[ad_1]
اسلام آباد میں بیوروکریسی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ تیار کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک بنیادی شرط ریاستی ڈھانچے میں کمی کرنا ہے۔اکنامک منیجرز سول ملازمین کی پنشن پر وار کر کے سرکاری اخراجات میں کمی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اخبارات میں شایع ہونے والی اطلاعات کے مطابق حکومت ایک سال میں 300 ارب روپے کے اخراجات کم کرے گی۔ گریڈ 1سے 16 کی تمام خالی اسامیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ نئی سرکاری یونیورسٹیاں قائم نہیں کی جائیں گی۔
وفاقی حکومت صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز نہیں دے گی۔ انفرا اسٹرکچر کے منصوبے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت مکمل کیے جائیں گے۔ وفاقی وزارتوں پر نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی ہوگی۔ صوبائی حکومتیں آیندہ مالیاتی سال میں اپنی یونیورسٹیوں کی خود فنڈنگ کریں گے۔ آیندہ مالیاتی سال سے دفاع اور پولیس کے سوا تمام نئی بھرتیوں کے لیے رضاکارانہ پنشن اسکیم نافذ کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ یہ بھی خبریں شایع ہوئی ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پرانے فارمولے کو ختم کر کے نیا فارمولہ نافذ کرنے پر غور ہو رہا ہے۔
اس فارمولے کے تحت سروس اسٹرکچر کے اساتذہ اس بات کے پابند ہوں گے کہ پروویڈنٹ فنڈ کی طرز پر پنشن فنڈ بھی اساتذہ اور عمال کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔ ایچ آئی سی کے چیئر پرسن ڈاکٹر مختار کا کہنا ہے کہ تجاویز وزارت خزانہ کو بھیجی جا رہی ہیں۔ ایچ ای سی کی سالانہ 650 ارب روپے کی گرانٹ کی غیر ترقیاتی گرانٹ کا 40 فیصد حصہ جامعات اپنے ملازمین کی پنشن پر خرچ کررہی ہیں۔ نگران حکومت نے پنشن اصلاحات پر کام شروع کیا تھا۔ اب میاں شہباز شریف حکومت پنشن اصلاحات کو بجٹ سے قبل عملی شکل دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
ماہرین نے جو تجاویز تیار کی ہیں، ان کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد پنشن کی مدت 10 سال سے تک مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، تاہم وفات پانے والے ملازم کا کوئی بچہ معذور ہوگا تو اس صورت میں غیر معینہ مدت کے لیے پنشن ملے گی۔ پنشن اصلاحات کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں یہ تجویز بھی ہے کہ شہداء کی فیملی پنشن کی میعاد 20 سال مقرر کی جائے۔ ملازمین کی ریٹائرمنٹ ان کی پنشن کا تعین آخری 36 ماہ کی تنخواہ رقم کے 70 فیصد کی بنیاد پر ہوگی۔ ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ایک اور بری تجویز یہ ہے کہ پنشن میں اضافے کی شرح ایک رکھی جائے گی۔
پنشن میں افراطِ زر کی شرح سے اضافہ ہوگا مگر یہ اضافہ 10 فیصد تک ہوگا۔ یہ شرح اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت پنشن قواعد پر نظرثانی نہیں کرتی۔ اسی طرح سرکاری ملازمین 25 سال کی ملازمت پر ریٹائرمنٹ لیتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کی عمر تک 3 فیصد سالانہ جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق خام پنشن کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کمیوٹ کرا سکیں گے، اس وقت یہ شرح 35 فیصد ہے۔
چند سال قبل پنشن میں 30 سال سے زیادہ ملازمت پر سالانہ تین فیصد اضافہ کیا جاتا تھا جو 10 فیصد تک تھا۔ پنشن میں کمی کے بارے میں تیار ہونے والی تجاویز سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد مستقبل تاریک کردیں گی۔ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازم کی آخری تنخواہ پر 65 فیصد یا کمیوٹیشن کا 35 فیصد ادا کیا جاتا ہے، اگر نئے فارمولے پر عمل درآمد ہوا تو ریٹائرڈ ملازم کی پنشن میں 35 فیصد تک کمی ہوگی۔ پنشن میں اضافے کو افراطِ زر کی شرح سے منسلک تو کیا گیا ہے مگر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ پنشن میں سالانہ اضافہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔
گزشتہ دو برسوں میں افراطِ زر کی شرح تین ہندسوں تک بڑھی ہے اور اسی ماہ افراطِ زر کی شرح 34 فیصد کے قریب ہے، یوں اگر پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوا تو یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے میں کم ہوگا۔ پنشن کے بارے میں اس سمری میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ملازم کی وفات کے بعد بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی، اگر ملازم کا کوئی معذور بچہ ہو تو پنشن ساری زندگی ملے گی، اگر بیوہ کے انتقال کے بعد غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکی ہو تو پنشن ان کے نام منتقل ہوجائے گی۔
سرکاری آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ شق غلط استعمال ہوتی ہے، اگر خاندان میں بعض کیسوں میں 40 سے 50 سال تک پنشن دی جاتی ہے تو یہ صورتحال تشویش ناک تو ضرور ہے مگر چند افراد کی بدعنوانی کی سزا بیوہ کو دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر صورت میں بیوہ کو تمام عمر پنشن ملنی چاہیے۔ ایک اور افسوس ناک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران شہید ہونے والے ملازمین کے لواحقین کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی۔
اگر حکومت ہر شہید ہونے والے سرکاری ملازمین کے لواحقین کو خصوصی پیکیج دیتی ہے تو پھر 10 سال کی پابندی درست ہے ورنہ یہ شق سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس فورس میں مایوسی پھیلانے کا باعث ہوگی۔ موجودہ قوانین کے تحت 25 سال تک ملازمت کرنے والا شخص ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد حاصل کرتا ہے مگر نئی تجویز کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر تک کے حساب سے 3 فیصد سالانہ جرمانہ اس کی پنشن سے حذف کیا جائے گا۔ ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین میں سب سے زیادہ مراعات عدالتی شعبے کو مل رہی ہیں۔
اس کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کو مراعات حاصل ہیں۔ عدلیہ اور ڈی ایم جی کے مقابلے میں باقی تمام سرکاری ملازمین کو بہت کم مراعات حاصل ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسروں کو جو الاؤنس ملتے ہیں وہ الاؤنس سیکریٹریٹ سے چند میٹر پر قائم حکومت سندھ کے ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو مکمل میڈیکل کوریج حاصل نہیں ہے۔
غریب ملازم یا اس کی اہلیہ یا بچہ کسی مہلک مرض کا شکار ہوجاتا ہے تو اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے مہینوں سیکریٹریٹ کے چکر لگانا پڑتے ہیں اور جس ملازم کے پاس سفارش نہیں ہوتی یا وہ کسی بااثر فرد کو کمیشن دینے پر تیار نہیں ہوتا تو اس کو علاج پر کی جانے والی رقم واپس نہیں ملتی۔ سرکاری ملازمت کے لیے بروقت پنشن کا حصول ایک اور دردناک باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ریٹائر ہونے والے ملازم کو پہلے اپنے محکمے میں سفارش یا کمیشن دے کر فائل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اس کے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر کے معاملات اور زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کی ایک کشش تو اختیارات کا حصول ہوتا ہے تو دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ، جی پی فنڈ اور گریجویٹی کی رقم ملنے کی ہوتی ہے، مگر اختیارات کا معاملہ عدلیہ، پولیس اور چند دیگر محکموں تک محدود ہے، مگر ملازمین کی اکثریت کی کشش تنخواہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ملنے کے علاوہ پنشن کے فوائد کی ہوتی ہے، اگر سرکاری ملازمت میں یہ کشش ختم کردی گئی تو ذہین نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمت میں کوئی کشش نہیں رہے گی۔
پنجاب میں اساتذہ اور دیگر ملازمین نے تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں دینے اور پنشن کی کمی کے خلاف تحریک شروع کی۔ پنجاب کے ہر ضلع کے سیکڑوں اساتذہ اور دیگر ملازمین کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا پڑا اور ان کی گرفتاریاں ہوئیں۔ انھیں جیلوں میں بند کیا گیا۔ س بات کا امکان ہے کہ یہ تحریک وفاق اور دیگر صوبوں تک پھیل جائے گی۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس کم ہونا چاہیے۔
زیادہ بوجھ امیر پر ہونا چاہیے مگر غریب سرکاری ملازمین سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ نیو لبرل ازم کے فلسفہ کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہونے جا رہا ہے۔ یورپی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے۔ بھارت کی حکومت نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر شہری کو پنشن کے نیٹ ورک میں شامل ہونے کا منصوبہ شروع کیا ہے، مگر پاکستان میں یہ مراعات کم کی جارہی ہیں۔
[ad_2]
Source link