9

ملک کے لیے جان قربان کرنے والے

[ad_1]

مادر وطن کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بڑھ کر کوئی قربانی نہیں۔ قوم کی آزادی اور سلامتی ان ہی بہادر جنگجوؤں کی قربانیوں کی مرہون منت ہے۔ شہدا امید اور استقامت کی کرن ہیں۔ شہدا اور غازی ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ہمارے شہدا کی قربانیاں اور قربانی کے جذبے کے ساتھ لڑنے کا عزم ہی ہمارے ارادوں کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور قوم کی آزادی اور سلامتی صرف پاک فوج کی بدولت ہی ممکن ہے۔ کچھ لوگ یہ شوشے چھوڑتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کے اہلکار قوم کے ٹیکسوں سے ہی تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔ اگر یہ اہلکار اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جانیں دیتے ہیں تو وہ اس کے لیے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔

ریاست کے بے شمار محکمے ہیں جن کے تمام ملازمین سرکاری خزانے سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں مگر فوج وہ واحد ادارہ ہوتی ہے جس کے جوان فوج میں ملک و قوم کے لیے جانوں کی قربانیاں دینے کے لیے بھرتی ہوتے ہیں جن کے لیے قربانیاں لازم و ملزوم ہیں جب کہ کوئی اور سرکاری ادارہ یا اس کے ملازمین ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان دینے کے پابند نہیں ہیں اور وقت مقررہ کی سرکاری ڈیوٹی دینے کے بعد اپنے گھروں میں وقت گزارتے ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔

ان سرکاری ملازمین میں محکمہ پولیس بھی شامل ہے جس کے افسران و اہلکار مقررہ ڈیوٹی کے بعد اپنے گھروں میں آرام کرتے ہیں جہاں ان کی جانیں محفوظ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی اگر دوران ڈیوٹی جرائم پیشہ عناصر سے مقابلہ ہو جائے تو مقابلے کی صورت میں ہی ان کا جانی نقصان ہوتا ہے مگر پولیس فوج کی طرح قربانی نہیں دیتی۔ کئی عشروں سے پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ چلی آ رہی ہیں۔ ہمارے ہمسایہ مسلمان ملک افغانستان کے ساتھ سرحدیں عشروں سے غیر محفوظ اور ملحقہ علاقے دہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔

افغان سرحدوں سے دہشت گرد جن میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ملک کے اندر بھی اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں۔ بلوچستان میں تو ان دہشت گردوں کو بھارت کی سرپرستی اور مالی معاونت حاصل تھی جس کے واضح ثبوت موجود ہیں ۔ پاکستان کا تیسرا بڑا صوبہ کے پی جہاں دس سالوں سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے جہاں صوبے کا کوئی علاقہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔

پشاور ہو یا ڈی آئی خان یا دیگر علاقے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں جہاں پاک فوج عشروں سے ان کا مقابلہ کر کے ان کے ٹھکانے ختم کر چکی ہے اور چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان بھی فوج کا کے پی میں ہوا ہے اور پولیس اور عام لوگ بھی آئے دن وہیں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سابق وفاقی حکومت پر الزام ہے کہ اس نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو رعایت دے کر کے پی میں دوبارہ جمنے اور داخل ہونے کا موقعہ دیا جس کی سزا ان کی اپنی ہی حکومت میں عوام بھگت رہے ہیں اور پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے کے پی کے میں ہی دہشت گردوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ جانیں قربان کی ہیں اور عوام کی حفاظت کے لیے پاک فوج کی قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

آرمی پبلک اسکول کا سانحہ بھی پشاور میں کے پی کے ہی میں پیش آیا تھا اور اسی صوبے میں پاک فوج نے سب سے زیادہ جانیں قربان کی ہیں۔ کے پی میں تیسری بار بھی پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو چکی ہے جسے اپنے صوبے کی مخدوش صورت حال اور آئے دن ہونے والی دہشت گردی کی کوئی فکر نہیں۔سیکیورٹی اداروں پر تنقید کرنے والے پی ٹی آئی کے قائدین شان بان سے حکومت کر کے گئے کبھی انھوں نے خود کو عوام کا خادم تک نہیں سمجھا تھا۔

سرکاری وسائل پر شاہانہ وقت گزارا۔ اب بھی ان میں سے بہت سے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات اسی طرح لے رہے ہیں جس طرح سرکاری ملازمین لیتے ہیں اور ملک کے لیے جان قربان کرنے کی ذمے داری بھی ان کی نہیں ہے۔

فوج ملک و قوم کی محافظ ہوتی ہے وہ صرف تنخواہ کے لیے نوکری نہیں کرتی کیونکہ نوکر کبھی قربانیاں نہیں دیتے جب کہ اس کے برعکس سیاستدان اور ارکان اسمبلی سرکاری وسائل بھرپور طور پر استعمال کرتے ہیں۔

وہ حکومت سے رکن قومی اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات لے کر خود کو سرکاری نوکر نہیں سمجھتے بلکہ سرکاری حلف اٹھا کر وہ بھی اب پابند ہو چکے ہیں کہ وہ ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان پر کھیل جائیں کیونکہ وہ بھی ایک لحاظ سے سرکاری نوکر ہیں مگر ان کی سوچ اس قدر پست ہے کہ وہ ملک کے لیے جانیں قربان کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں۔

عام سرکاری نوکر اور ملک کے محافظ میں واضح فرق ہوتا ہے، محافظ کا کام ہی ملک کے لیے جان دینا ہوتا ہے، رکن اسمبلی کی طرح وہ محض تنخواہ کے لیے نوکری نہیں کر رہا ہوتا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں