11

چین : ترقی کی حیرت انگیز مثال (دوسرا حصہ)

[ad_1]

پچھلے کالم کا اختتام چین کے دارالحکومت بیجنگ کے ذکر پر ہوا تھا لہٰذا اس عظیم شہر کے بارے میں بھی کچھ حقائق بیان کر دیے جائیں۔ چھ ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا بیجنگ دنیا کا سب سے بڑا دارالحکومت ہے جس میں چین کی تمام بڑی سرکاری کمپنیوں کے علاوہ پانچ سو فارچیون گلوبل کمپنیوں کے مرکزی دفاتر موجود ہیں۔

دنیا کے سب سے زیادہ ارب پتی اسی شہر میں رہتے ہیں، یہاں 175 سے زیادہ ملکوں کے سفارت خانے ہیں۔ ثقافتی اعتبار سے بیجنگ کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے کہ اس شہر کے سات تاریخی اور ثقافتی مقامات یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔ تین ہزار سال پرانے اس شہر کی جی ڈی پی 600 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جو اس کی غیر معمولی معاشی طاقت کا مظہر ہے۔ اب ہم چین کی تہذیب اور تاریخ پر جاری بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

چین دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں اور عظیم ترین سلطنتوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے داستان گو ہمیں اگر چین کے قصے سناتے رہے تو چینیوں کو بھی برصغیر سے کچھ کم دلچسپی نہ تھی۔ تب ہی پندرہ سو اور تیرہ سو برس پہلے فاہیان اور ہیون سانگ نے برصغیر کا سفر اختیار کیا، دونوں دنیا کے نامی گرامی سیاحوں میں شمار ہوتے ہیں، انھوں نے اپنے سفر نامے لکھے جو شہرت عام بھی رکھتے ہیں اور قبول دوام بھی۔

چین ایک عظیم الشان سلطنت، تہذیب کا ایک ایسا تسلسل جو ایک دن کے لیے بھی منقطع نہیں ہوا ۔ یورپ اور شرق اوسط کے ملکوں کو بھی ہمیشہ اس کی شاندار تاریخ و تہذیب نے لبھایا۔ تیرھویں صدی میں چنگیز کے بیٹے قبلائی خان کو جو چین کا گورنر تھا، سرزمین چین کچھ اس طرح بھائی کہ وہ یہیں کا ہو رہا۔ اپنا دارالسلطنت قراقرم سے پیکنگ لے گیا، اس کی فوجوں نے چین کو فتح کیا تھا اور مفتوح چینیوں نے وہ حساب قبلائی خان کا دل جیت کر چکایا۔

بیسویں صدی آزاد منش اور آزاد رو سیاحوں کے لیے ایک عذاب ناک صدی ثابت ہوئی۔ کہاں مارکو پولو، ابن بطوطہ ، فاہیان اور ہیون سانگ کا زمانہ کہ جدھر گھوڑے کا جی چاہا لے کر ہوا ہوا، اب تو ویزا پاسپورٹ کے وہ قصے ہیں کہ نو بیاہتا بیویاں بھی برسوں اپنے شوہروں کے پاس پہنچنے کی راہ دیکھتی ہیں۔

یوں تو چین کو ہندوستان سے افیون کی درآمد صدیوں سے جاری تھی لیکن اٹھارویں صدی کے آخر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے ایک منافع بخش تجارت میں بدل دیا، کمپنی نے چینیوں کو افیون کے نشے کی طرف راغب کیا، یہاں تک کہ ملک کی اکثریت افیون کی دلدل میں دھنس گئی۔

چینی حکومت نے سخت ترین اقدامات کے ذریعے افیون کی تجارت پر پابندی عائد کرنا چاہی لیکن برطانوی تاجر اس زہر کی تجارت سے لاکھوں پونڈ کما رہے تھے اور تاج برطانیہ کے خزانے بھی اس کاروبار پر وصول کیے جانے والے محصولات سے چھلک رہے تھے، اپنے قومی اور انفرادی منافع کو بچانے کی خاطر برطانیہ نے ’’ قومی وقار‘‘ کی دہائی دے کر وہ جنگ چھیڑ ی جو تاریخ میں ’’ جنگ افیون‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ ’’ تجارت‘‘ کے نام پر برطانوی تاجروں نے چین کے شہروں اور دیہاتوں میں افیون کے ڈھیر لگا دیے۔

آزاد تجارت کی اصطلاح آج کل بہت استعمال کی جاتی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد تجارت کے نام پر کئی سو برسوں سے طاقتور ملکوں کی جانب سے من مانی شرائط منوانے کا سلسلہ جاری ہے۔ چین میں 18 ویں صدی کے دوران افیون کی تجارت اور فروخت پر پابندی عائد کردی گئی تھی کیونکہ ملک میں افیون کا نشہ کرنے والی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ چین میں افیون کو ایک نشے کے طور پر پرتگالی تاجروں نے متعارف کرایا تھا۔

اس دور میں برطانیہ میں چائے پینے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی اور چائے کی درآمد بہت منافع بخش کاروبار تھا۔ برطانیہ لاکھوں پاؤنڈ کی چائے چین سے درآمد کرتا تھا لیکن اس کے پاس چین کو برآمد کرنے کی کوئی بڑی اشیا موجود نہ تھیں، لہٰذا اس نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ چین میں انتہائی منافع بخش افیون بیچ کر تجارتی خسارے کو فائدے میں تبدیل کردیا جائے۔ برطانیہ اس وقت تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے بنگال پر پنجے گاڑ چکا تھا جہاں سے اس نے چین میں افیون کی غیر قانونی تجارت شروع کردی اور اس کا یہی اقدام 1840 کی پہلی افیون جنگ کا سبب بن گیا۔

برطانوی بحریہ نے دیکھتے ہی دیکھتے حملہ کر کے چین کی کمزور بحریہ کو نیست و نابود کردیا اور چین میں افیون کی کھلے عام فروخت کا باضابطہ آغاز ہو گیا۔ چین کو دوسری افیون جنگ برطانیہ اور فرانس کے خلاف لڑنی پڑی، ان دونوں جنگوں میں شکست کے بعد چین طویل عرصے تک غلامی میں چلا گیا اور ماؤ زے تنگ کی قیادت میں آزادی کی ایک طویل جنگ کی بعد 1948 میں غیر ملکی استعمار کے چنگل سے آزاد ہوا۔

برطانیہ دولت سمیٹ رہا تھا اور چین کی رگوں میں افیون کا زہر سرایت کر رہا تھا۔ یہ ایک طولانی قصہ ہے کہ چینی جو ’’ افیونی قوم‘‘ کہلانے لگے تھے، وہ کس طرح زہر کے اس بھنور سے نکلے ۔ اقبال نے ’’ ساقی نامہ‘‘ میں جب یہ کہا تھا کہ ’’ گراں بار چینی سنبھلنے لگے‘‘ تو ان ہی معاملات کی طرف اشارہ تھا۔

دنیا کو حیران کرنا شروع سے شعار رہا ہے چینیوںکا ۔ لگ بھگ سوا دو ہزار برس پہلے ان کے بادشاہ کو خیال آیا کہ شمال سے حملہ آوروں کا جب جی چاہتا ہے منہ اٹھاتے ہیں اور ہماری بستیوں پر یلغارکردیتے ہیں، سو ایک دیوار بنائی جائے۔ لیجیے صاحب چینی دیوار بنانے لگے۔ ہزارہا میل لمبی،اونچائی کہیں پندرہ بیس فٹ،کہیں پچاس فٹ سے اونچ،دیوار کے ساتھ ساتھ ایک خندق بھی چلتی چلی گئی ہے،اتنی لمبی کہ ہماری بڑی بوڑھیاں دیکھیں تو شیطان کی آنت سے تعبیرکریں،یہ دیوار چاند سے نیل آرم اسٹرانگ اور ان کے ساتھیوں کو نظر آئی تھی۔

چاند سے نظر آنے والی دیوار چین بنانے والی چینی قوم جب افیون کے نشے سے چونکی تو اسے خیال آیا کہ ہم نے بہت دنوں سے دنیا کو حیران نہیں کیا ہے، اس بات کا ذہن میں آنا تھا کہ نئی صف بندیاں ہونے لگیں ۔ ماؤزے تنگ کی قیادت میں16اکتوبر 1934کو چینیوں نے لانگ مارچ شروع کیا اور 20اکتوبر1935کو چھ ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کر کے بیس ہزار سرخ فوجی شمالی ٹینسی تک جا پہنچے، یہ راستہ برف سے ڈھکی ہوئی وادیوں، زہریلی دلدلوں، 18پہاڑی خطوں ، چوبیس دریاؤں، بارہ صوبوں، دس جنگجو سرداروں اور چھ قبائلی آزاد علاقوں پر مشتمل تھا ‘اس راستے کوکبھی ہزاروں اور کبھی لاکھوں چینیوں نے پیدل چل کر، گھمسان کی جنگ لڑ کر، دنیا کے دو قہر ناک دریاؤں ، یانگسی اور توتو کی لہروں میں ڈوب اور ابھر کر عبورکیا۔

چیانگ کائی شک کی لاکھوں سپاہیوں پر مشتمل اور مسلح افواج سے روزانہ دو بدو لڑتے ہوئے اور اسے پسپا کرتے ہوئے ماوزے تنگ اور لین پیاؤ اور چو این لائی نے 368دن کے بعد جب اپنی عوامی سپاہ کے ساتھ ساتھ اپنے جوتے کھولے تو امریکا بہادر سے ہمارے کھرپا بہادر تک سب ہی کے منہ کھلے ہوئے تھے اور چین کی عوامی سپاہ تالابوں اور ندیوں کے کنارے جھکی ہوئی اپنے چہروں سے راستے کی گرد دھو رہی تھی اور اپنے ان لاکھوں ساتھیوں کو رو رہی تھی جو اس سفر میں کھیت رہے۔

ماوزے تنگ کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والے چینیوں کونہ اپنی شہنشاہیاں یاد رہیں، نہ افیون کے نشے کی سرمستیاں، دنیا نے دیکھا کہ خاک بسر چینی کس طرح راتوں رات عالمی طاقت میں شمار کیے جانے لگے اور ایک بار پھر چینی ساری دنیا کو حیران کیے دیتے ہیں۔ ڈنگ ژیاؤ پنگ کے فلسفے کے تحت چین آج ایک نئے رنگ میں سامنے آرہا ہے۔ اشتراکی چین کے زرعی نظام کو ختم کرتے ہوئے انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’ سب کا ایک پیالے میں کھانا ٹھیک نہیں ہوتا‘‘ انھوں نے زمینیں کسانوں میں بانٹ دیں، اب چین کے کسان اپنا اگاتے ہیں اور اپنا کھاتے ہیں۔  (جاری ہے)



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں