10

دہشت گردی اور افغان حکومت کا رویہ

[ad_1]

ثبوت دیے جانے کے باوجود اب تک افغان حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ فوٹو: فائل

ثبوت دیے جانے کے باوجود اب تک افغان حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بشام میں چینی انجینئرز پر حملہ کالعدم ٹی ٹی پی نے کیا، تمام شواہد موجود ہیں کہ بشام حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوئی۔

ثبوت دیے جانے کے باوجود اب تک افغان حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ افغان عبوری حکومت سے ٹی ٹی پی کی قیادت گرفتار کرنے کی درخواست کی ہے، افغانستان دہشت گردوں کے خلاف ٹرائل کرے یا انھیں ہمارے حوالے کرے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کا صدیوں پرانا نسلی اور لسانی رشتہ بھی ہے مگر ادھر سے ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے بجائے ہمیشہ گرم لو کے تھپیڑے ہی آتے رہے۔

افغان طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد قوی توقع تھی کہ یہ سلسلہ اب رک جائے گا اور شمال مغربی سرحدوں سے دوستی تعاون اور امن کا پیغام آئے گا مگر صد حیف کہ اس کے بجائے دہشت گردی کی نئی لہر آگئی جس کی ذمے دار پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی ہے اور اس کو کابل حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان میں اپنے خفیہ ٹھکانوں سے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کے علاوہ عام شہریوں کو بھی اپنا نشانہ بناتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختون خوا نسلی اور جغرافیائی لحاظ سے افغانستان سے ہمیشہ جڑا رہا ہے، البتہ سیاسی طور پر افغانستان سے الگ رہنے کی وجہ سے یہاں کئی چیزیں بدل چکی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں تحریکِ طالبان اور القاعدہ سمیت12 دہشت گرد تنظیمیں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور سیکیورٹی اہل کاروں پر حملوں میں ملوث ہیں۔

قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورت حال انتہائی نازک ہے، جہاں سرحد پار سے دہشت گرد آکر آباد ہوگئے ہیں اور ان سے قبائلی عوام کو دیگر اضلاع کی نسبت 100فی صد زیادہ خطرہ ہے۔ خیبر پختون خوا سے بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی اپنے آبائی وطن واپسی ہوئی ہے ، جب افغان شہری مہاجرین کی صُورت پاکستان میں داخل ہوئے تھے، تو انھیں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی گئیں، لہٰذا بعض عناصر کی جانب سے ان کی واپسی کے عمل کو متنازع بنانا سخت افسوس ناک ہے۔

افغان باشندوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اب ان کے مُلک میں امن و استحکام ہے۔ اُن کے آبائی علاقے آباد کاری کے قابل ہوچکے ہیں۔ نیز، افغانستان میں رقبے کے اعتبار سے آبادی کا تناسب خاصا کم ہے، تو ایسے میں پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ واپس جا کر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کریں۔

خیبر پختون خوا میں مسلسل تیسری بار پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے۔ صوبہ بد ترین انتظامی و مالی مشکلات سے بھی دوچار رہا ہے۔ صوبے کے مخصوص حالات بھی یہاں کے مکینوں کے لیے مستقل آزمائش بنے ہوئے ہیں۔ افغان جہاد سے لے کر دہشت گردی کی لہر تک سے خیبر پختون خوا ہی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

سرکاری دستاویز کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کے دور میں 405 ارب سے زائد کا قرضہ لیا گیا جب کہ ان کے دورسے قبل صوبے کا قرضہ 2 سو ارب روپے سے زائد تھا۔ موجودہ حکومت نے جو منصوبہ بندی کی ہے تو قرضوں کا حجم 1000 ارب سے زائد ہو جائے گا۔

دوران پریس کانفرنس وفاقی وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ دہشت گردوں کے زیر استعمال گاڑی پاکستان کی نہیں تھی، دہشت گردوں کی گاڑی افغانستان سے پاکستان سے آئی، حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی ،خودکش حملہ آور چار ماہ قبل افغانستان سے پاکستان آیا، یہاں خیبر پختون خوا حکومت کی کارکردگی پر ضرور سوالیہ نشان لگتا ہے۔

یعنی منصوبہ ساز مجرم اور اس کے مقامی ساتھی چار ماہ تک پاکستان میں مقیم رہے، لیکن ان کی موجودگی کا ریاستی انتظامیہ کو پتہ تک نہ چل سکا۔ عام طور پہ دہشت گردی کے ملکی اور عالمی نیٹ ورک جرائم پر مبنی معیشت پر انحصار کرتے ہیں، اس لیے ریاستی انتظامی ادارے اگر دیانتداری اور جانفشانی سے متذکرہ جرائم کے نیٹ ورک توڑ دیں تو دہشت گردوں کی اقتصادی لائف لائن کاٹی جاسکتی ہے لیکن ہمارے یہاں اس کے برعکس دہشت گردی کی گونج میں پولیس نے خود کو جرائم کی بیخ کنی جیسی ذمے داریوں سے مبرا کر لیا ہے ۔

دوسری جانب پولیس نے اپنی اصل ذمے داریاں یعنی کرائم فائٹنگ اور فوجداری نظام عدل کی تکمیل کے لیے جرائم کی جامع تفتیش کے تقاضوں کو بھی فراموش کر رکھا ہے جس سے بالواسطہ طور پہ کریمنل جسٹس سسٹم کمزور ہوا ، دوسری طرف اغواء، ڈکیتی اور اسمگلنگ پہ استوار دہشت گردوں کی معاشی سپلائی لائن بدستور کام کر رہی ہے اور محکمہ پولیس سمیت دیگر انتظامی ادارے اس کے خلاف پوری طرح متحرک نہیں۔

چنانچہ دہشتگردی کے اس قدر بڑے واقعات بارے ان سے کڑی جوابدہی قرین قیاس نہیں، ایسا سوچتے وقت ہمیں ان کی استعداد کار، میسر وسائل اور دائرہ عمل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ پولیس سمیت دیگر انتظامی ادارے اپنے مینڈیٹ کے مطابق جرائم کی بیخ کنی کے ذریعے دہشت گردوں کی قوت کو کمزور ضرور کر سکتے ہیں۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاک افغان بارڈر سے ملحقہ اضلاع میں کام کرنے والی پولیس فورس کو طاقتور دشمن سے نمٹنے کے لیے جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہوگا، دہشت گردی کے کسی بھی سانحہ کے اصل محرکات اور عواقب کو سمجھنے سے گریزاں پالیسی مسائل کو بڑھاوا دیتی رہے گی۔

ہماری مرکزی اور صوبائی اتھارٹی کو شہریوں اور پولیس اہلکاروں کو تحفظ دینے کی خاطر کوئی مربوط سیکیورٹی پالیسی مرتب کرنا ہوگی تاکہ جدید ٹیکنالوجی سے مسلح دشمن کو اس کے انداز میں شکست دی جا سکے۔ ادھر ٹی ٹی پی نے نہایت فخر کے ساتھ رواں سال ملک بھر میں کیے گئے حملوں کی تفصیلات سوشل میڈیا پہ جاری کر کے ہمارے اعتماد کو متزلزل کرنے کی کوشش کی ہے،جسے ناکام بنانا بہرصورت ناگزیر ہے۔

افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کو مسلح کرنے کے ساتھ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ فراہم کررہی ہے۔ جب ایسا ہے تو ہمیں بھی تو نئی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے لیے اِس وقت دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چُکا ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں پڑوسی مُلک، افغانستان میں پناہ لینے والے جنگ جُو گروپس کی طرف سے ہو رہی ہیں، جن میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروپ کو برداشت نہیں کرے گا۔ عجب ہی نہیں بلکہ انتہائی تکلیف دہ اور شرم ناک بات یہ ہے کہ یہ سب اُس پڑوسی، برادر مُلک کے خلاف کیا جا رہا ہے، جس نے افغانستان کی دہائیوں مدد کی، جہاں امریکی فوجیوں کی واپسی پر جشن منائے گئے۔

اب وہی مُلک افغان سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف بنا ہوا ہے۔ وہ کون سا الزام ہے، جو پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے پر نہیں لگا۔ روس آج تک پہلی افغان وار میں ہمارے کردار سے خوش نہیں۔ امریکا نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ پاکستان کو افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیموں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ پاکستان مسلسل افغان عبوری حکومت کو معلومات فراہم کر رہا ہے کہ وہاں کالعدم ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے ہیں، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے نہ صرف واضح شواہد موجود ہیں بلکہ افغان حکومت کو دیے بھی جاتے رہے ہیں لیکن افغان عبوری حکومت اِس طرف بالکل توجہ نہیں کر رہی، صرف دکھانے کو کبھی کسی کو گرفتار کر لیتی ہے لیکن کوئی بھی سخت اقدامات ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئے۔

دہشتگردی کے پھیلتے ناسور کو بہر صورت جیسے بھی ہے یہیں پر ختم کرنا ہوگا۔ قوم صرف دہشت گردوں کا خاتمہ دیکھنے کی خواہشمند ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول دے سکے جہاں بارود سے گونجتی ہوئی دہشت یا خوف نہ ہو۔ دہشت گردی کی نئی لہر نے سوچ کے بہت سے دروازے کھول دیے ہیں۔

ہمیں پاکستان سے باہر دیکھنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کے حمایتیوں کو تلاش کر کے سنگین سزائیں دینا ہوں گی، تاکہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کر سکے تاآنکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔

پاکستان بار بار دہائیاں دے رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو افغان حکومت کو اِس پر کان دھرنے چاہیے، پاکستان کو بھی سوچ سمجھ کر جوابی کارروائی کرنی چاہیے۔

پاکستان میں دہشت گردی زوروں پر ہے، اب تو سیکیورٹی فورسز پر تاک تاک کر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر مربوط حکمت عملی اپنانی چاہیے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے افغان حکومت کو پاکستان کا ساتھ دینے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہمسایے تبدیل نہیں کیے جا سکتے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں