[ad_1]
یہ تو معلوم نہیں کہ ’’مرشد ‘‘کے ساتھ ایسا کیا مسئلہ ہوگیا کہ انھوں نے دورکہیں ’’بے درودیوار‘‘ سا ایک گھر بسانے کی تمنا کی تھی، یہاں تک کہ۔
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
حالانکہ اس زمانے میں جان بچانے والے یہ ڈاکٹر بھی نہیں تھے اورکسی کی موت پر ریڈی میڈ بیانات دینے والے بھی نہیں تھے اورابن انشا نے بن میں جابسنے کی جو بات کی تھی، اس میں بھی کنفیوژن ہے۔ اس نے دو وجوہات کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
جب شہرکے لوگ نہ رستا دیںکیوں بن میں نہ جابسرام کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اورکرے دیوانہ کیا
مطلب یہ کہ ایک تو ان کو ٹریفک کا مسئلہ تھا، لوگ ان کی سائیکل کو رستہ نہیں دیتے ہوں گے اوردوسرا شاید ان کی اوپری منزل میں کوئی شارٹ سرکٹ ہوگیا تھا،تو اورکرے دیوانہ کیا ؟ لیکن ہمیں اپنے متوقع فرار کی وجہ بلکہ وجوہات معلوم ہیں اس لیے بہت جلد آپ سننے والے ہیں ’’مجرم فرار ہونے میں کامیاب‘‘ ذرا یہ جو آج کل پاکستان میں ’’جھوٹ‘‘ کا بازار گرم ہے اسے دیکھ کر پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ کرکسی سمندر میں چھلانگ لگا دیں:
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
بلکہ اس وقت اگر کوئی عافیت میں ہے تو وہ اندھے، بہرے اورگونگے ہی ہیں ۔ اخبارات اور چینلز میں بیانات و تجزیات کا ایک طوفان نوح آیا ہوا ہے ۔ تجزیات اور بیانات بھی وہ جن میں سچ کا شائبہ اعشاریہ نو ہزار نو سو ننانوے ہے کیوں کہ بیانات دینے والوں کے نام سچے ہوتے ہیں، اگرچہ ان ناموں کے ساتھ علامہ، ڈاکٹر، پروفیسر، بیرسٹر کے دم چھلے ہوتے ہیں بلکہ تخلصات بھی۔اب تک تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح گزارہ ہوتا رہا لیکن جب سے کرائے کے بیانات دینے والے رکھے جانے لگے ہیں، صورت حال خرا ب سے خراب ہوتی جارہی ہے،آخر برداشت کی بھی حد ہوتی ہے ۔کرائے کے یہ بیانات دینے والے بیانات جاری کرنے کے اتنے دھنی ہیں کہ اگر اخبارات کے ایک دن میں اٹھ آٹھ پرچے نکلنے لگیں گے تو بھی ہرپرچے پر دو دو بیان چھپوا سکتے ہیں کیوں کہ
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
ایک زمانے میں عورتوں کے درمیان زبانی جنگوں کا بہت زیادہ رواج تھا چنانچہ جب دو پڑوسنوں یا سوتنوں یا سمدھیوں میں جنگ چھڑجاتی تو فریقین اپنی مدد کے لیے رشتے داروں سے کمک طلب کرلیتے تھے۔ اس طرح دونوں اطراف سے مشہورجنگ باز صف آرا ہو جاتے تھے ، نتیجے میں ایک ایسا شوربرپا ہوجاتا تھا کہ کسی کو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا تھا ، سمجھنا تو بہت دورکی بات ہے ۔
پھر آہستہ آہستہ ان جنگوں میں رشتہ داروں کے علاوہ کرائے کے سپاہی بھی شامل کیے جانے لگے چنانچہ گاؤں میں ایسی خواتین بھی پیدا ہونے لگیں جن کو کوئی بھی بوقت ضرورت ’’ہائر‘‘ کرسکتا تھا۔ اس فن میں وہ خواتین زیادہ مشہورہوتیں جن کے پاس طرح طرح کی گالیوں، کوسنوںاورطعنوں کا ذخیرہ زیادہ ہوتا اورمسلسل ریپڈ فائرنگ کے باوجود جن کی بندوقوں کی نالی گرم نہیں ہوتی تھی ۔یہ چونکہ پروفیشنل ہوتی تھیں تو اکثر ایسا بھی ہوجاتا کہ آج اگر ایک فریق کے ساتھ مل کر دوسرے فریق پر فائرنگ کرتی پائی گئی تو دوچار روزبعد دوسرا فریق اس کی خدمات حاصل کرکے پہلے والے فریق پر زبان کی گولیاں برساتا۔
یہ تقریباً ’’بنات النعش‘‘کا سامعاملہ ہوتا تھا۔ ایران و عرب میں بنات النعش یا نوحہ گر خواتین اورشمالی ہند میں یہ خواتیں رودالیاں کہلاتی تھیں، یہ کسی بھی مردے کی نوحہ خوانی کرنے کے لیے کرائے پر دستیاب ہوتی تھیں۔ مردہ چاہے دنیا کا نکما ترین، نکھٹو، بدصورت اوربرائیوں کامجموعہ ہو لیکن یہ بنات النعش اس میں دنیا بھر کی صفات بھربھر کرنوحہ خوانی کرتی تھیں ۔ غالب نے ستاروں کو بھی بنات النعش سے تعبیر کیاہے۔
تھیں بنات النعش گردوں، دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ، عریاں ہو گئیں
عبدالرحمان چغتائی نے غالب کے چند اشعار کو مصور کرکے مرقع غالب کے نام سے چھپوایا ہے جس میں اس شعر کو یوں مصور کیا گیا ہے کہ پانچ چھ خواتین کو سفید لباس میں ایک جگہ دائرہ بنا کر سوگوار حالت میں بٹھایاگیا ہے ۔ ہماری جوانی کے دنوں میں ایسی دو بہنیںبہت زیادہ مشہورتھیں جو کسی اورگاؤں کی تھیں لیکن ان کو دوردورکے دیہات میں میت پر نوحہ خوانی کے لیے بلایا جاتا تھا۔
ان میں ایک کا نام منارہ تھا جو بہت لمبی تھی اوردوسری کا نام چوہارہ تھا۔ دونوں جب موقع ’’واردات‘‘ پر پہنچ جاتیںتو چوہارہ میت کی پائنتی اور منارہ سرہانے کھڑی ہوجاتی تھیںاوراپنے مخصوص ذخیرہ الفاظ کی تھیلی سے طرح طرح کی تعریفیں اور صفات نکال نکال کر میت پر چسپاں کرتیں اورساتھ ہی مخصوص لے میں روتی بھی جاتیں، دونوں باری باری ایسا الاپتیں کہ بیٹھی ہوئی خواتین کاایک کورس بن جاتا، حیران کن بات یہ ہے کہ ان دونوں کی آنکھوں سے آنسو بھی دھڑادھڑ برستے تھے ۔کرائے کی ان بنات النعش میں ہم نے بہت سی نامورخواتین کو دیکھا ہے کہ چوہارہ اورمنارہ کی پائے کی کوئی اور پیدا نہیں ہوئی ، یہ بھی اصل میں ایک ’’فن ‘‘ ہے جو مشیران خصوصی یا معاونان خصوصی برائے اطلاعات کی طرح کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
[ad_2]
Source link