[ad_1]
انتہا پسندی پر مبنی پرتشدد رجحانات کو محض مذہبی بنیادوں تک محدود ہوکر نہیں دیکھنا چاہیے۔انتہا پسند رجحانات سیاسی ، سماجی، لسانی ، علاقائی تعصبات کے طور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔
ہم نے کراچی میں کئی دہائیوں پر محیط لسانی بنیادوں پر پرتشدد سیاست دیکھی ہے۔بلوچستان میں علاقائی اور نسلی بنیاد پر پرتشدد کارروائیاں دیکھ رہے ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں بھی پرتشدد کارروائیاں دیکھی ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں سیاسی بنیادوں پر پر تشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے پرتشدد رجحانات ہمارے ملک میں کئی دہائیوں سے پنپ رہے ہیں۔ ان کا تجزیہ کسی ایک ایشو یا فریق کو لے کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کلچر کو پروان چڑھانے میں ہم سب کا حصہ ہے ۔
یہ ریاستی و حکومتی نظام کا شاخسانہ ہے جہاں ہم نے انتہا پسندی کو بطور پالیسی استعمال کیا ہے۔ اس لیے اگر آج پورا معاشرہ اس مرض کا شکار ہے تو اس کی وجوہات بھی سسٹم کے اندر تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن پر خواجہ سراؤں نے جو تشدد کیا ہے ،وہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے ۔
رؤف حسن صاحب کا موقف ہے کہ ان پر تشدد کرنے والوں نے خواجہ سراؤں کا حلیہ بنا رکھا تھا، اصل میں وہ مرد ہی تھے۔پی ٹی آئی والے بھی اس واقعہ کو لے کر سوشل میڈیا کا میدان گرم کیے ہوئے ہیں۔ بہرحال مسئلہ محض رؤف حسن پر تشدد کا نہیں بلکہ جس فرد پر بھی گھات لگا کر حملہ کیا جائے ، اسے نہ قبول کرنا چاہیے اور نہ ہی کسی اگر مگر کا شکار ہوکر اس طرح کے معاملات کو الجھانا چاہیے ۔دو ٹوک پالیسی کی ہر سطح پرضرورت ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر بغیر کسی اگر مگر کے ہمیں تشدد کی سیاست کے خاتمے کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔
سیاست میں اختلاف ہونا لازمی بات ہے بلکہ اس کو بنیاد بنا کر جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔کیونکہ معاشرہ کبھی جامد نہیں ہوتا اور نہ ہی پورے معاشرے کو کسی ایک سوچ کی بنیاد پر کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔
ہر ایک کی سوچ اور فکر سے اختلاف اپنی جگہ مگر ان اختلافات کے باوجود ہمیں مل کر رہنا بھی ہے اور ایک دوسرے کو باہمی احترام بھی دینا ہے ۔اختلاف پر تنقید اپنی جگہ مگر اس کو بنیاد بنا کر تضحیک یا تشدد کو اختیار کرنا معاشروں کو تقسیم بھی کرتا ہے اور سیاست کو پرتشدد بھی بناتا ہے ۔
رؤف حسن پر تشدد کی واردات کو لے کر ہم نے خواجہ سراؤں کے بارے میں طرح طرح کی میم بناکر حالات کی سنگینی کو ایک نئی شکل دی ہے ۔ ہم پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو مزید بڑھا کر حالات کو مزید خراب کردیا ہے ۔ سیاسی اختلاف نے پہلے سیاسی دشمنی کی جگہ لے لی ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی اور حال میں بھی ایک خاص حکمت عملی کے تحت لوگوں کو سیاسی ، لسانی ، مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرکے اپنا بہت نقصان کرلیا ہے ۔
اس مرض کی جڑیں گہری ہیں اور آج بھی ہم نے پرانی حکمت عملیوں کو اختیار کیا ہوا ہے ۔ایک طرف ہم مہذب بنیادوں پر سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری حکمت عملی لڑو اور لڑاؤ کی بنیاد پر چل رہی ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ہم سیاسی مسائل سیاست کے ذریعے حل نہیں کر پا رہے ہیں۔
ایک طرف دنیا میں جدید جمہوری تصورات کی بحث موجود ہے اور زور دیا جارہا کہ ہمیں ان اصولوں کو اختیار کرکے معاشی استحکام کی طرف پیش رفت کرنا ہے تو دوسری طرف ہمارے سیاستدان جمہوریت کے مقابلے میں کنٹرولڈ یا آمرانہ مزاج کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب کسی سیاسی جماعت کے عہدیدار پر تشدد کی واردات سامنے آتی ہے تو ہم اس پر بھی ایک آواز ہونے کے بجائے سیاسی طور پر تقسیم ہوجاتے ہیں ۔ رؤف حسن کے معاملہ میں بھی ہم نے یہ سیاسی تقسیم دیکھی ہے۔ بہت سے لوگ رؤف حسن کے واقعہ پر مذمت کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔
پی ٹی آئی مخالف قوتیں یا تو خوش ہیں یا خاموش اور ان کا مذمتی پہلو کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔ ماضی میں پی ٹی آئی نے بھی اس طرز کی پالیسی اختیار کی اور مخالفین کے خلاف جو کچھ کیا گیا اس کا اپنے تئیں جواز پیش کیا گیا ۔ وہ بھی قابل گرفت تھا اور یہ بھی قابل گرفت ہے ۔سیاسی طور پر جب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حمایت یا مخالفت میں تشدد کی حمایت کرتی ہیں تو اس سے پرتشدد سیاست کے خاتمے کی منزل اور دور چلی جاتی ہے ۔
مجموعی طور پر ہمارے سیاسی کلچر پر ہی سوالیہ نشان ہیں ۔کیونکہ نہ تو اس میں سیاست ہے، نہ جمہوریت ہے ، نہ آئین و قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی سیاسی اخلاقیات یا سیاسی قبولیت یا برداشت کا پہلو ہے ۔ اس رجحان کو مضبوط بنانے میں سیاست دانوں اور علمائے کرام سمیت اہل دانش کا بھی ہاتھ ہے جو خود بھی پرتشدد بیانات ، تقریریں یا اقدامات کرتے ہیں اور کارکنوں کو یا اپنے ہمدردوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہمارے مخالفین ملک دشمن ہیں ، کافر ہیں ، غدار ہیں یا چور و ڈاکو ہیں ۔یہ ہی بیانیہ اوپر سے لے کر نیچے تک جاتا ہے ۔
میڈیا کے محاذ پر بھی ریٹنگ یا سوشل میڈیا پر ڈالر کی سیاست نے ماحول میں کافی تلخیاں پیدا کردی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ سنجیدہ گفتگو یا علمی و فکری بنیادوں پر گفتگو یا شخصیات اب میڈیا کے لیے اہم نہیں رہی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ رائے عامہ کی سطح پر جو سوچ اور فکر غالب ہے اس میں ہم کو جارحانہ حکمت عملی ،غصہ اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کی حکمت عملی کی بالادستی نظر آتی ہے ۔اصولی طور پر تو ہمیں معاشرے میں جو بھی پرتشدد رجحانات کی عکاسی نظر آتی ہے یا اس کے کردار نظر آتے ہیں۔
ان کے خلاف ایک مشترکہ بیانیہ اختیار کرنا ہوگا۔مشترکہ بیانیہ ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت اور اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کے بجائے مکالمہ کی بنیاد پر آگے بڑھانا ہوگا ۔ یہ ریاستی بیانیہ اوپر سے لے کر نیچے تک ریاست سے لے کر سیاست تک اور سیاست سے لے کر سماجیات یا سیاسی و سماجی شعور کی آگاہی تک چلانا ہوگا۔ آئین و قانون کی حکمرانی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی انتہا پسندی کے خلاف طاقت ثابت ہوگی ۔
یہ جنگ محض سیاسی دانوں نے نہیںلڑنی بلکہ اس میں میڈیا ، شاعر، ادیب ، مصنف، علمائے کرام ، سول سوسائٹی ، وکلا اور بار ایسوسی ایشن، علمی و فکری تعلیمی ادارے سب نے پہلے اس اصول یعنی انتہا پسندی اور پرتشدد سیاست کے خاتمہ پر اتفاق کرنا ہے اور پھر اتفاق کے بعد عملی اقدامات کا حصہ بن کر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو بیدار بھی کرنا ہے ۔
بالخصوص اس بیانیہ کی تشکیل میں ہماری حکمت عملی میں نوجوانوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی نہیں ہونی چاہیے ۔ نئی نسل کو اس مہم کا حصہ بنا کر اور ان کے تحفظات کو بہتر طور پر نمٹ کر ہمیں ان کو بھی امن اور پرامن سیاست میںایک بڑے سفیر کے طور پر تیارکرنا ہے ۔کیونکہ ان کے پاس ڈیجیٹل طاقت ہے اور ان کو نظرانداز کرکے یا ان کو اپنا دشمن سمجھ کر اختیار کی جانے والی پالیسی کسی بھی صورت میں کارگر نہیں ثابت ہوگی ۔
[ad_2]
Source link