائی گئی کہ جانی و مالی نقصانات ہوئے کہ جس پر وہاں کی منتخب حکومت قابو نہ پا سکی اور دنیا میں بھارت کو منفی پروپیگنڈے کا موقعہ مل گیا۔
مقبوضہ کشمیر میں بجلی و آٹے کی مہنگائی اور دیگر مسائل پر تو کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ آزاد کشمیر میں ہونے والا احتجاج بھی دنیا نے دیکھ لیا اور نقصانات بھی دیکھ لیے گئے۔
دشمن کو اب یہ کہنے کا موقعہ بھی مل گیا کہ دونوں طرف رہنے والے کشمیری موازنہ کر لیں کہ کون سے علاقے کے لوگ بہتر زندگی گزار رہے ہیں اور اب کیا صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔آزاد کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں مگر وہاں کچھ بھارت نواز بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ آزاد کشمیر میں امن برقرار رہے اور بھارت کو وہاں کی صورت حال پر دنیا میں منفی پروپیگنڈے کا موقعہ میسر آ جائے جس سے پاکستان کا موقف متاثر ہو۔
آزاد کشمیر میں جاری مظاہروں پر پی ٹی آئی کے سوا کسی اور جماعت کو سیاسی مفاد حاصل کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی تو وہاں حکومت ہے جب کہ جماعت اسلامی کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا مگر پی ٹی آئی کو اس موقعہ پر بولنے کا موقعہ مل گیا اور اس نے صورت حال کی حساسیت کا بھی خیال نہیں کیا اور اس کے ترجمان نے آزاد جموں وکشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو دانش مندانہ طرز عمل اپنانے کا مشورہ دے دیا۔
حکومت کی حلیف ایم کیو ایم نے بھی حکومت کو کہا ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں عوامی احتجاج پر طاقت استعمال نہ کرے اور عوام کے مسائل کے حل پر سنجیدگی سے توجہ دے کر صورت حال کو جلد بہتر بنائے کیونکہ حکومتی طاقت کا استعمال وہاں مزید اشتعال کا باعث بنے گا۔آزاد کشمیر میں بالاتروں کی مدد سے پی ٹی آئی کی حکومت رہی ہے جہاں پی ٹی آئی نے ایک ایسے سرمایہ دار کو وزیر اعظم بنایا تھا جس نے عدلیہ کے خلاف قابل اعتراض بیانات دیے اور توہین عدلیہ پر نااہل قرار پایا تھا۔
بجلی و آٹے کی مہنگائی اور عوامی مسائل پر آزاد کشمیر میں جو صورت حال پیدا ہوئی اس جیسی ہی صورت حال پاکستان میں بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ کشیدہ اور سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے مگر مزید قرضوں کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی ہر شرائط پر تیار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ آزاد کشمیر میں پی پی اور (ن) لیگی حکومت کو بیرونی قرضے نہیں لینے پڑے مگر انھوں نے عوام کو احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستان کو مزید قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے اور وفاقی وزیر خزانہ عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر کہہ رہے ہیں کہ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا اور عوام کو تھوڑی بہت حاصل رعایتیں مرحلہ وار ختم کرنا ہوں گی۔
مشکل حالات کا سامنا ہے ٹیکس بڑھانے اور اصلاحات کی مزید ضرورت ہے۔ برطانوی چیف اکانومسٹ کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے چند سال آئی ایم ایف کے بغیر مشکل ہیں معاشی بحرانوں کے ذمے دار آئی ایم ایف سے زیادہ خود پاکستانی ہیں جو ملکی پیداوار سے زیادہ خرچ کرکے مسائل بڑھا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے آگے جھک کر اور ان کے مطالبات ماننے کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں مہنگائی بڑھے گی۔ معاشی بہتری کے لیے حکومت عوام پر ٹیکسوں کے مزید بوجھ بڑھائے گی جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی آزاد کشمیر جیسی صورت حال پیدا ہو گئی تو پی ٹی آئی اور حکومت مخالف عناصر حکومت کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
سابق صدر عارف علوی اور جماعت اسلامی فارم 47 والی حکومت کو چلنے نہ دینے کے بیانات دے رہے ہیں اور موجودہ حکومت کو عوام پر مسلط قرار دے رہے ہیں جس نے اگر مزید مہنگائی بڑھائی تو یہاں بھی چنگاری کو شعلہ بنا کر آگ بھڑکائی جا سکتی ہے۔ اس لیے موجودہ حکمران ایسے اقدامات سے دور رہیں کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے کہیں وہ بھی سڑکوں پر نہ آجائیں اس لیے حکمران عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں۔
[ad_2]
Source link