[ad_1]
بھارت کے عام انتخابات آدھے سے زیادہ سفر طے کرچکے ہیں اور یکم جون کو ان کے اختتام کے بعد 4 جون کو نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو سہم چڑھتا جا رہا ہے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ خم ٹھونک کر مسلسل یہی کہہ رہے ہیں کہ اس بار 400 پار، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ اپنی سابقہ کامیابیوں کا ریکارڈ توڑ دیں گے اور بھارتی پارلیمان کی ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا کی 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کر لیں گے۔
بظاہر ان کے اس دعویٰ میں کافی زور نظر آتا ہے، جس کا مقصد اپنے حامیوں کو یہ باورکرانا ہے کہ انھیں پچھلے انتخابات کے مقابلے میں بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی لیکن سب جانتے ہیں کہ ان پر شدید بوکھلاہٹ طاری ہے جسے چھپانا ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ ان کے دعویٰ کی نفی اس اصل صورتحال سے ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ حالیہ انتخابات کا نتیجہ یہ ہونے والا ہے کہ ’’ اب کی بار کراری ہار۔‘‘
اب نہ 2014 ہے اور نہ 2019 کہ جب مودی اور ان کی انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی نے ہندو توا کے کارڈ پر بھارتی جنتا کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر کامیابی حاصل کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے اور بھارت کے عوام ان کی عیاری اور مکاری سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں اور ان پر سارا بھید کھل چکا ہے۔بھارت کے شہریوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2014 کے انتخابات میں مودی نے بہت سبز باغ دکھائے تھے اور یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ دیس میں ایک انقلاب برپا کر دیں گے۔ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ بے کاری اور بے روزگاری ہے۔
ان کا دوسرا وعدہ تھا کہ وہ دیس میں خوشیوں اور خوشحالی کی گنگا بہا دیں گے۔ ان کا سب سے بڑا نعرہ تھا ’’دیس کی ترقی دیس کا وِکاس‘‘ لیکن یہ سب محض کھوکھلے نعرے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ جوکچھ بھی ہوا وہ سب اس کے برعکس اور برخلاف تھا یعنی دیس کی تباہی اور ستیاناس۔ 2019 کے چناؤ میں بھی مودی نے اپنی اسی روش کو برقرار رکھا۔ بھارت کی جنتا نے جب ان کی کارکردگی پر بے اطمینانی اور مایوسی کا اظہار کیا تو انھوں نے یہ بہانہ تراشا کہ سابقہ حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مسائل کا اتنا بڑا انبار لگا ہوا تھا کہ اپنے پہلے دورِ حکومت میں حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں کرسکی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انھیں ایک اور موقع دیا گیا تو وہ دیس کی کایا پلٹ دیں گے لیکن انھوں نے صرف بھارت کے مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں کیا۔اُن کے ایجنڈے میں بھارت کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا سرفہرست ہے اور انھوں نے عملاً کیا بھی یہی۔ تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے بعد انھوں نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت مسلمانوں کی دوسری مساجد کو بھی شہید کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔
انھوں نے بدترین سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے اور بے قصور مسلمانوں کی مار پٹائی اور ان پر تشدد کرنے کی انتہا کردی۔ مسلم آبادیوں میں مکانات اور دکانوں کو بلڈوزروں سے مسمار کردیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ دینی مدارس کا وجود قائم رہنا بھی مشکل ہوگیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک اور ان کی سرد مہری کی وجہ سے مودی اور ان کی سرکار کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ گربہ کشتن روز اول کی کہاوت مودی کی حکمرانی کے بارے میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے، اگر مسلم ملکوں نے بابری مسجد کی شہادت پر اپنے شدید رد عمل کا اظہارکیا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور مسلم اور اسلام دشمنی کا معاملہ اس حد تک نہ پہنچتا۔مسلم ممالک کے ساتھ بھارت کے مفادات کا بہت بڑا دارومدار ہے۔
خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھارت کی تجارت کا حجم بہت بڑا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی شہریوں بشمول ہندوؤں کی ایک بھاری تعداد خلیجی ریاستوں میں تجارت اور ملازمتوں کے ذریعے کثیر زر مبادلہ کما کما کر اپنے دیس کو بھیج رہی ہے، جس کے بل پر بھارتی معیشت پھل پھول رہی ہے اور تو اور مسلم ممالک میں بھی بھارتی شہریوں بالخصوص ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد برسرِ روزگار ہے۔مسلم حکمرانوں کی روش اور بے حسی کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
علامہ اقبال کا ذکر آگیا تو مسلمانوں کی کشادہ دلی اور ہر قسم کے تعصب سے پاک سوچ یاد آرہی ہے جس نے علامہ سے ترانہ ہندی کے عنوان سے لافانی نظم لکھوائی تھی، جس کی ابتدا اس شعر سے ہوتی ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
سچ پوچھیے تو برصغیر کے بٹوارے کی اصل ذمے دار بھارت کی تنگ نظر اور منافرت پرست سیاسی جماعت آر ایس ایس ہے جس کی کوکھ سے بی جے پی نے جنم لیا ہے۔
[ad_2]
Source link