7

کراچی: بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس وصولی کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

[ad_1]

  کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس وصولی کیخلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے استفسار کیا کہ دوسرے صوبوں میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے یا نہیں؟، آپ بیٹھ جائیں آپ سے سوال نہیں کیا، عدالت نے میئر کراچی مرتضی وہاب کو بولنے سے روک دیا۔

جماعت اسلامی کے وکیل عثمان فاروق ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ اس معاہدے کے مطابق کے ایم سی کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ کے ایم سی پر ابھی ایک ارب 56 کروڑ روپے واجبات ہیں۔ یہ معاہدہ صرف کے الیکٹرک کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا ہے۔ تنازع کی صورت میں شہری کیخلاف کارروائی کا اختیار کے ایم سی کے پاس نہیں کے الیکٹرک کے پاس ہے۔

عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے کہا لگتا ہے کے الیکٹرک کے مفاد کے لئے یہ معاہدہ کیا گیا ہے۔ یہ ایسا معاہدہ ہے جس میں معاہدے کرنے والوں کے نام واضح نہیں ہیں۔ گواہوں کے شناختی کارڈ نمبرز تک درج نہیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ ہم اصل معاہدہ منگوالیتے ہیں تاکہ واضح ہوجائے، یہ بتائیں کراچی مینسپل کارپوریشن کے پاس آؤٹ سورس کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟۔

کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف دیا کہ کے ایم سی کے پاس لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا اختیار ہے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے مقامی حکومتوں کو بااختیار نہیں بنایا۔ بد قسمتی سے پارلیمان نے مقامی حکومتوں کو بااختیار نہیں بنایا۔

عدالت نے جماعت اسلامی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کل آپ میئر بن جائیں تو آپ کیا کریں گے؟ عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ سپریم کورٹ کے آرڈرز موجود ہیں، جہاں مقامی حکومتوں کا نظام واضح ہے۔

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کونسل میں معاملہ جانا چاہئے؟ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ کونسل کو مضبوط ہونا چاہئے بڑے فیصلے بھی کونسل میں ہونے چاہئیں۔ کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف دیا کہ کے ایم سی خود بل نہیں دیتی، ہم میئر کے آفس کی بجلی بھی منقطع کرچکے ہیں۔ عدالت نے کے الیکٹرک کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کونسلز کا حال یہ ہے کہ ایک سو کی جگہ 2 ہزار لوگ بھرتی کئے ہوئے ہیں۔ کونسلز کو مضبوط کرنا چاہئے تاکہ شہریوں کے حقیقی مسائل حل ہوسکیں۔ جماعت اسلامی کا بھی یہی موقف ہے کونسل کو بااختیار بنایا جائے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ سٹی کونسل اس معاہدے کی منظوری دے چکی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ایڈمنسٹریٹر کے دور میں کونسل کہاں تھی؟ ایڈمسنٹریٹر کے معاہدے کی کیا قانونی حیثیت ہے؟۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ درخواستگزاروں نے رولز کو چیلنج نہیں کیا، رولز کے مطابق کے ایم سی کو اس معاہدے کا اختیار تھا۔ درخواستگزار خود اعتراف کررہے ہیں کے ایم سی ٹیکس کو لگانے کا اختیار ہے۔ جسٹس صلاح الدین نے استفسار کیا کہ مگر اس کا فائدہ کس کو ہوگا یہ اہم ہے، کسی اور اتھارٹی کو فائدہ کیوں پہنچے؟۔

میئر کراچی نے کہا کہ بینیفشری کراچی کے عوام ہوں گے، اس معاہدے کو ہم کونسل کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کونسل سے منظوری لی جائے گی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ مسئلہ یہ ہے آپ کے الیکٹرک کو کتنے پیسے دیں گے اور کیوں دیں گے؟ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس میں کہا کہ کارروائی کا اختیار کے ایم سی کسی اور ادارے کو کیوں دے؟، سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی کسی شق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ میئر تو کہہ رہے ہیں وہ ایگریمنٹ کا از سر نو جائزہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ مرتضی وہاب نے کہا کہ سندھ حکومت کے وکیل اس پر حتمی رائے نہیں دے سکتے، کے ایم سی کے وکیل ہمارا موقف دینے کیلئے موجود ہیں۔

سندھ حکومت کے وکیل نے موقف اپنایا کہ اربوں روپے کے ٹیکس کا معاملہ ہے، مفاد عامہ کیسز میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کمرشل اور رہائشی صارفین کو الگ الگ کیوں ٹریٹ نہیں کرتے؟۔ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ 12 ہزار اور 18 ہزار روپے کے بلز پر صرف 50 روپے مانگے جارہے ہیں۔

میئر کراچی مرتضی وہاب نے کہا کہ پہلے 200 سے 500 روپے لیے جارہے ہیں، ہم  نے شہریوں کو ریلیف دینے کے لئے ٹیکس کم کردیا۔ اب 50 روپے سے 2 سو روپے تک وصول کیئے جائیں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جو زیادہ آمدنی والے ہیں، ان سے زیادہ کیوں نہیں لیتے؟ کمرشل کا ٹیکس تو بڑھنا چاہئے۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ کروڑوں روپے کمارہے ہیں، ان سے بھی 2 سو روپے لیں گے؟ آپ تمام شہریوں اور کاروباری لوگوں کو یکساں بل دیں گے؟ جو لوگ چند ہزار روپے کمارہے ہیں ان سے بھی وہی رقم لیں گے؟ مرتضی وہاب نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں، جو رقم آئے گی اس کی تفصیلات ویب سائٹ پر موجود ہوں گی۔ میں شفافیت کو یقینی بناؤں گا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا کے الیکٹرک یقین دلا رہی ہے کہ اس ٹیکس کی عدم ادائیگی پر بجلی نہیں کاٹیں گے؟ کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف دیا کہ یقین دہانی نہیں کرواسکتے، ہم نیپرا کی ہدایات پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم 3 ماہ کا موقع تو ملنا چاہئیے، مسلسل 3 ماہ ادائیگی نا ہو تو کارروائی ہو۔ کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف دیا کہ کے ایم سی کے 50 روپے کے ٹیکس کے لئے ہم الگ نظام نہیں بناسکتے۔ کوئی بل ادا نہیں کرے گا تو کارروائی ہوگی۔

درخواست گزار طارق منصور ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ بجلی شہریوں کا بنیادی حق ہے، اگر کے ایم سی کا بل نا دیں تو بجلی کاٹ دی جائے گی۔ کے ایم سی اور کے الیکٹرک کے درمیان ادائیگی کا تنازع تھا۔ کے الیکٹرک کی رقم ادا کرنے کے لئے شہریوں کے اسٹیک پر معاہدہ کرلیا گیا۔ اس معاہدے سے صرف کے الیکٹرک کا فائدہ ہوگا، شہریوں یا کے ایم سی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم کے ایم سی کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں، کے الیکٹرک کو نہیں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ معاملہ کونسل میں لے جائیں گے تاکہ از سر نو جائزہ لیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ قرارداد منظور ہوجائے اور لوگوں کی رائے نا آئے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ بعض قراردادیں منظور ہوجاتی ہیں اور پوری پارلیمان خاموش رہتی ہے۔

میئر نے کہا کہ کوشش کریں گے سو دو سو یونٹس تک والے صارفین پر میونسپل ٹیکس کا اطلاق نا ہو۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیئے کہ  10 ہزار روپے تک کے بل والوں کو تو استثنیٰ دیا جائے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے موقف دیا کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے اور تمام ضابطوں کے مطابق کام کریں۔ میئر کراچی نے کہا کہ میں کمیٹی بناؤں گا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر کام کروں گا۔ عدالت نے کہا کہ ایسا کام ہو جس میں شفافیت بھی نظر آئے ، کونسل کا وژڈم نظر آئے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیئے کہ عبوری فیصلہ آج ہی جاری کیا جائے گا۔ میئر کراچی نے کے ایم سی کے وکیل حسن عابدی ایڈوکیٹ کے ذریعے تحریری بیان عدالت میں جمع کرادیا۔

جمع کرائے گئے تحریری بیان میئر کراچی کی جانب سے  کے ایم سی اور کے الیکٹرک کے درمیان معاہدے پر نظرِ ثانی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، سروس چارجز براہ راست کے الیکٹرک کے ذریعے کٹوتی کیئے جاسکتے ہیں اور کوئی دوسری کٹوتی براہ راست نہیں کی جائے گی۔ اس پر غور کے لیے کونسل کے اراکین کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے جائیگی۔ معاہدے کو منظوری کے لیے کونسل میں پیش کیا جائے گا۔ تاہم ٹیکس ان شہریوں پر عائد نہیں کیا جائیگا جو کے الیکٹرک کا 10 ہزار روپے سے کم بل ادا کرتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں